"KDC" (space) message & send to 7575

جوڈیشل کمیشن نازک موڑ پر!

قومی الیکشن 2013ء میں الیکشن کمیشن کی سطح پر مبینہ طور پر بعض بے قاعدگیوں اور منظم دھاندلی کے شواہد کے حوالے سے راقم نے 13 صفحات پر مشتمل اپنا موقف جوڈیشل کمیشن کو بھجوا یا ہے۔ راقم کے مشاہدات بعض سیاسی جماعتوں کے لئے دھاندلی کے حوالے سے اپنا موقف ثابت کرنے میں ایک اہم دستاویزی ثبوت بن سکتے ہیں۔ راقم نے جوڈیشل کمیشن کے رو برو اپنے وکیل کی وساطت سے بے قاعدگیوں کی جو نشاندہی کی ہے‘ جوڈیشل کمیشن ان کی تحقیقات ایف آئی اے اور دیگر ایجنسیوں سے کروانے کا مکمل اختیار رکھتا ہے۔ راقم نے اپنے تجربہ کی روشنی میں جو مشاہدات بھجوائے ہیں‘ وہ 2013ء کے انتخابات کے دوران مبینہ دھاندلی کے معاملے میں تازہ روح پھونکنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
ان شواہد کے مطابق گذشتہ عام انتخابات کے دوران خصوصی سیاہی کے لئے جو رقم خرچ کی گئی‘ اس کی تقسیم میں ریٹرننگ افسران کی ملی بھگت سے بہتر نتائج حاصل نہ ہوسکے جب کہ نئی مقناطیسی سیاہی پر الیکشن کے دوران 90 ملین روپے سے زائد رقم خرچ کی گئی اور وہ اپنا مقصد بھی پورا نہیں کر سکی۔ جوڈیشل کمیشن کے علم میں یہ بات بھی لائی گئی ہے کہ سابق چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم کے دورۂ دہلی کے دوران قائم مقام چیف الیکشن کمشنر نے بغیر کسی ہنگامی صورت حال کے سپریم کورٹ آف پاکستان کو ایک ریفرنس بھجوایا جس میں عدالتی افسران کی خدمات بطور ریٹرننگ افسران فراہم کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔ یہ اقدام ان کے دائرہ اختیار سے ماورا اور غیر ضروری جلد بازی اور بغیر کسی ہنگامی ضرورت کے تھا۔ جوڈیشل کمیشن کو تحقیقات کے لئے فراہم کی گئی معلومات کے مطابق 2013ء کے الیکشن کے دوران 15 لاکھ ووٹ مسترد ہوئے جو 2002ء اور 2008ء کے انتخابات میں مسترد ہونے والے ووٹوں سے کہیں زیادہ تھے۔ یہ بات شکوک و شبہات کو جنم دیتی ہے۔ قومی اسمبلی کے 13حلقوں میں دس ہزار سے زائد ووٹ مسترد ہوئے جن میں قومی اسمبلی کے 6 حلقے سندھ‘ پانچ پنجاب اور ایک ایک بلوچستان اور خیبر پختون خوا سے ہے، جب کہ 150 سے زائد حلقوں میں پانچ ہزار سے دس ہزار کے درمیان ووٹ مسترد کیے گئے۔ سب سے زیادہ ووٹ بلوچستان کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 266 نصیر آباد میں مسترد ہوئے۔ یہ حلقہ سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ جمالی کا تھا جہاں وہ آزاد حیثیت سے انتخاب لڑ رہے تھے اور انہوں نے مخالف امیدوار کو5,861کے فرق سے شکست دی۔ جو ڈیشل کمیشن کے علم میں یہ بات بھی لائی گئی ہے کہ الیکشن کمیشن نے 9.42 ملین بیلٹ پیپرز اضافی طور پر شائع کرائے۔ اس کا مکمل ریکارڈ متعلقہ ریٹرننگ افسران سے فارم xv کی صورت میں طلب کیا جا سکتا ہے کہ اضافی بیلٹ پیپرز کس کس پولنگ سٹیشن پر بھجوائے گئے اور اس کی وجوہ کیا تھیں؟ کیونکہ اضافی بیلٹ پیپرز تب ہی متعلقہ پریذائیڈنگ افسران کو بھجوائے جاتے ہیں جب ہنگامی صورت حال کے پیش نظر انہوں نے طلب کئے ہوں۔ 93 ریٹرننگ افسران نے 9اور 10 مئی کی رات کو الیکشن کمیشن کی منظوری کے بغیر پولنگ سٹیشنز تبدیل کر دیئے جو عوامی نمائندگی ایکٹ کی شق 8/(2) کی خلاف ورزی ہے اور حیرت انگیز طور پر ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران نے عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی شق 8 کے تحت پولنگ کے پندرہ روز پیشتر پولنگ سٹیشنوں کا گزٹ نوٹیفیکیشن ہی نہیں کیا۔
الیکشن ٹربیونل کے سربراہ کاظم علی ملک نے پٹیشن نمبر 2013/205 کے فیصلے میں انکشاف کیا ہے کہ حلقہ پی پی 136نارووال میں 11 مئی 2013ء کے انتخابات کے دوران ریٹرننگ افسروں کی ملی بھگت سے الیکشن ہائی جیک کیا گیا۔ جسٹس کاظم علی ملک نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ریکارڈ کے مطابق الیکشن ڈیوٹی پر تعینات دو ریٹرننگ افسروں نے اپنے ادارے کی عزت اور مرتبے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پورا انتخابی عمل ہی تبدیل کر دیا۔ انہوں نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ ریٹرننگ افسروں نے ظاہر کیا کہ وہ قانون کی حکمرانی کے لئے لڑ بھی سکتے ہیں لیکن انہوں نے اپنے اختیارات کی تلوار سے الیکشن کے تقدس کا خون کر دیا۔
الیکشن ریکارڈ میں ردو بدل اور بے ایمانی یہ سوچ کر کی گئی کہ الیکشن کا عمل بند کمروں میں ہوتا ہے اور وہ سسٹم کو دھوکا دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ایک وقت تھا جب ریاستی اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگ نیک اور دیانتدار ہوتے تھے لیکن بد قسمتی سے ان دو ریٹرننگ افسروں نے اختیارات سے تجاوز کر کے عوام میں اپنے امیج کو آلودہ کر دیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ برائی کو جڑسے اکھاڑ دیا جائے اور جوڈیشل کمیشن کو الیکشن ٹربیونل کے سربراہ جسٹس کاظم ملک کی مذکورہ پٹیشن کو ریکارڈ کا حصہ بنانا چاہئے۔
مئی 2013ء کے قومی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کے لئے عدالتی کمیشن کو نادرا کے 37 حلقوں کی رپورٹ موصول ہونے کے بعد شکوک و شبہات کے گہرے بادل چھا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی قوم پاکستان کے سیاسی اور جمہوری سفر میں ایک اور فیصلہ کن اور انتہائی نازک موڑ پر پہنچ رہی ہے۔ تاریخی اور فیصلہ کن موڑ مارچ 1977ء میں بھی آیا تھا جب عام انتخابات کو اپوزیشن کے قومی اتحاد نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس وقت اگرچہ پوری دنیا یہ حقیقت تسلیم کرتی تھی کہ پاکستان پیپلز پارٹی ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت ہے۔ وزیراعظم بھٹو نے فروری 1977ء میں تھرڈ ورلڈ کے ممالک کی کانفرنس اسلام آباد میں منعقد کرانے کی تیاریاں بھی تقریباً مکمل کرلی تھیں‘ مگر وہ 7 مارچ 1977ء کے انتخابات کو سنجیدگی سے نہیں دیکھ رہے تھے اور ملک میں برائے نام ہی اپوزیشن نظر آرہی تھی، لیکن جونہی پاکستان قومی اتحاد نے 19 جنوری1977ء کو انتخابی نشان 'ہل‘ حاصل کیا اور اپوزیشن میدان میں اُتری تو وزیر اعظم نے انتہائی عجلت میں تھرڈ ورلڈ ممالک کی کانفرنس منسوخ کر دی۔
مارچ 1977ء کے انتخابی نتائج پر عوام کو بڑی حیرت ہوئی، پنجاب کی 116 نشستوں میں سے پاکستان قومی اتحاد کو صرف آٹھ نشستیں ملیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نواب صادق قریشی کی انتخابی ٹیکنالوجی کے تحت لاہور اور راولپنڈی میں قومی اتحاد کو کوئی نشست نہیں ملی‘ حالانکہ ان دونوں شہروں کو قومی اتحاد کا انتخابی و سیاسی قلعہ تصور کیا جا رہا تھا۔ قومی اتحاد نے 10 مارچ 1977ء کو ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ انہوں نے مطالبہ کر دیا کہ وزیر اعظم بھٹو اور چیف الیکشن کمشنر جسٹس سجاد احمد جان استعفیٰ دیں اور عام انتخابات دوبارہ منعقد کرائے جائیں۔ مطالبات تسلیم نہ ہونے پر قومی اتحاد نے جلاؤ گھیراؤ کی تحریک شروع کردی۔ بی بی سی کے پاکستان میں نمائندے مارک ٹیلی نے احتجاجی تحریک کو خوب ہوا دی۔ بالآخر ذوالفقار علی بھٹو نے قومی اتحاد سے مذاکرات کئے۔3 جون 1977ء کو مذاکرات شروع ہوئے اور ان کے 13رائونڈز ہوئے۔ قومی اتحاد نے 28 نشستوں میں دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
(باقی صفحہ 13پر)
بقیہ: کنور دلشاد
حکومت نے انکوائری کرانے کا نوٹیفیکیشن کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی شق 103 میں ترمیم کرکے ان کو سمری انکوائری کروانے کے اختیارات تفویض کر دیئے۔ اس دوران چیف الیکشن کمشنر جسٹس سجاد احمد جان نے وزیر اعظم بھٹو کو الیکشن کمیشن کی طرف سے یہ رپورٹ بھی دی کہ ان حلقوں میں بے قاعدگیاں ریٹرننگ افسروں کے ذریعے ہوئی ہیں۔ اس پر وزیر اعظم بھٹو نے اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار اور اپنی کابینہ کی مشاورت سے انکوائری کا نوٹیفیکیشن منسوخ کر دیا۔ پھر حالات انتہائی ابتر ہو گئے اور ملک خانہ جنگی کے دہانے پر کھڑا ہو گیا تو جنرل ضیاء الحق نے 5 جولائی 1977ء کو حکومت کی بساط الٹ دی۔
11 مئی 2013ء کے انتخابات کی حقیقت یہ رہی کہ نگران حکومت اور ایک آزاد الیکشن کمیشن کا تجربہ ناکام رہا۔ عام انتخابات کے انتظامات کے ضمن میں الیکشن کمیشن مکمل آزاد تھا، جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم جن کو قوم کا اعتماد حاصل تھا‘ کو اپنے کام سے کوئی دلچسپی ہی نہیں تھی۔ انہوں نے اپنا ہیڈ کوارٹر اسلام آباد سے اپنے گھر کراچی میں منتقل کرالیا اور انتخابات کے دوران وہاں گالف کھیلتے رہے جب کہ اسلام آباد میں مقیم الیکشن کمیشن کے ارکان قیادت سے محروم رہے۔ چنانچہ اٹھارویں اور بیسویں ترامیم کے تحت چیف الیکشن کمشنر اس کمیشن میں محض ایک ووٹ تک محدود ہو کر رہ گئے تھے۔ جوڈیشل کمیشن کو ان باریکیوں کی طرف بھی دھیان دینا چاہیے کہ چیف الیکشن کمشنر نے انتخابی طبل جنگ میں اپنا ہیڈ کوارٹر کراچی کیوں منتقل کیا اور جنگ کے دوران کمانڈر نے مورچہ کیوں چھوڑ دیا۔ نگران کابینہ میں سے ایک شخصیت تک راقم کی رسائی ہے جن کے پاس ایسی دستاویز موجود ہے جو 11 مئی 2013ء کے انتخابات سے پردہ اٹھا سکتی ہے اور ان کا ان کیمرہ بیان ریکارڈ کروایا جا سکتا ہے۔
ادھر نگران کیبنٹ کے سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عارف نظامی نے حیران کن انکشاف کرتے ہوئے بتایا ہے کہ نگران وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو اور چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کے درمیان بول چال قریباً بند تھی۔ نگران وزیر اعظم کمزور شخص تھے جن کی نگرانی ان کا ملٹری سیکرٹری کرتا تھا۔ راقم کی اطلاع کے مطابق اس ملٹری سیکرٹری کو کرپشن ، اختیارات کا ناجائز استعمال اور بیوروکریٹس میں درجنوں ترقیوں اور تبادلوں کی بنیاد پر جنرل کیانی کے حکم پر تبدیل کر دیا گیا تھا اور سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے درجنوں ترقی کے کیس کالعدم قرار دے دیے تھے۔ لہٰذا جوڈیشل کمیشن کو ان اسرار کے آہنی پردوں کو چاک کر کے حقائق معلوم کرنا ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں