"KDC" (space) message & send to 7575

انتخابی جوڈیشل کمیشن

حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان گذشتہ عام انتخابات کے نتائج کی جانچ پڑتال کے لئے جوڈیشل کمیشن کے قیام پر اتفاق ہونے سے نہ صرف تقریباً دس ماہ سے جاری انتخابی کشیدگی کے خاتمے کی راہ ہموار ہو گئی ہے بلکہ مستقبل میں انتخابی عمل کو مکمل طور پر شفاف اور شکوک و شبہات سے مبرا رکھنے کے امکانات بھی روشن ہو گئے ہیں۔ دونوں جماعتوں کے درمیان جوڈیشل کمیشن کی تفصیلات طے پا گئی ہیں جن کے تحت جوڈیشل کمیشن اس بات کا تعین کرے گا کہ 11 مئی2013ء کے انتخابات شفاف و منصفانہ اور قانون کے مطابق کرائے گئے یا نہیں۔ آئین کے آرٹیکل 218 کی شق 3 کے تحت جوڈیشل کمیشن جائزہ لے گا کہ آیا یہ انتخابات دھاندلی زدہ تھے اور ان میں منظم طریقے سے نتائج کو متاثر کیا گیا، نیز یہ کہ ان انتخابات کا نتیجہ عوامی مینڈیٹ کے مطابق تھا یا نہیں اور منظم طریقے سے نتائج کو متاثر تو نہیں کیا گیا۔ تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان اختلافات کے آخری انتہا کو پہنچنے کے بعد مفاہمت کے ذریعے آئین کے حدود کے اندر ازالے کا راستہ تلاش کر لیا جانا بلاشبہ فریقین کی جانب سے اختیار کئے گئے جمہوری طرز عمل کی کامیابی ہے۔ ماضی میں ملک میں مارچ 1977ء کے انتخابات میں منظم دھاندلی کے خلاف ملک گیر تحریک قومی اتحاد نے شروع کی تھی‘ جس کے نتیجہ میں وزیر اعظم بھٹو اقتدار اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ ماضی کی اس تحریک کا بھی یہی تقاضا تھا کہ 7 مارچ 1977ء کے انتخابات کی جوڈیشل کمیشن کے ذریعے تحقیقات کرائی جائے اور تحقیقی عمل کو شفاف بنانے کے لئے وزیر اعظم بھٹو مستعفی ہو جائیں۔ کہا جاتا ہے کہ 7 مارچ 1977ء کے انتخابات کو متنازعہ بنانے میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ نواب صادق قریشی کا پراسرار کردار تھا۔ ویسے ہی انداز 11 مئی 2013 ء کے انتخابات میں اپنائے گئے۔
جوڈیشل کمیشن کے قیام کو بین السطور دیکھا جائے تو آپریشن ضرب عضب کا تسلسل معلوم ہوتا ہے۔ جنرل راحیل شریف ملک کے ہر ادارے سے ہر طرح کی دہشت گردی کے خاتمے کے لئے سرگرم عمل نظر آ رہے ہیں۔11 مئی 2013ء کے انتخابات میں بھی بعض بین الاقوامی کھلاڑیوں نے نگران حکومت کے توسط سے جو انتخابی دہشت گردی کروائی‘ اس کے سدباب کے لئے جوڈیشل کمیشن اہم کردار ادا کرے گا، لیکن ابھی عدالتی کمیشن کے قیام کی راہ میں آئینی وقانونی رکاوٹیں ہیں۔ عدالتی کمیشن کے قیام کے لئے حکومت کو قانون سازی کرنا ہوگی۔ ان دنوں قومی اسمبلی کا اجلاس ہو رہا ہے جو غالباً 27 مارچ تک جاری رہے گا جبکہ سینیٹ کا اجلاس6 اپریل سے شروع ہو گا۔ عدالتی کمیشن کے دائرہ اختیار کو قانونی شکل دینے کے لئے حکومت کے پاس دو راستے ہیں۔ ایک یہ کہ آرڈیننس جاری کرنا ہوگا لیکن قومی اسمبلی اور سینیٹ کی موجودگی میں ایسا ممکن نہیں ہے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ قانون سازی کے لئے جوڈیشل کمیشن بل ایوان میں لانا پڑے گا۔ یہ بل پارلیمانی ایکٹ کے تحت حکومت سادہ اکثریت سے منظور کراسکتی ہے؛ تاہم پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علماء اسلام (فضل الرحمن)کی جانب سے اس مجوزہ بل کی شدید مزاحمت ہو سکتی ہے۔ حکومت آرڈیننس کے نفاذ کو اگر ترجیح دے رہی ہے تو یہ آرڈیننس سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج ہو جائے گا۔ اندرونی طور پر دونوں ہی راستے حکومت کو محفوظ مقام کی طرف لے جا رہے ہیں۔ صورت جو بھی ہو‘ عمران خان کے لئے فیصلہ کن مرحلہ آن پہنچا ہے۔ آنے والے دنوں میں اگر ان کی قومی اسمبلی میں واپسی ہوتی ہے اور وہ حکمران جماعت کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر مجوزہ بل کی
حمایت میں دلائل دیتے ہیں تو اس طرح ان کی سیاسی ساکھ مجروح ہوتی نظر آئے گی۔عمران خان جوڈیشل کمیشن بنانے کے لئے جس مسودہ پر انحصار کر رہے ہیں اس میں آئینی، قانونی اور انتخابی حوالوں سے بہت سی خامیاں موجود ہیں۔ عمران خان کی فعال ٹیم‘ میں شامل اسحاق خاکوانی اور عبدالحفیظ پیرزادہ نے 26 اگست سے 30 اگست 2014 ء کے درمیانی وقفے میں جو ڈرافٹ مرتب کیاتھا اور راقم نے عمران خان کی خواہش پر جس کا انتخابی قوانین کے تناظر میں جائزہ لیا تھا، اس مسودہ کو عسکری قیادت کی بھی مکمل تائید حاصل تھی۔ اس مسودہ کی رو سے نواز حکومت گرتی ہوئی نظر آرہی تھی کیونکہ یہ 30 جون1977ء کو قومی اتحاد اور وزیراعظم بھٹو کے مابین معاہدے کا عکس تھا۔ اب جس معاہدہ پر عمران خان تاریخی کامیابی کا دعویٰ کر رہے ہیں، دراصل اس کا زہریلا اثر نکال کر اس کو چھ نکات سے چار نکات تک محدود کر دیا گیا ہے۔ مئی 2013 ء کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کی تحقیقات کے لئے عدالتی کمیشن کے قیام کے سلسلے میں جو معاہدہ سامنے آیا ہے‘ اس میں انتہائی اہم نکات موجود نہیں ہیں‘ جیسے اس میں جوڈیشل کمیشن کے اپنا کام مکمل کرنے کے حوالے سے کوئی مدت مقرر نہیںکی گئی ہے۔ قبل ازیں جوڈیشل کمیشن کے لئے 45 روز کی مدت مقرر کرنے پر عمران خان زور دے رہے تھے اور 30 اگست 2014ء کی شام کو اسحاق ڈار کی سربراہی میں حکومتی ٹیم اور عمران خان کی ٹیم میں جو مذاکرات ہوئے تھے‘ اُن میں 45 روز کی مدت کو خاصی اہمیت دی گئی تھی‘ اور غالباً اب یہ طے پایا ہے کہ جوڈیشل کمیشن بننے کے بعد مدت کا تعین وہ خود کرے گا کیونکہ کمیشن کے ارکان نے تمام اداروں کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔
مجوزہ معاہدہ میں انٹیلی جنس کے اداروں کی شمولیت یا معاونت کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا ہے جب کہ 30 اگست 2014ء کو جو ڈرافٹ حکومتی ٹیم کو مہیا کیا گیا تھا، اس میںعسکری اداروں کے نمائندوں کی شمولیت پر زور دیا گیا تھا اور عمران خان دھرنے اور احتجاجی تحریک کے دوران بھی جوڈیشل کمیشن کی معاونت کے لئے انٹیلی جنس اداروں کے نمائندوں کی شمولیت پر زور دیتے رہے۔ معاہدہ میں یہ بھی واضح نہیں کہ جوڈیشل کمیشن کتنے حلقوں کی جانچ پڑتال کرے گا۔ ابتدائی مذاکرات میں قومی اسمبلی کے 35 حلقوں میں مبینہ دھاندلیوں کی تحقیقات کی بات ہو چکی تھی۔ معاہدے میں 'مجموعی بنیادوں پر‘ جیسے الفاظ حکومتی جماعت کے ذہین ترین آئینی ماہرین نے خاموشی سے شامل کرا دیے‘ جس کے تحت جوڈیشل کمیشن انتخابی نتائج کی جانچ پڑتال کرے گا اور عمران خان کی ٹیم اس معاملے میں حکومتی ٹیم کے ٹریپ میں آگئی۔ انتخابی نتائج تو ریٹرننگ افسران نے بڑی مہارت سے فار م XIVکی روشنی میں فارم XVI اور فارم XVII پر مرتب کر کے الیکشن کمیشن کو بھجوائے تھے۔ جوڈیشل کمیشن انتخابی نتائج کے سارے ریکارڈ کی از سر نو چھان بین کرے گا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان اپنے مرتب کردہ نتائج کا مکمل دفاع کرے گا۔ عمران خان کی ٹیم اس باریکی کو سمجھ نہ سکی اور اب عدالتی کمیشن محض اس ریکارڈ پر انحصار کرے گا‘ جو الیکشن کمیشن اس کو فراہم کرے گا۔ جوڈیشل کمیشن نادرا کے سابق چیئرمین طارق ملک کو بطور گواہ طلب کرنے کا مجاز ہے اور نجم سیٹھی کے مبینہ 35 پنکچروں کی بھی صدائے بازگشت سامنے آئے گی۔ ڈاکٹر اعجاز حسین کی خدمات سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے‘ جن کو انفارمیشن ٹیکنالوجی پر مکمل عبور حاصل ہے۔
معاہدے میں دھاندلی ثابت ہونے کی صورت میں نواز حکومت کے مستعفی ہونے یا فوری طور پر از سر نو انتخابات کرانے کا ذکر نہیں ہے‘ جبکہ 30 اگست کے ڈرافٹ میں قومی اسمبلی کی فوری طور پر تحلیل کا نمایاں ذکر موجود تھا۔ موجودہ معاہدے میں عدالتی کمیشن کی رپورٹ کو آئندہ انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے سنگ میل قرار دیا گیا ہے اور انہوں نے حکومت کو محفوظ راستہ دکھانے کے لئے آئندہ کے انتخابات کو ہی اپنا مطمح نظر قرار دے کر نواز حکومت کو ریلیف دے دیا۔ شاہ محمود قریشی نے واضح طور پر کہا ہے کہ تحریک انصاف عدالتی کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں موجودہ جمہوری نظام کو گرانے کے بجائے آگے بڑھنا چاہتی ہے‘ کمیشن کے قیام کا بنیادی مقصد آئندہ عام انتخابات کو شفاف اور منصفانہ بنانا ہے۔ عمران خان نے جو تاریخی ا حتجاجی دھرنا دیا تھا تو ان کا اہم مقصد حکومت کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنا تھا‘ اب نئے معاہدہ میں انہوں نے پسپائی اختیار کرلی ہے۔ عدالتی کمیشن کی سفارشات کو آئینی و قانونی تحفظ حاصل نہیں ہے چنانچہ جوڈیشل کمیشن بناتے وقت آئین کے آرٹیکل 225کو مد نظر رکھنا ہوگا۔ سپریم کورٹ اپنی نگرانی میں جوڈیشل کمیشن بنانے سے ممکنہ طور پر گریز کرے گی۔ چونکہ جوڈیشل کمیشن ضرب عضب کا تسلسل محسوس ہوتا ہے، اس لیے میری دانست میں طبل جنگ بجنے والا ہے۔ اس ملک کے جمہور اپنی حسب منشا جمہوری حکومتیں قائم کرنے کے لئے ان خاندانوں کے خلاف صف آراء ہونے والے ہیں جنہوں نے جمہوریت کے نام پر 18 کروڑ عوام کو یرغمال بنا رکھا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں