"KDC" (space) message & send to 7575

سندھ میں گورنر راج کے امکانات

2008ء کے انتخابات کے بعد سندھ میں پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی نے حکومت کی تشکیل دی۔ کراچی میں تینوں جماعتیں آپس میں متحارب تھیں۔جب وہ چند مہینے ایک دوسرے کی ساتھی رہیں تو کراچی میں امن کی بحالی کی امید پیدا ہوئی لیکن یہ امید بھی نقش برآب ثابت ہوئی کہ اسی دوران سابق صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کے آتش فشانی بیانات اور دیگر صوبائی وزراء کی سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت تینوں پارٹیاں دست و گریبان ہو گئیں۔ ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں ریسرچ کے شعبہ جات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ان عوامی اداروں کو ذوالفقار مرزا کی اچانک پھرتیوں کے بارے میں بین الاقوامی پریس کی طرز پر گہرائی میں اترنا چاہیے تھا تاکہ ان کی اچانک وزارت داخلہ سے علیحدگی اور قرآن پاک سر پر رکھ کر پریس کانفرنسوں کے بارے قوم کو حقائق سے آگاہ کیا جاتا۔
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کراچی اور بلوچستان کے بگڑتے ہوئے حالات کو کنٹرول کرنے کے لئے کوئٹہ اور کراچی میں بھی اپنی عدالت لگائی۔ انہوں نے بڑی جرأت مندی سے ہر سیاسی پارٹی کے عسکری و نگز کے خاتمے پر زور دیا‘ بعض سیاسی جماعتوں کی نشاندہی بھی کی اور جوائنٹ ایکشن انکوائری کی رپورٹ کی روشنی میں سخت اقدامات کرنے کے احکامات بھی دیئے لیکن ان احکامات پر حکومت نے عمل نہ کیا۔ بدقسمتی سے سابق چیف جسٹس کو نان ایشوز میں مصروف کروا دیا گیا اور ان کے احکامات پر حکومت نے اپنے ذاتی مفادات کے تحت عمل نہ کر کے پاکستان کی ریاست کا ڈھانچہ کمزور کر دیا۔ تب راقم کا مؤقف یہ تھا کہ سپریم کورٹ نے جن سیاسی پارٹیوں میں عسکری ونگز کی نشاندہی کی ہے‘ وہ آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت کالعدم قرار دی جا سکتی ہیں۔
کراچی میں کبھی سیاسی اجارہ داری کے لئے فسادات ہوا کرتے تھے۔ محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابی شکست کے بعد کراچی میں پہلی بار سیاسی بنیادوں پر فسادات ہوئے لیکن فیلڈ مارشل ایوب خان نے آہنی ہاتھوں سے ان کو آگے بڑھنے سے روک دیا حالانکہ اس وقت کے چند فعال، طاقتور اور سوشلسٹ نظریہ کے حامی طلباء راہنماؤں نے کراچی میں جلاؤ گھیراؤ کی منصوبہ بندی کی تھی جسے نواب آف کالا باغ نے ناکام بنا دیا۔ اب ان میں فرقہ وارانہ اور مذہبی دہشت گردی کا عنصر شامل ہو گیا ہے۔ ان دہشت گردوں کو فنڈنگ مشرقی وسطیٰ اور بھارت سے ہوتی ہے۔ ان دہشت گردوں نے سیاسی پارٹیوں میں پناہ گاہیںبنائی ہوئی ہیں اور ہر طاقتور سیاسی گروہ کو آگے لگا لیا ہے۔ انہوں نے کراچی میں مضبوط پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں۔ کراچی کے حالات پر قابو پانا اتنا مشکل کبھی نہ تھا جتنا اب ہے۔ پہلے صرف جرائم پیشہ افراد کی سیاسی پشت پناہی ہوتی تھی جن سے پاکستان کی ایجنسیاںآگاہ ہیں، مگر سیاسی مصلحتوں کے تحت بڑا قدم نہ اٹھایا۔ اب کراچی کے حالات میں پیچیدگیاں آچکی ہیں۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے سیاسی جماعتوں میں جن مجرمانہ گروہوں کی نشان دہی کی تھی‘ ان کے لوگ بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور قتل و غارت کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ ان پر سختی سے ہاتھ ڈالنا پڑتا ہے لیکن ایسی صورت میں ان کے پشت پناہ جمہوریت کے ڈی ریل ہونے اور جمہوریت کے حسن میں بگاڑ جیسا واویلا کرنے لگتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عسکری قیادت صحیح نشانہ لگانا چاہتی تھی لیکن حکومت سیاسی مصلحتوں کے تحت کارروائی کرنے سے گریزاں رہی۔
جنرل راحیل شریف اب آپریشن کی کامیابی کے لئے آخری حد تک جانے کو تیار ہیں تو سندھ میں گورنر راج نافذکر دینا چاہیے۔ سند ھ میں گورنر راج نافذ کئے بغیر امن و امان قائم نہیں ہو سکتا کیونکہ حکومتی مسخرے ان کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے میں ہمہ تن مصروف ہیں اور سندھ میں کرپشن، اقربا نوازی اور سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی کرنے والی بیوروکریسی دشواریاں پیدا کر رہی ہے۔ گزشتہ دنوں فوج نے پولیس کو غیر سیاسی بنانے پر زور دیا تھا‘ کیونکہ پولیس 1990ء سے سیاست زدہ ہو چکی ہے۔
کراچی میں فسادات کا سلسلہ جنرل ضیاء الحق کی حکومت کے دوران شروع ہوا جس کو کنٹرول کرنے کی کوشش نہیں کی گئی اور کراچی بد امنی کے شعلوں کی نذر ہوتا چلا گیا۔ جنرل ضیاء الحق کے بعد بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف دو دو مرتبہ اقتدار میں آئے۔ دونوں نے سیاسی مفادات کی خاطر خاموشی اختیار کیے رکھی۔ اگرچہ دونوں کے دور حکومت میں ایک ایک بار کراچی میں آپریشن ہوا جس سے امن بحال بھی ہوا مگر یہ دائمی ثابت نہ ہو سکا اور حکیم سعید جیسی ہر دلعزیز اور محب وطن شخصیت کو بھی قتل کر دیا گیا۔ اب کراچی پر امن شہریوں کے لئے جہنم زار بن کے رہ گیا ہے۔ پھر امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین کے ممالک نے بے نظیر بھٹو اور نواز شریف‘ جو ان دنوں تنہائی اور مایوسی کا شکار تھے، سے میثاق جمہوریت کے نام نہاد معاہدہ پر دستخط کروا کے پاکستان کے 18 کروڑ عوام کو دو بڑی پارٹیوںکے ہاتھوں فروخت کر دیا۔ ملک میں اب فرینڈلی اپوزیشن عوام کو بے وقوف بنا رہی ہے‘ جبکہ ایم کیو ایم مصلحتاً کراچی اور حیدر آباد کے سحر سے باہر نہ نکل پائی۔
خطرناک حد تک گروپ بندی کی وجہ سے اب ایم کیو ایم مشکل میں ہے اور اچھی بات ہے کہ مزاحمت نہیں کر رہی‘ حالانکہ وہ معمولی باتوں پر بھی کراچی، حیدرآباد اور میر پور خاص کا زیادہ تر حصہ بند کرواتی رہی ہے۔ وزیر اعظم نوازشریف نے جنرل آصف نواز جنجوعہ کے ایکشن پلان کے تحت 19جون1992 ء میں ایم کیو ایم کے خلاف بے رحمانہ کارروائی کی تھی۔ اس کے نتیجہ میں ایم کیو ایم کے 14 ارکان قومی اسمبلی اور 26 کے لگ بھگ صوبائی اسمبلی کے ارکان مستعفی ہو گئے تھے اور الہٰی بخش سومرو نے قومی اسمبلی کے سپیکر کی حیثیت سے ان کے استعفے منظور کر لئے تھے جبکہ چند ایک ارکان قومی اسمبلی نے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو 1992 ء اور 1994ء کے بعد 11مارچ کو نائن زیرو پر ہونے والی کارروائی ایم کیو ایم کے خلاف سب سے بڑی کارروائی ہے اور اس کے رد عمل کو آئی ایس پی آر نے بہترین انداز میں زائل کر دیا ہے۔
رابطہ کمیٹی کے بعض ارکان نے باربار اس بات پر زور دیا کہ کوئی مزاحمت نہیں ہوئی اور مکمل تعاون کیا گیا۔ در حقیقت اس کے علاوہ کوئی راستہ ہی نہیں تھا۔ بہرحال موجودہ حالات میں ایم کیو ایم کے خلاف آئین کے آرٹیکل 17 اور پولیٹیکل پارٹیز آرڈر2002 ء کے آرٹیکل 16,15 اور 17 کے تحت کارروائی کو خارج ازامکان نہیں دیا جا سکتا کیونکہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف، ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی اور ڈائریکٹر جنرل رینجرز نے ایک صاف اور واضح پیغام سیاسی حکمرانوں کو دے دیا ہے کہ افواج پاکستان ہر قسم کے دہشت گردوں کا کونے کونے سے صفایا کریں گی اور کوئی رکاوٹ درمیان میں نہیں آنی چاہیے۔
سابق صدر آصف علی زرداری کو یہ وارننگ پسند نہیں آئی‘ اسی لئے چپکے چپکے ایم کیو ایم اور حکمران جماعت کے اتحادیوں کو اکیسویں ترمیم کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہے۔ ایم کیو ایم بھی اندرونی طور پر خوف زدہ تھی اسی لئے وہ فوری طور پر سندھ حکومت میں واپس آنا چاہتے تھی لیکن آصف علی زرداری خطرے کو بھانپ گئے تھے۔ اگر ایم کیو ایم سندھ حکومت میں شمولیت اختیار کر لیتی تو پھر نواز شریف کو 11 مارچ کی رات کو سندھ میں گورنر راج نافذ کرکے سندھ حکومت کو صوبائی اسمبلی سمیت معطل کرنا پڑتا جس طرح انہوں نے 1998ء میں حکیم سعید کے قتل کے فوراً بعد ایم کیو ایم کو حکومت سے فارغ کر دیا تھا۔ یہ تاثر درست معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کراچی کو رینجرز اور عسکری ادارے کنٹرول کر رہے ہیں اور ایم کیو ایم کے ہیڈکوارٹر سے جو ملزمان گرفتار ہوئے ہیں‘ فوجی عدالتوں میں ٹرائل کر کے وہ اپنے انجام تک پہنچا دیئے جائیں گے۔ اسی پس منظر میں عسکری قیادت کے ترجمان سندھ حکومت کے فعال وزیر کی سرگرمیوں کا بھی جائزہ لے رہے ہوں گے جو اپنی شعلہ بیانی سے کنفیوژن پیدا کر رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں