"KDC" (space) message & send to 7575

یمن کا بحران اور پاکستان

بادی النظر‘ سعودی عرب کی سلامتی کو کوئی خطرہ نہیں۔ حوثی قبائل کی جانب سے سعودی عرب پر حملے کرنے کی دھمکی بھی سعودی فضائی حملوں کے رد عمل میں دی گئی، جن میں اب تک خواتین اور بچوں سمیت سینکڑوں یمنی ہلاک ہو چکے ہیں ۔ اگر سعودی حکام نے صدر صدام حسین کی غلطی (کویت پر حملہ) دہرائی تو نتائج سنگین ہو سکتے ہیں۔ سعودیوں نے اگر یمن میں زمینی حملوں کا سلسلہ شروع کیا اور اس میں عساکر پاکستان نے بھی حصہ لیا تو اس سے مسلم ملک یمن کی تباہی کے ساتھ، علاقائی سلامتی بھی داؤ پر لگ جائے گی۔ بلوچستان میں شدید مزاحمت ہونے کا امکان بڑھ جائے گا۔ پاک چائنہ اقتصادی راہداری کو بھی نقصان پہنچے گا۔ موجودہ حالات میںسعودی عرب کی حمایت میں ہمارے یمن پر حملہ سے پاک ایران سرحد پر بھی کشیدگی اور تناؤپیدا ہوگا اگر ایسا ہوا تو ہماری سلامتی ہر طرف سے سنگین خطرات میں گھر جائے گی۔ یہاں یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ ایران (سابق شاہ کے دور میں) نے 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں پاک فضائیہ کو ہوائی اڈے فراہم کئے تھے۔ سعودی عرب اور ایران کی غلط حکمت عملیاں آہستہ آہستہ منظر عام پر آرہی ہیں۔ جس کے سبب شام و عراق اور یمن میں مختلف مسالک رکھنے والے کے خلاف صف آرا ہیں۔ فرقہ واریت کا زہر ہمارے دلوں و دماغوں میں اتنا سرایت کر چکا ہے کہ اب امام کعبہ جیسی قابل احترام شخصیت نے اپنے حالیہ خطبے میں حوثی قبائل کے خلاف مکمل جنگ کا فتویٰ دے دیا ہے۔ سعودی عرب، مصر، قطر، بحرین، لیبیا، یمن اور عمان نے عراقی صدر صدام حسین کے خلاف امریکی سازشی مہم کا حصہ بن کر اس خطے میں فرقہ واریت کا پنڈورا بکس کھول دیا تھا۔
سعودی عرب کی اس تشویش میں وزن ہے کہ حوثیوں کی کامیابی سعودی عرب کی سلامتی کے لئے بڑے خطرات پیدا کر سکتی ہے، مثلاً1700 کلو میٹر طویل سرحد کی نگرانی عملاً ناممکن ہے، کیونکہ یمن کے اندر ان سرحدی علاقوں کی اکثریتی آبادی کا تعلق اہل تشیع سے ہے۔ جن کی سرحد پار نقل وحرکت کی موثر طور پر نگرانی نہیں کی جا سکتی، یہی وہ علاقے ہیں جہاںتیل کے بڑے بڑے ذخائر ہیں۔ اس طرح سعودی عرب ایک مستقل خطرے کی کیفیت سے دو چار ہے کہ حوثی سخت گیر اور تربیت یافتہ جنگجو ہیں اور ایران کی سرپرستی میں مزید خطرناک ہو گئے ہیں، جن کا مقابلہ کرنا عرب اتحادی فوجوں کے لئے ناممکن ہے۔ اسی لیے فضائی بمباری کا انتخاب کیا گیا لیکن اتحادی افواج مطلوبہ نتائج دینے میں ناکام رہی ہیں۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق یمن میں ہر طرف سے لشکریوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے، وہاں پر افغانی جنگجو بھی ہیں جنہیں یمن کے سابق صدر صالح نے 1991ء سے1994ء تک جنوبی یمن کے حکومتی مخالفین کو ختم کرنے اور ملک کو متحد رکھنے کے لئے استعمال کیا تھا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت 80 کے قریب ممالک کے 25 ہزار جنگجو شام، عراق، لیبیا اور یمن مصروف جنگ ہیں۔ دراصل یمن میں ایک اور عراق ابھرتا نظر آ رہا ہے۔
اس وقت سعودی عرب کو جس حقیقی خطرے کا سامنا ہے وہ ملک کے اندر موجود سلفی مخالفین ہیں، جن کی تعداد دس ہزار سے زیادہ ہے جو شام اور عراق میں بھی ہیں۔ سعودی عرب کا جنوبی خطہ یمنی عسکریوں کے لئے آسان ہدف ہے، اس کے علاوہ سعودی عرب کو کسی قسم کا فوجی خطرہ نہیں ہے اور نہ ہی حجاز کے مقدس مقامات کو کسی قسم کا خطرہ ہے۔ کیونکہ خانہ کعبہ کی حفاظت وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں سے احرام باندھنے کا حکم ہے، اور خانہ کعبہ کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لی ہوئی ہے۔
پاکستان کی قیادت کو اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ کی متفقہ قرار داد قوم کی امنگوں کے مطابق قرار دی گئی ہے۔ ایسے حالات میں غیر جانبدارانہ کردار ہی پاکستان کے حق میں بہترین فیصلہ ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کو فعال، متحرک دانشور اور خارجہ امور کا گہرا ادراک رکھنے والی شخصیت کو فوری طور پر وفاقی وزیر خارجہ مقرر کرنا چاہیے۔ وفاقی کابینہ میں احسن اقبال ہی اس پیمانے پر پورا اترتے ہیں۔
متحدہ عرب امارات کے نائب وزیر خارجہ ڈاکٹر انور قرقاش کا دھمکی آمیز سرکاری پالیسی بیان‘ جیسا کہ وزیرداخلہ نے کہا ہے پاکستان کے عوام کی توہین کے مترادف ہے۔ پاکستان کے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ برادر ملک متحدہ عرب امارات کا ایک وزیر اس قسم کے افسوسناک بیان اس لیے دے رہا ہے کہ زرداری، میاں برادران ، اسحاق ڈار اور دیگر معروف سیاستدانوں، تاجر برادری، سرمایہ داروں اور دیگر بیوروکریٹس کی کھربوں روپے کی سرمایہ کاری متحدہ عرب امارات میں ہو چکی ہے۔ متحدہ عرب امارات کی حکومت ہماری اس کمزوری سے بخوبی واقف ہے۔ یمن کے مسئلہ پر چونکہ پاکستان کو تشویش ہے اور وہ اس میں فریق بن کر ملکی علاقائی تعلقات کے تناظر میں اپنی سلامتی کے لئے خطرات پیدا نہیں کر سکتا۔ ہمیں اپنی آزادی اور خود مختاری کے معاملے میں ہر قسم کی کمزوریوں کا تاثر ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہاں اپنی سرمایہ کاری کو پاکستان منتقل کریں اور ان کی حکومتوں نے ہماری موجودہ اور سابقہ قیادتوں کو جو رہائشی اور دیگر سہولتیں فراہم کر رکھی ہیں انہیں واپس کر کے ملک کے مفاد کو آگے بڑھائیں۔
اسلام دشمن ملکوں نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہ تاثر اپنے وظیفہ خوار طبقے کے ذریعے پھیلا رکھا ہے کہ مقامات مقدسہ کو خطرہ ہے، ان عرب حکومتوں کو احساس ہی نہیں مکہ شریف اور مدینہ منورہ کی خاک ہمارے لئے نور بصر ہے، امریکہ اور یورپی ممالک کی معیشت کا دارومدار تیل پر ہے جو وافر مقدار میں سعودی عرب، کویت اور عراق سے نکلتا ہے، یہ کسی کو اس کی طرف بڑھنے نہیں دیں گے۔ اس کا عملی ثبوت 10 جنوری 1991ء کو دیکھنے میں آیا جب کویت کے مسئلہ پر صدر صدام حسین کی دس لاکھ فوج کو چالیس ممالک کی اتحادی افواج نے جن میں سعودی عرب کی مکمل فوجی طاقت بھی شامل تھی‘ نیست و نابود کر کے رکھ دیا تھا۔ عراق وسیع و عریض قبرستان میں بدل گیا تھا‘ لاکھوں بیٹیوں کی عصمت پر حرف آیا‘ جب کہ صدر صدام حسین کے 28 سالہ دور حکومت میں ایسی صرف 22 واردات ہوئی تھیں جن کا صدام حسین نے از خود نوٹس لے کر سزا دی تھی۔
بین الاقوامی تعلقات میں کوئی مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا۔ یہی بات اطالوی مصنف میکاولی اور چندر گپت موریہ کے وزیر چانکیہ نے کہی تھی کہ مستقل صرف قومی مفاد ہی ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے حوثیوں کو واضح طور پر باغی قرار دے کر پارلیمنٹ کی قرارداد سے انحراف کیا‘ اُن کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا جھکاؤ سعودی عرب کی طرف ہے؛ تاہم انہوں نے اپنے اس بیان میں ایران حکومت سے‘ حوثی باغیوں پر اثرورسوخ استعمال کرنے کی اپیل کی ہے۔ لیکن سعودی عرب نے اس پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ عسکری امداد چاہتا ہے ثالث کا کردار نہیں! ان حالات میں پاکستان کی عسکری قیادت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ تمام طبقات کے مفادات پر گہری نظر رکھے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں