"KDC" (space) message & send to 7575

قوم کی نگاہیں جوڈیشل کمیشن پر مرتکز

ملک کے ممتاز سینئر صحافی نذیر ناجی نے درست تجزیہ کیا ہے کہ ''جوڈیشل کمیشن معاہدے میں سب نے مل کر عمران خان کو باندھ دیا ہے کیونکہ اگر پاکستان مسلم لیگ (ن) نے دھاندلی کی بھی ہو تو جوڈیشل کمیشن کی مذکورہ تین شقوں کی روشنی میں اسے مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا کیونکہ وہ اقتدار سے باہر تھی‘‘۔ عمران خان کا المیہ یہ ہے کہ سارے حکمران طبقے متحد ہو کر ان کے خلاف صف آراہو گئے ہیں اور لگتا ہے کہ انہوں نے وزیراعظم نواز شریف کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔ اس طرح عمران خان تمام سیاسی، سماجی اور انتظامی طاقتوں کے سامنے تنہا رہ گئے ہیں اور ان سب کو ریاستی طاقت کی پشت پناہی بھی حاصل ہے ‘چنانچہ محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان جوڈیشل کمیشن کے معاہدہ میں بری طرح پھنس گئے ہیں۔
عدالتی کمیشن کے لئے جاری ہونے والے صدارتی آرڈیننس کے مطابق جوڈیشل کمیشن کو سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرح کسی بھی ایسے شخص کو سزا دینے کا اختیار ہو گا جو اس کی کارروائی میں دخل اندازی کرے ‘اس کی کارروائی میں رخنہ اندازی کرے ‘اس کی ہدایات کی حکم عدولی کرے، اسے یا اس کے کسی رکن کے عہدے کے ضمن میں اس کے خلاف نفرت بھڑکائے یا توہین کرے۔ اس شق میں یہ بھی درج ہے کہ کو ئی بھی شخص ‘جس کے عمل سے تحقیقات یا کمیشن کے روبرو فیصلے کے لئے کوئی بھی معاملہ متعصبانہ ہو یا کوئی بھی ایسا عمل کرے جو کہ قانون کی رو سے توہین عدالت کے زمرے میںآئے‘سزا کا مستحق ہوگا۔ سیکشن 7 میں ایک شق ہے جس کے مطابق کمیشن اپنی رپورٹ جتنا جلدی ہو سکے وفاقی حکومت کو جمع کرائے گا، یہ کام اس کے پہلے اجلاس سے 45 روز میں مکمل کیا جائے گا۔ تقریباً ہر قانون میںجہاں ممکن ہو مقررہ وقت کا تعین ہوتا ہے۔ سیکشن (2) 7 کے مطابق کمیشن کی حتمی رپورٹ سرکاری دستاویز ہے، لیکن اسے عوامی سطح پر جاری کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ حکومت کرے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نتائج کے حوالے سے آرڈیننس خاموش ہے، جس میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے ،نئے انتخابات اور نگران حکومت کے قیام کے معاملات شامل ہیں‘ یا اگر جوڈیشل کمیشن اس نتیجے پر پہنچے کہ 11 مئی2013 ء کے انتخابات عمومی طور پر ووٹرز کی جانب سے دئیے جانے والے مینڈیٹ کی درست اور شفاف طور پر عکاسی نہیں کرتے، تو کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے ؛ تاہم یہ ممکنہ اقدامات پاکستان مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان ہونے والے معاہدے اور مفاہمتی یاد داشت میں موجود ہیں، جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی نے بھی اس کی توثیق کی ہے۔ تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن آف پاکستان ، نادرا اور ایف آئی اے کے انتظامی سربراہان کی تقرری سے اختلاف کیا تھا، تاہم مفاہمتی یاد داشت کے مطابق تحریک انصاف حال ہی میں کی گئی نادرا کے چیئر مین کی نامزدگی سے مطمئن ہے۔ اسے بابر یعقوب فتح محمد کی بطور وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تقرری پر کوئی اعتراض نہیں ہے کیونکہ ان کی تقرری چیف الیکشن کمشنر کی سفارش پر وفاقی حکومت نے کی ہے؛ تاہم عدالتی کمیشن کی جانب سے خصوصی تحقیقاتی ٹیم مرتب کرنے میں ایف آئی اے کے سربراہان کی نامزدگی حکومت کی جانب سے تحریک انصاف کی مشاورت سے کی جائے گی۔ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ پر عمل درآمد شروع ہونے کے بعد اختلافات کی صورت میں یہ معاملہ تنازعات کے حل کی کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے گا جوچار ارکان پر مشتمل ہو گی جس میں دونوں جماعتوں کے 2,2 ارکان شامل ہوںگے۔ 
گزشتہ عام انتخابات میں دھاندلیوں کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن کے قیام کا آرڈیننس جاری ہونے کے بعد تحریک انصاف نے پارلیمنٹ میں واپس آنے کا مستحسن فیصلہ کیا۔ متحدہ اپوزیشن سمیت حکمران جماعت کی جانب سے تحریک انصاف کی قیادت کو یو ٹرن لینے، سیاسی ناپختگی اور نہ جانے کیسے کیسے سنگین اوراشتعال انگیز طعنے سننا پڑے اور وزیر اعظم نواز شریف کی موجودگی میں خواجہ آصف نے اپنے منصب کی پروا کئے بغیر دیہاتی عورتوں کی طرح ہاتھ اٹھا اٹھا کر عمران خان کو کوسنے دیئے جب کہ مدبر اور دانشور وفاقی وزیر احسن اقبال ان کے طرز عمل سے نا خوش نظر آ رہے تھے۔ اصل میں تو خواجہ آصف صاحب کو سپیکر قومی اسمبلی کو طعنوں کی زد میں لانا چاہیے تھا جنہوں نے آئین کے آرٹیکل 64 کے تحت تحریک انصاف کے ارکان کے استعفے منظور نہیں کئے۔ بہرحال تحریک انصاف کے ارکان اپنے درست جمہوری فیصلے پر ثابت قدم رہے اور نظام کی تبدیلی کے لئے پارلیمنٹ کا پلیٹ فارم ہی استعمال کرنے کو فوقیت دی۔ وزیر اعظم بھٹو کے زمانے میں درجن بھر ارکان اسمبلی نے اپوزیشن کا اہم کردار ادا کرتے ہوئے بھٹو حکومت کو ٹف ٹائم دیئے رکھا اور بھٹو اسمبلی میں اس وقت کی اپوزیشن قیادت نے انتہائی موثر کردار ادا کیا تھا جس کے مثبت اثرات پورے پاکستان میں مرتب ہو رہے تھے۔ تبھی 7 مارچ 1977ء کی انتخابی دھاندلیوں کے خلاف ملک گیر تحریک چل سکی۔ 
اب بھی وقت ہے کہ تحریک انصاف پاکستان پیپلز پارٹی کی جگہ وفاق اور صوبوںمیں مسلم لیگ ن کی اصل اور موثر اپوزیشن کے طور پر عوام میں آئے اور اسمبلیوں میں بھی جاندار اور موثر کردار ادا کرے۔ عمران خان کو جوڈیشل کمیشن بننے کے بعد اب اپنے مطالبات کو آگے بڑھانا چاہیے اور حکومت کی کرپشن، اقربا نوازی اور تعمیراتی کاموں میں میگاکرپشن کو عوام کی نظروں میں اجاگر کرنا چاہیے ۔اگر عمران خان چند حلقوں میں انتخابی دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات تک سکڑ کر رہ گئے تو حکومت میگا پروجیکٹس کے اجراء اور کامیابی سے آئندہ انتخابات میں بھر پور فوائد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی اور کرپشن سے بھی اپنے زرومال میں اضافہ کرتی جائے گی۔ عمران خان کو کئی معاملات دیکھنے ہوں گے۔ پارلیمنٹ میں عوام کے حقیقی سیاسی ترجمان کا اہم کردار ادا کرتے ہوئے وہ 2018ء کے انتخابات اور سندھ، پنجاب اور خیبر پختون خوا میں بلدیاتی انتخابات کی طرف اپنی توجہ مبذول رکھیں۔ نواز حکومت کی پاک چائنہ اکنامک کوری ڈور کے عظیم ترین منصوبے پر بھی اپنی عمیق نگاہ رکھیں ، جس کا آغاز فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے اپنے تیسرے پانچ سالہ منصوبے میں کیا تھا اور جس کو پلاننگ کمیشن کے اہل کار ڈاکٹر محبوب الحق نے سی آئی اے کی ہدایت پر سبوتاژ کر دیا تھا ۔آج اسی انداز میں اس عظیم تر منصوبے کو کالا باغ ڈیم کی طرح ناکام بنانے کی سازشیں بھارت اور مڈل ایسٹ کے بعض ممالک میں تیار کی جا رہی ہیں۔ وفاقی حکومت بھی در پردہ اور خفیہ حکمت عملی کی روش کو ترک کر کے صوبہ خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی حکومتوں کو مطمئن کرے۔
11 مئی 2013 ء کے قومی انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کے لئے چیف جسٹس پاکستان جسٹس ناصر الملک کی سر براہی میں تین رکنی جوڈیشل کمیشن کے قیام سے آئندہ دھاندلی کا باب ہمیشہ کے لئے بند ہو جائے گا۔ جمہوریت مضبوط ہو جائے گی۔ اب ٹھوس ثبوت پیش کرنا عمران خان کی ذمہ داری ہے۔ اگر عمران خان اپنا موقف مع دستاویزات پیش کرنے کے باوجود جوڈیشل کمیشن کو مطمئن نہ کر سکے تو آئندہ انتخابات 2018ء میں ہی ہوں گے۔ پاکستان کے جوڈیشل کمیشن میں از خود پیش ہونے سے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ الیکشن کمیشن کی موجودہ انتظامیہ بھی ریٹرننگ افسران کو خط لکھنے کا ارادہ رکھتی ہے ۔ان کے پیش ہونے سے ان کے تقرر کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے جائیں گے۔ سابق چیف جسٹس کو تحریک انصاف کے ارکان کے مستعفی ہونے کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے احتیاط کرنی چاہئے کیونکہ ان کو بھی 15 ماہ کے بعد جی ایچ کیو سے کال آنے کے بعد ہی ایگزیکٹو آرڈر کے تحت بحال کیا گیا تھا جس کے بارے میں آئین کے آرٹیکل خاموش ہیں۔چونکہ کراچی کے حالات ان دنوں مخدوش ہیں ؛چنانچہ میرے خیال میں یہ ضمنی الیکشن افواج پاکستان کی نگرانی میں ہی ہونا چاہیے ۔ماضی میں 1993ء اور 1997ء میں بھی افواج پاکستان کی نگرانی میں قومی انتخابات کا انعقاد ہوا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں