"KDC" (space) message & send to 7575

متحدہ قومی موومنٹ اور الیکشن کمیشن

عمران خان حلقہ این اے 246کے ضمنی انتخابات میـںایم کیو ایم کے مد مقابل امیدوار کے خلاف متحدہ حکمت عملی اپنانے میں کامیاب نہ ہو سکے اور جماعت اسلامی اور تحریک انصاف میں عدم مفاہمت کی وجہ سے الطاف حسین کے حمایت یافتہ امیدوار کی کامیابی یقینی نظر آرہی ہے۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کا ہدف متحدہ قومی موومنٹ ہے مگر دونوں ایک دوسرے پر اعتبار کرنے سے گریزاں ہیں اور جماعت اسلامی کے امیدوار کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی بھی بر ملا حمایت حاصل ہے ،جبکہ در پردہ جناب آصف علی زرداری بھی عمران خان کی مخالفت میں جماعت اسلامی کے ہی امیدوار کو ترجیح دیتے نظر آ رہے ہیں۔ عمران خان مہاجر برادری کی عصبیت کا ادراک نہیں رکھتے ، چنانچہ الطاف حسین کے خلاف ان کے سخت ریمارکس سے مہاجر کمیونٹی کی اکثریت،جو الطاف حسین سے نالاں ہو چکی تھی، کی ہمدردیاں دوبارہ اپنے وسیع تر سیاسی مفادات کی وجہ سے الطاف حسین کی طرف منتقل ہو گئی ہیں۔ عمران خان اور جماعت اسلامی کو مہاجر کمیونٹی کی نفسیات کا علم ہی نہیں ہے۔ 1955ء سے کراچی میں مہاجر کمیونٹی کی تضحیک شروع ہوئی۔ان کو شودر سے بھی کم درجہ پر رکھا جا رہا تھا ۔یہ نفرت مہاجر کمیونٹی کی تیسری نسل میں سرایت کر چکی ہے اور وہ الطاف حسین کی غلطیوں کو بھی نظر انداز کرتی جا رہی ہے ۔جماعت اسلامی بھی 1985ء تک اردو بولنے والی مہاجر برادری کی سرپرستی کرنے میں ناکام رہی اور ان کے مفادات کی نگرانی کی بجائے گروہی سیاست اورمفادات کی حوصلہ افزائی کرتی رہی۔
ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی اور کراچی انتظامی کمیٹی 11 مارچ کونائن زیرو پر رینجرز کے چھاپے اور وہاں سے مطلوب جرائم پیشہ عناصر
اور قتل و غارت کے ملزمان کی گرفتاری کے بعد سے سخت دباؤمیں ہے جس کی وجہ سے اس بار ایم کیوایم الیکشن میں جوڑ توڑ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس وقت کراچی میں جو صورت حال ہے، رینجرز اور قانون نافذ کرنے والی دیگر ایجنسیاں اس ضمنی الیکشن کو انتہائی شفاف اور منصفانہ بنانے کے لیے کوشاں ہیں ، اور سب الیکشن کمیشن کے سیکرٹری بابر یعقوب، چیف الیکشن کمشنر سردار محمد رضا کی معاونت سے کراچی کے ضمنی انتخابات غیر متنازعہ بنانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایم کیوایم یہاں شکست کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ اگر ایم کیوایم یہ نشست حاصل کرنے میں کامیاب رہتی ہے تو ان کے خلاف انتخابات میں دھاندلیوں کے الزامات ہمیشہ کے لئے دھل جائیں گے،لیکن اگر الطاف حسین اپنی کرشماتی اور جذباتی تقاریر کے باوجود کنور نوید جمیل کو کامیاب کرانے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو ایم کیوایم کے سارے سحر انگیز افسانے ختم ہو جائیں گے اور کراچی میں ہونے والے1988ء سے 2013ء کے انتخابات کے شفاف نہ ہونے کے الزامات حقیقت کا روپ دھار لیں گے ،جس سے ایم کیو ایم کو ناقابل تلافی سیاسی نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان عوامل کے ساتھ ساتھ نائن زیرو کے علاقہ میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی بھرپور انتخابی مہم نے کراچی میں خوف اورڈر کی فضاء ختم کرنے میں مدد دی ہے۔ واضح رہے کہ 1988ء اور 1990ء کے قومی انتخابات میں ایم کیو ایم کے امیدوار محمد اسلم نے 93 ہزار اور 95 ہزار ووٹ حاصل کر کے
گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اپنا نام درج کروایا تھا ۔اسی طرح 1988ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے لاڑکانہ سے ریکارڈ ووٹ (تقریباً 94 ہزار )حاصل کرکے اپنا نام بھی گنیزبک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کروایا۔لہٰذا حلقہ 246 میں ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کی تمام تر کمزوریوں کے باوجود مہاجر عصبیت کلیدی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس حلقہ انتخاب کے 80 فیصد ووٹرز اردو بولنے والے مہاجر ہیں۔ اگر الطاف حسین کی 11 مارچ کے بعد کی تقاریر کا جائزہ لیا جائے تو وہ ان واقعات کے گرد گھومتی ہیں جن سے مہاجروں میں احساس عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوا۔ جماعت اسلامی کے پاس بھی اردو بولنے والوں کا ووٹ بنک موجود ہے اور وہ پاکستان کے انتخابی عمل میں ہمیشہ شریک رہی ، لیکن ایم کیوایم آج ایک ایسی صورت حال میںانتخاب لڑ رہی ہے جب اس کے قائد کو لندن میں منی لانڈرنگ اور عمران فاروق کے قتل جیسے سنگین مقدمات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور رینجرز کی مدعیت میں ان کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات درج ہو چکے ہیں۔ ووٹروں کے ذہنوں پر ان تمام باتوں کے گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں ، لیکن مہاجر کمیونٹی ان تمام حالات کے باوجود اپنی1988ء کی نشست اوسط ٹرن آئوٹ سے برقرار رکھنے کی پوزیشن میں ہے۔ جماعت اسلامی ،جسے گذشتہ بیس برس سے اس حلقے میں شکست کا سامنا ہے، اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے اور بلدیاتی انتخابات سے قبل اپنے احیاء کی امید لیے ہوئے ہے۔ اگر ٹرن آئوٹ کم رہا تو اس کا یہ مطلب نکلے گا کہ ایم کیوایم ، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی میں سے کسی ایک جماعت پر ان کو اعتماد نہیں رہا! 
یہ 5 لاکھ آبادی کا حلقہ ہے جس میں پونے چار لاکھ ووٹرز ہیں، لہٰذا 23 اپریل کو ہی عوام کا فیصلہ سامنے آئے گا۔ 5 لاکھ کی آبادی میں پونے چار لاکھ ووٹروں کا اندراج بھی سوالیہ نشان ہے۔عمومی فارمولہ یہی ہے کہ آبادی کے نصف ووٹ تصور کئے جاتے ہیں جیسا کہ 18 کروڑکی آبادی میں پونے 9 کروڑ ووٹرہوں گے۔ الطاف حسین کی جانب سے ہر ہفتے رابطہ کمیٹی کو تحلیل اور معطل کرنے سے رابطہ کمیٹی کے ارکا ن بے یقینی اور مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان کی عزت ہر ہفتے داؤ پر لگی رہتی ہے۔وزیر اعظم بھٹو بھی اپنے آخر ی دور میں اپنی کابینہ کے بارے میں ایسے ہی ریمارکس دیا کرتے تھے ۔اس کا رد عمل یہی ہو اکہ جونہی ان کے اقتدار کا سورج غروب ہوا ،قریبی ساتھی ان کا ساتھ چھوڑ گئے اور نیشنل پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی۔
زنجیروں میں جکڑی قوم کی زنجیروں کی حفاظت پر مامور قومی اسمبلی آزادی رائے کے لئے قانون سازی نہیں کر سکتی۔ ان لوگوں کو آزاد کرانا مشکل ہے، جو اپنی زنجیروں کی خود حفاظت کرتے ہوں۔آج کل سوشل میڈیا پر اس قسم کے عوامی ترانے گائے جا رہے ہیں:
گلی گلی میں شور ہے
جمہوریت کے نام پر چوروں کا دور ہے
کرپشن سے بندھی ان کی ڈور ہے
اکثریت کا زور ہے
ایم کیوایم سیاسی حقیقت ہے اور اس کی جڑیں کراچی، حیدر آباد اور جزوی طور پر اندرون سندھ میں بڑی گہری ہیں اور ابن خلدون کی فلاسفی کے مطابق مہاجر کمیونٹی 1985ء سے جاگ چکی ہے۔ 18 ویں ترمیم کے بعد فیڈریشن کا تصور کمزور تر ہوتا جا رہا ہے ۔ ملک کی وحدت اور یک جہتی کی علامت جناح کیپ کی جگہ حیرت انگیز طور پر سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی اپنی اپنی ٹوپیوں کا رواج راہ پا رہا ہے۔ ان حالات میں کراچی کی مہاجر کمیونٹی ہی قائداعظم کی صحیح حقیقی وارث بن سکتی ہے اور بننے کی اہل ہے، بشرطیکہ الطاف حسین رابطہ کمیٹی کے ارکان کا احتساب کرائیں ، 1986ء سے 2013ء تک کے مالی معاملات کی چھان بین کرا کے ان کے اثاثوں کو بے نقاب کرائیں،ان کے خلاف کارروائی کریں اور پارٹی سے جرائم پیشہ افراد کو فارغ کریں۔ عموماً مہاجر قومی موومنٹ کی تشکیل میں جنرل ضیاء الحق مرحوم کے حامیوں نے یہ پروپیگنڈا کر رکھا ہے کہ انہوں نے یہ جماعت بنائی، جب کہ اندرون خانہ کی معلومات کے مطابق مہاجر قومی موومنٹ کی بنیاد رکھنے میں مرحوم آغا حسن عابدی کا بڑا دخل تھا اور مجھے یہ بات سابق چیف الیکشن کمشنر جسٹس ایس اے نصرت نے بتائی تھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں