"KDC" (space) message & send to 7575

2013ء کا الیکشن عدالتی کٹہرے میں

11مئی2013 ء کے قومی انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کے لیے قائم کردہ عدالتی انکوائری کمیشن میں راقم نے بھی اپنے وسیع تجربات کی بنیاد پر اپنا موقف عدالتی کمیشن کو اپنے وکیل غلام محی الدین ایڈووکیٹ کی وساطت سے بھجوایا ہے۔ اصولی طور پر عدالتی کمیشن کے سامنے تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کا موقف یہی ہے کہ الیکشن کمیشن کے چاروں ارکان کی تقرری آئین کے آرٹیکل 213 کے خلاف کی گئی اور اس ضمن میں پارلیمانی کمیٹی نے کمیشن کے ارکان کی تقرری کے حوالے سے سماعت اور تصدیق کے آئینی تقاضے پورے نہیں کیے۔ ایک سیاسی اور مذہبی جماعت نے یہ موقف سپریم کورٹ میں 8 فروری 2013ء کو پیش بھی کیا تھا‘ جسے اس وقت کے چیف جسٹس نے مسترد کر دیا تھا۔ انہوں نے اس موقع پر جو ریمارکس دیے ان سے بادی النظر میں یہی محسوس ہو رہا تھا کہ انہوں اپنے منصب کا لحاظ نہیں رکھا۔ اس کے ساتھ ساتھ سابق چیف جسٹس نے انتخابی اصلاحات کے حوالے سے چند مفید اقدامات بھی کیے۔ انہوں نے 8 جون 2012 ء کو انتخابی نظام کی اصلاح کے لیے جو فیصلہ دیا اس کی الیکشن کمیشن آف پاکستان نے خلاف ورزی کی۔ عابد حسن منٹو کیس میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھاکہ بنگلہ دیش کی طرز پر بیلٹ پیپر پر ناپسندگی کا کالم شامل کیا جائے تاکہ ووٹر جب مستقبل کے رہنمائوں کا انتخابات کرنے کے لیے بیلٹ پیپر پر اپنی پسند کے امیدوار کے حق میں ووٹ کا استعمال کرے تو وہاں اسے سب امیدواروں کے خلاف ناپسندگی کا بھی حق دیا جائے۔ الیکشن کمیشن نے بیلٹ پیپر پر اضافی کالم شامل کرنے کے احکامات 
جاری کردیے تھے لیکن بیلٹ پیپرزکی پرنٹنگ کی رات یہ احکامات واپس لے لیے گئے۔ اس کا صحیح جواب سابق چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم کو ہی دینا چاہیے۔ اب جبکہ قوم کی نگاہیں عدالتی کمیشن پر مرکوز ہیں، جسٹس(ر) فخر الدین جی ابراہیم کو عدالتی کمیشن کے سامنے پیش ہوکر اپنا موقف بیان کرنا چاہیے کہ مئی 2013 ء کے قومی انتخابات کے دوران کن پراسرار کھلاڑیوں نے ان کی عزت کو داؤ پر لگوایا اور انتخابات کو آئین کے آرٹیکل 218 کے مطابق کروانے میں ناکامی ہوئی۔ انہیں قوم کو بتانا چاہیے کہ الیکشن کمیشن کے ارکان کا پالیسی بنواتے ہوئے رویہ کیسا رہا ؛ حالانکہ الیکشن کمیشن کے بعض طاقتور ارکان کو چیف الیکشن کمشنر کے احکامات تسلیم نہ کرنے کا اختیارنہیں تھا۔ ارکان کمیشن نے ان کوکمزور و ناتواں کرنے کا کردار کس رکن الیکشن کمیشن کے ایما پر کیا؟ جوڈیشل افسروں کو ریٹرننگ افسران کے فرائض دوبارہ تفویض کرنے کی پُراسراریت سے بھی پردہ اٹھنا چاہیے کیونکہ جب فخر الدین جی ابراہیم 48 گھنٹے کے دورے پر دہلی گئے ہوئے تھے، ان کی عدم موجودگی میں قائم مقام چیف الیکشن کمشنر نے جوڈیشل افسران کی خدمات حاصل کرنے کے لیے ریفرنس سپریم کورٹ آف پاکستان بھجوا دیا تھا جبکہ ریفرنس بھجوانے کے دوگھنٹے بعد ہی سابق چیف الیکشن کمشنرکا جہاز لینڈکرگیا تھا۔ راقم نے قائم مقام چیف الیکشن کمشنرکے عجلت میں اٹھائے گئے اس قدم کو رولز آف بزنس کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے چیف الیکشن کمشنرکو خط ارسال کیا تھا اورانہوں نے نجی ملاقات کے دوران میرے موقف کی تائید بھی کی تھی۔
پاکستان کے انتہائی قابل احترام سابق چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کو بعض ارکا ن کمیشن کے بارے میں کھل کر وضاحت کرنی چاہیے کہ کمیشن کے ایک طاقتور رکن نے پانچ کے مقابلے میں ایک ووٹ کا حامل ہوتے ہوئے غیر متعلقہ اقدامات کس کے اشارے پر کیے تھے؟ فخر الدین جی ابراہیم کی پیرانہ سالی اور یادداشت کی کمزوری کے افسانے الیکشن کمیشن کے ترجمانوں کے ذریعے کس طرح میڈیا میں اچھالے جا رہے تھے؟ جنرل پرویزکیانی سے ملاقات کی اندرونی کہانی۔۔۔۔۔ جب جسٹس فخرالدین، جنرل کیانی سے تین گھنٹے ملاقات کے باوجود ان کو پہچان نہ سکے اور ملنے والے جنرل سے ملاقات کے بعد جنرل کیانی کو سلام بھجوانے کی فرمائش کی! ان سے منسوب افسانے کے انداز میں کہانیاںکس کے اشارے پر میڈیا کی زینت بنتی رہیں؟ جسٹس فخر الدین جی ابراہیم الیکشن کمیشن کے بعض ارکان کا انتخابی کھیل بھی دیکھ رہے تھے جنہیں ان کا تقررکرنے والے سیاسی رہنما کنٹرول کر رہے تھے۔ اب جبکہ تمام تر سیاسی جماعتیں اسے سنجیدگی سے لے رہی ہیں اور ملک کی انتخابی تاریخ میں پہلی مرتبہ سینئر ماہرین قانون اپنا اپنا موقف لے کرکمیشن میں پیش ہو رہے ہیں اور تقریباً سب ہی یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کے مخالفین نے 11مئی2013 ء کے انتخابات میں دھاندلی کی ہے، الیکشن کمیشن آف پاکستان کا کردار دھاندلی کے ان تمام الزامات کے درمیان عدالتی کمیشن کے کٹہرے میں ایک بڑی ناکامی کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔ جسٹس فخر الدین جی ابراہیم اپنی عمرکے آخری حصے میں خاموش ہیں، ان کو قوم کے سامنے سچ بتا کر اور اس انتخابی کشمکش میں سے ہیرا نکال کر پیش کرکے عدالتی کمیشن کو دلدل کے اس گرداب سے نکالنے میں معاونت کرنی چاہیے جس سے موروثی سیاست کا خاتمہ ہو جائے گا اور قوم کو یہ بھی معلوم ہو سکے گا کہ اس قوم کے ساتھ انتخابی سیاست میں کن کھلاڑیوں نے میچ فکس کر رکھا تھا۔
پاکستان کے چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں تشکیل پانے والا عدالتی کمیشن انتخابی عمل میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے والے عناصر کوبے نقاب کر دے گاکیونکہ پاکستان کی تجربہ کار، فعال اور متحرک سول سوسائٹی اور راقم کے28 سالہ تجربے کی روشنی میں مشاہدات عدالتی کمیشن کی پشت پرکھڑے ہیں۔
میری دانست میں الیکشن کمیشن کے ارکان کو عدالتی کمیشن کے روبرو پیش ہونے سے پیشتر اپنے عہدوں سے مستعفی ہو جانا چاہیے کیونکہ یہ بہت ہی حیران کن صورت حال ہوگی جب عدالتی کمیشن کے رو برو کمیشن کے ارکان اپنی صفائی میں موقف پیش کریں گے حالانکہ ریٹرننگ افسران کو ہدایات تو شاہراہ دستور سے حاصل ہو رہی تھیں۔ اگر عدالتی کمیشن نے تمام شواہدکی روشنی میں یہ قرار دے دیا کہ الیکشن کمیشن کا آئینی ادارہ ملک کے بیشتر اور نمایاں تعداد کے حلقوں میں آزاد، شفاف اور منصفانہ انتخابات منعقدکرانے میں ناکام رہا تو اس صورت ملا میں پورے انتخابی عمل کی بساط لپیٹ دینے جانے کے امکانات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا، لہٰذا تمام درخواست گزار عدالتی کمیشن کے رو برو پیش ہو کر ہر حلقے کے حوالے سے ٹھوس شواہد پیش کریں۔
گزشتہ روز دنیا ٹیلی وژن چینل پر ڈاکٹر معید پیر زادہ کے پروگرام میں سینیٹر نہال ہاشمی نے‘ جو انتہائی سنجیدہ ، بردبار اور ممتاز قانون دان بھی ہیں، برملا بتایا کہ عدالتی کمیشن کے رو برو مخدوم جاوید ہاشمی انکشافات سے بھر پور اپنا بیان ریکارڈ کرانے از خود پہنچ جائیں گے‘ جس سے سارا عدالتی کمیشن متاثر ہوگا۔ راقم نے سینیٹر نہال ہاشمی کے موقف سے اتفاق نہیں کیا تھا کیونکہ عدالتی کمیشن میں موقف پیش کرنے کا وقت گزر چکا ہے۔ اگر جاوید ہاشمی عدالت میں پیش ہونے کے لیے قواعدوضوابط کے مطابق درخواست بھجواتے تو ممکن تھا کہ ان کو موقف بیان کرنے کے لیے بلایا جاتا، اب سوائے پریس کانفرنس کرنے کے ان کے پاس کوئی پلیٹ فارم نہیں بچا۔ ویسے بھی عدالتی کمیشن کے کسی رکن کے خلاف غیر پارلیمانی لہجہ اختیار کرنے والوں کے لیے سزا تجویزہوچکی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں