"KDC" (space) message & send to 7575

سیاسی مفاہمت اور قومی ایکشن پلان

لاہور کے علاقے یوحنا آباد میں چند روز پیشتر دو گرجا گھروں پر خودکش حملے بلا شبہ انسانیت دشمن تخریبی عناصر کا خوفناک حربہ ہیں، جس کا مقصد پُرامن، محنتی، جفاکش مسیحی کمیونٹی کو اشتعال دلاکر ملک میں موجود بین المذاہب ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کے سوا کچھ نہیں۔ اس سانحہ پر پولیس نے موقع سے جن دو مشتبہ افراد کو حراست میں لیا، مشتعل مظاہرین نے زبردستی ان سے چھین کر دونوں کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ مشتعل ہجوم کے جذباتی لوگوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ یہ دو مشتبہ افراد تفتیش میں کتنے معاون ثابت ہو سکتے تھے۔ پھر وہ صرف شک و شبہ میں ہی گرفتار کئے گئے تھے۔ ضروری نہیں کہ وہ مجرم بھی ثابت ہوتے۔ مظاہرین نے غیظ و غضب کے عالم میں انہیں ہلاک کر کے بڑے ثبوت ضائع کر دیئے۔
یہ انتہائی خطرناک رجحان ہے، خاص طور پر مسیحی کمیونٹی جیسی اقلیت کا یہ راستہ اختیار کرنا مملکت پاکستان کے محافظوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔ ذاتی، سیاسی اور گروہی سیاسی مفادات میں لتھڑے ہمارے سیاسی رہنماعسکری اداروں سے نیم دلی سے تعاون کر رہے ہیں۔ ادھر سابق صدر آصف علی زرداری ایم کیو ایم کو تنہا نہ چھوڑنے کے دلفریب بیانات دے کر اسے خوفناک دلدل میں پھنسا نے کے در پے ہیں اور بالواسطہ عسکری قیادت کو پراسرار طریقے سے پیغامات دے رہے ہیں۔ ویسے بھی ان کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ میں ربط نہیں ہوتا اور ہم کبھی ان کی معنویت کو سمجھ نہیں پاتے۔ اسی طرح الطاف حسین کے بعض خطاب ہماری سمجھ سے ہمیشہ بالاتر رہے اور جلتی پر تیل چھڑکتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے ان دو افراد کو جلائے جانے پر جو تبصرہ کیا وہ بھی قابل مذمت ہے۔ یہ کہنا کہ وہ وہاں کیا کرنے گئے تھے، انتہائی نامناسب ہے۔ کیا گرجا گھروں کی جگہ نو گو ایریا تھی جہاں سے کسی پاکستانی شہری کو گزرنے کی اجازت نہیں تھی؟ رانا ثناء اللہ ملک کے ممتاز سیاستدان ہیں اور راجپوت فیملی سے ان کا تعلق ہے۔ وہ ایسے دل آزار بیانات سے گریز کریں۔
ملک میں یکے بعد دیگرے حادثات نے ثابت کر دیا ہے کہ حکومتی اداروں پر سے عام آدمی کا اعتماد تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ اسے یقین ہو چکا ہے کہ پولیس یا دوسرے قانون نافذ کرنے والے ادارے اس کی حفاظت کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ حکومتی اداروں کے ساتھ ساتھ ان کو عدالتوں پر بھی بھروسہ نہیں رہا۔ یہ اعتماد اور یہ بھروسہ ایک دن میں ختم نہیں ہوا‘ ہم بتدریج یہاں تک پہنچے ہیں۔ اسی طرح 16 جون 2014 ء کو سانحہ ماڈل ٹاون کا واقعہ ہو چکا ہے۔ وہاں کس کے حکم پر پولیس نے گولیاں چلائیں؟ کیونکہ پنجاب پولیس تو وزیر اعلیٰ کے اشارے کے بغیر کسی قسم کی پیش قدمی کرنے کی جرأت نہیں کر سکتی اور نہ ہی پولیس خود گولیاں چلانے کی مجاز ہے۔ اس بارے میں عسکری قیادت کے حکم پر ملک کی ممتاز شخصیتوں کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی گئی۔ ان حالات میں ساری دنیا میں یہ بحث کی جا رہی ہے کہ پاکستان کو ایک ناکام ریاست قرار دیا جائے یا کمزور ریاست؟ پاکستان ناکام ریاست نہیں ہے‘ البتہ اسے کمزور ریاست کہا جاتا ہے۔ کمزور ریاست کی یہی تو نشانیاں ہوتی ہیں کہ اس کے تمام ادارے اپنی نااہلی اور بد عنوانی کی وجہ سے قریب قریب ناکارہ ہو جاتے ہیں اور ہر ادارے میں بدعنوانیاں عام ہوجاتی ہیں۔ ہمارے ہاں تو پارلیمنٹ کے ارکان نے بھی سینیٹ کے انتخابات اور صدارتی انتخابات میں اپنے گھوڑے تبدیل کئے اور ضمیر کا سودا کرتے پائے گئے۔
جوڈیشل کمیشن کے حوالے سے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان کوئی اختلاف نہیں اور چند روز تک کنفیوژن دور ہو جائے گا۔ کراچی کے حلقہ 246 میں الیکشن کمیشن کو ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کے درمیان تصادم کا از خود نوٹس لینا چاہیے اور یہ ضمنی انتخابات آرٹیکل 221 کے تحت پاک رینجرز کی نگرانی میں ہونے چاہئیں۔ عزیز آباد کراچی کا حلقہ ایم کیو ایم کی سیاست میں خاصی اہمیت رکھتا ہے بلکہ ان کی شاہ رگ ہے۔ وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کی شاہرگ پر کسی اور کی گرفت مضبوط ہو جائے۔ الیکشن کمیشن کو سنگین حالات کے باوجود الیکشن کے التواء کے بارے میں نہیں سوچنا چاہیے۔ گورنر سندھ کی مداخلت سے حالات درست سمت کی طرف بڑھے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو انتخابی ضابطہ اخلاق کو عوامی نمائندگی ایکٹ کی دفعہ کے ساتھ منسلک کر دینا چاہیے۔ اس صورت میں متحارب گروپس میں سے جو بھی ذمہ دار ہو‘ اس کو نا اہل قرار دیا جا سکتا ہے۔
اٹھارہویں ترمیم سے قبل بھی بلدیاتی انتخابات کروانا صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری تھی اور اب بھی ہے۔ غیر سیاسی حکومتیں ہی بلدیاتی انتخابات کرواتی رہی ہیں۔ بلدیاتی انتخابات سے خیر کی توقع رکھنی چاہیے اور عوام بھی پارٹی کے مفادات سے بالاتر ہو کر ان اشخاص کو کامیاب کریں جو آرٹیکل 62 کے معیار پر پورے اترتے ہوئے نظر آئیں۔
فیلڈ مارشل ایوب خان بنیادی جمہوریت کا سسٹم لائے اور انتخابی کالج کے ذریعے صدر بھی منتخب ہوتے رہے۔ جنرل ضیاء الحق اپنے ریفرنڈم اور غیر جماعتی انتخابات کے لئے اور جنر ل پرویز مشرف بھی ریفرنڈم اور انتخابات کے مثبت نتائج کے لیے اہم ترقیاتی کام انہی کے ذریعے کرواتے۔ تمام ترقیاتی کام انہی کے ذریعے ہونے چاہئیں۔ پولیس بھی انہی کے ماتحت ہونی چاہیے، امن و امان بھی ان کی ذمہ داری میں شامل ہو۔ بلدیاتی انتخابات کے لیے کراچی سمیت ملک کے ہر ضلع کی نئی حلقہ بندیاں ہونی چاہئیں۔ حلقہ بندی انتخاب لڑنے والوں کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہیں‘ مگر اب ضرورت اس امر کی ہے کہ انتخابات لڑنے والوں کی خواہشات کی بجائے عوام کی ضرورتوں کا لحاظ رکھ کر حلقہ بندیاں کی جائیں تا کہ نچلی سطح پر مستحق افراد نمائندگی کا حق حاصل کر سکیں۔ بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوں یا غیر جماعتی بنیادوں پر‘ یہ بحث ہمارا مسئلہ نہیں‘ انتخابات ہونا چاہئیں تاکہ عوام اپنے مسائل کے حل کے لئے نئی قیادت منتخب کر سکیں۔
کراچی کے حلقہ این اے 246 کا ضمنی الیکشن ، الیکشن کمیشن کے لئے ایک چیلنج سے کم نہیں ہے۔ اگر الیکشن کمیشن یہ الیکشن بلا خوف و خطر کرانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پھر امید کی جا سکتی ہے کہ بلدیاتی الیکشن بھی صاف و شفاف ہوں گے اور کوئی سیاسی جماعت ان انتخابات کی غیر جانبداری پر احتجاج نہیں کرے گی۔ آئین کے آرٹیکل 218 اور عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی شق 81 میں الیکشن کمیشن کو منصفانہ اور شفاف انتخابات کرانے کے لیے خود مختاری دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن دھاندلی روکنے اور پر امن الیکشن کرانے کا بھی ذمہ دار ہے۔ آئین کے آرٹیکل 220 میں واضح کیا گیا ہے کہ وفاق اور صوبوں کے تمام حکام اس بات کے پابند ہیں کہ وہ فرائض کی انجام دہی میں الیکشن کمیشن کا تعاون کریں۔ الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کی طرز پر خود مختار آئینی ادارہ ہے۔ وہ انتخابی انتظامات کے لئے پاک فوج اور رینجرز سمیت کسی بھی ادارے سے مدد طلب کر سکتا ہے۔
تحریک انصاف کے امیدوار عمران اسماعیل اور تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کو چاہئے کہ عزیز آباد کے حلقے میں گڑ بڑ، خون خرابے اور تصادم کے خطرے کے پیش نظر الیکشن کمیشن سے رجوع کریں اور الیکشن کمیشن وہاں انتخابی عمل میں حصہ لینے والی تمام جماعتوں کو عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی شق 81 کا پابند کرے۔ اگر کوئی سیاسی جماعت الیکشن کمیشن کے تیار کردہ اصولوں کو خاطر میں نہ لائے تو اس جماعت کے امیدوار کو ریڈ کارڈ دکھا کر گرائونڈ سے باہر نکال دے۔ الیکشن کمیشن کے نئے وفاقی سیکرٹری بابر فتح محمد یعقوب فعال، مضبوط اعصاب کے مالک اور غیر جانبدار شخصیت کے حامل ہیں۔ وہ الیکشن کمیشن کی معاونت سے حالات قابو میں لے آئیں گے۔
اور آخر میں یہ کہ منی لانڈرنگ کیس میں ایم کیو ایم کے بانی رہنما محمد انور کی گرفتاری سے پارٹی قیادت کو سیاسی، سفارتی اور انتخابی سطح پر نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔چونکہ محمد انور پارٹی کی روح و رواں ہیں اور پارٹی کے بانیوں میں ان کا شمار ہوتا ہے‘ ان کو سزا ہونے سے پارٹی کی قیادت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں