"KDC" (space) message & send to 7575

چیئرمین سینیٹ کاانتخاب اور زرداری کا پر اسرار پیغام

رضا ربانی پر اتفاق، میثاق جمہوریت کی مفاہمانہ پالیسی نہیں بلکہ وزیر اعظم نواز شریف کی روایتی سست روی اور فیصلے کرنے کی صلاحیت کے فقدان کا نتیجہ تھا اوریہ بھی کہ سینیٹ کے چیئر مین کے انتخاب کے حوالے سے وزیر اعظم نواز شریف کی حکمت عملی ناکام ہوئی۔ حکمران جماعت کو یہ خفت نا اہل اور سیاسی بصیرت سے محروم کچن کیبنٹ کی وجہ سے اٹھانا پڑی۔ حقیقت یہ ہے کہ سینیٹ انتخابات میں حکومت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ صوبہ سندھ کو گزشتہ کئی سالوں سے اس کے حق سے محروم رکھا جا رہا ہے، یہاں سے چند ایک نشستوں پر صوبے سے باہر کے وفادار دوستوں کو پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ ٹکٹ دیتی رہیں۔ ان دونوں سیاسی جماعتوں نے اپنی بنیادی پالیسی سے انحراف کیا۔ حکمران جماعت نے اپنی جماعت کے تین ایسے افراد کو ٹکٹ دئیے جو پنجاب میں نہیں رہتے۔ انہوں نے پارلیمنٹ کے رکن ہونے کا اعزاز تو حاصل کر لیا لیکن انتخابی قوانین کی خلاف ورزی کی۔ وہ جہلم اور مری کے دور افتادہ علاقوں میں اپنے ووٹ کا جعلی اندراج کرا کے وزیر اعظم نواز شریف کی خصوصی عنایت سے سینیٹ کے ارکان منتخب ہو گئے۔ سینیٹ کے انتخابات میں جو تاریخی بد انتظامی دیکھنے میں آئی اس میں کچھ پارٹیوں کے رہنماؤں نے چہرے کالے کئے۔ میڈیا میں دکھایا گیا کہ بیلٹ بکسوں سے خالی کاغذبرآمد ہورہے ہیں۔ یہ طریقہ کار سابق صدر پرویز مشرف کے صدارتی الیکشن میں بھی دیکھنے میں آیا تھا۔ یہ وفاداری جانچنے کا پرانا اور غیر جمہوری طریقہ ہے ہوتا یوں ہے کہ پہلے ووٹر بیلٹ بکس میں خالی کاغذ ڈالتا ہے اور اپنا ووٹ باہر لے آتا ہے، اس ووٹ پر پارٹی کے خفیہ سیل کا، رکن خود نشان لگاتا ہے اور اگلے ووٹر کو دے دیا جاتا ہے، یوں بیلٹ کی زنجیر سی بن جاتی ہے۔ ووٹ کے تقدس کو پامال کرنے کا یہ پرانا طریقہ اس بار بھی صوبوں میں استعمال ہوا، یوں آئین کے آرٹیکل 226 اور سینیٹ الیکشن ایکٹ 75 کی شقوں59 اور 60 کی خلاف ورزی ہوئی جن میں سینیٹ کے لئے بھی خفیہ رائے دہی لازمی قرار دی گئی ہے۔ جن سینیٹروں نے انتخابات میں آئین و قانون کی خلاف ورزی کی‘ اُن سے کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ایوان بالا میں قانون سازی کرتے وقت ضمیر کی آواز پر عمل کریں گے۔
سینیٹ چیئرمین رضا ربانی کو چاہیے کہ وہ اپنی پہلی فرصت میں ادارے کو با وقار اور با اختیار بنانے پر بھرپور توجہ دیں۔ دنیا جہاں میں، ایوان بالا قومی وحدت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے قیام بنیادی مقصد، وفاق کی اکائیوں (صوبوں) کے مفادات کا تحفظ ہے، اسی لئے سارے صوبوں کو سینیٹ میں مساوی نمائندگی دی گئی۔ 1973ء کے آئین کے مصنفوں نے چھوٹے صوبوں کے مفادات کو متاثر ہونے سے بچانے کے لئے سینیٹ یا ایوان بالا بنایا۔ جس میں وفاقی وزیر مملکت جعفر ملک جن کا خاندانی پس منظر جنرل راحیل شریف سے ملتا جلتا ہے، میجر جنرل اختر ملک، میجر جنرل عبدالعلی ملک، جو پیش قدمی کرتے ہوئے چھمب جوڑیاں اور دریائے توی کو عبور کر کے اکھنور کے قلعہ تک پہنچ گئے تھے اور بقول جنرل موسیٰ خان، انہوں نے بھارتی حکمرانوں کے سینوں میں اپنے پنجے گاڑ دیئے تھے، کا اہم تاریخی کردار ہا ہے، ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ عبدالحفیظ پیرزادہ ان سے ہی رہنمائی حاصل کرتے تھے۔ دنیا بھر میں سینیٹ کو ایوان بالا کا نام دینا‘ اس کی خاص اہمیت ظاہر کرتا ہے۔ بہت سے ملکوں کی طرح پاکستان میں آبادی کی اکثریت کی نمائندگی کے پیش نظر مالیاتی بل کی منظوری کا اختیار ایوان زیریں قومی اسمبلی کو حاصل ہے، مگر اس میں ترامیم کی تجاویز سینیٹ کی طرف سے بھی آتی ہیں۔ ماضی میں سینیٹ کے ارکا ن اور چیئرمین غیر ملکی دورے پر ہی زیادہ رہے۔ چھوٹے صوبوں کا یہ شکوہ بجا ہے کہ سینیٹ نے اُن کی محرومیاں دور کرنے کے لئے خاطر خواہ کردار ادا نہیں کیا۔ چیئرمین رضا ربانی سینیٹ کے کردار کے حوالے سے امریکہ، انڈونیشیا، تھائی لینڈ اور دیگر ممالک کی مثالوں کو پیش نظر رکھیں، تا کہ ان ملکوں کی طرح سینیٹر صرف پارٹی ٹکٹوں کے بل پر نہیں بلکہ عوامی مقبولیت کی بنیاد پر منتخب ہوں۔ سینیٹ کو مزید غیر جانبدارانہ بنانے کے لیے اس کے انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر کرائے جائیں۔ اس بارے میں خاصی عرق ریزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے؛ تاہم رضا ربانی اس قومی ادارے کو فعال بنانے کے لئے یقینا بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
رضا ربانی کے چیئرمین بننے سے سینیٹ میں چیک اینڈ بیلنس آ جائے گا۔تحریک انصاف کے ارکان حقیقی معنوں میں عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے حکومت اور فرینڈلی اپوزیشن کو بے نقاب کریں گے۔ رضا ربانی ایوان بالا کو مالیاتی اختیارات دینے کا مطالبہ کریں تاکہ ہمارا قومی بجٹ صحیح معنوں میں قومی اسمبلی سے گزر کر سینیٹ کے با وقار ٹیکنوکریٹس کے سامنے پیش کیا جاسکے۔ پاکستان ان دنوں عملاً حالت جنگ میں ہے، جسے بچانے کے لئے وزیر اعظم نواز شریف کو چیئر مین پر اتفاق رائے سے پیشتر عوامی قیادت سے بھی مشورہ کر لینا چاہیے تھا؛ کیونکہ امریکہ میں ایسے مناصب کا انتخاب کرنے سے پہلے پینٹاگون سے مشاورت لی جاتی ہے۔ ان دنوں عسکری ادارے ملک کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے لیے کامیابی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔کراچی میں حالیہ آپریشن کے تناظر میں اکیسویں ترمیم پر سینیٹر رضا ربانی نے جن تاثرات کا اظہار کیا تھا وہ ملک کے وسیع تر مفاد کے پس منظر میں اچھا پیغام نہیںتھا۔ اسی طرح سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے سیاسی کیرئیر کے تجربات کی روشنی میں جناب رضا ربانی کو چیئرمین سینیٹ نامزد کر کے عسکری قوتوں کو پر اسرار پیغام دیا ہے۔ عسکری قوتوں نے کراچی میں جو شٹ اپ کال دی تھی اس کا اثر یہ ہوا ہے، حالانکہ آصف علی زرداری نے رضا ربانی کی شخصیت اور ان کے خاندانی پس منظر کا اندازہ ہی نہیں لگایا، رضا ربانی کے والد محترم کیپٹن عطا ربانی قائد اعظم محمد علی جناح کے پہلے اے ڈی سی رہے اور انہوں نے بانیٔ پاکستان کے بارے میں کئی اہم کتابیں لکھیں۔
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ رضا ربانی‘ 1988ء اور 1991ء میں زرداری صاحب کے بہت قریب رہے۔مارچ 1991ء میں سینیٹ کے انتخابات کے موقعہ پر محترمہ بے نظیر بھٹو نے رضا ربانی کو ٹیکنوکریٹ کی سیٹ پر ٹکٹ دینے سے پہلے راقم کو مشاورت کے لئے مدعو کیا؛ تا کہ بعد ازاں آئینی طور پر شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔ راقم نے سینیٹ الیکشن ایکٹ 75 کی وہ دفعات جن میں ٹیکنوکریٹس کی تشریح کی گئی تھی کے حوالہ سے انہیں بریف کیا۔ خدشہ تھا کہ چیف الیکشن کمشنر مرحوم حسین نعیم الدین ان کے کاغذات نامزدگی مستردکر دیں گے کیونکہ وہ ٹیکنوکریٹ کی تعریف پر پورے نہیں اتررہے تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے سید اقبال حیدر (مرحوم) کی موجودگی میں مجھے بتایاکہ ''آصف رضا ربانی ٹکٹ لینے پر بضد ہیں‘‘ لہٰذا محترمہ نے انہیں ٹیکنوکریٹ کی سیٹ پر نامزد کر دیا لیکن سابق چیف الیکشن کمشنر نے قانون کی پابندی کرتے ہوئے ان کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دئیے اُن کا تحریری فیصلہ سینیٹ الیکشن رپورٹ 91 میں تفصیل سے درج ہے۔ رضا ربانی کے آؤٹ ہونے پر سید اقبال حیدر بلا مقابلہ سینیٹر منتخب ہو گئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں