"KDC" (space) message & send to 7575

حلقہ 246: ضمنی الیکشن کے نتائج

قومی اسمبلی کے حلقہ 246 کے ضمنی الیکشن کے سرکاری نتائج کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کر کے اپنی پوزیشن برقرار رکھی۔ 1988ء سے اب تک ہونے والے کئی انتخابات کی نسبت اس بار متحدہ کوبالکل مختلف حالات میں انتخابی معرکہ جیتنے کا سنگین چیلنج در پیش تھا۔ کراچی میں سنگین جرائم کے خلاف جاری آپریشن اور لندن میں مقدمات نے اسے واضح طور پر مشکل صورت حال سے دو چار کر دیا تھا‘ جس کی بنیاد پر متحدہ قومی موومنٹ سے نا پسندیدہ عناصر کے اخراج کی ضرورت کا اظہار خود الطاف حسین کی جانب سے بھی بارہا کیا جاتا رہا۔ پھر تحریک انصاف اور جماعت اسلامی جیسی اہم سیاسی پارٹیوں کے امیدوار متحدہ کے مد مقابل تھے۔ ماضی کے برعکس‘ سب کو انتخابی مہم چلانے کی تقریباً یکساں مواقع میسر آئے۔ کسی بھی فریق کی جانب سے دھاندلی اور خوف و ہراس کے حربوں کا استعمال کیا جانا مشکل تھا۔ امن و امان قائم رکھنے کی ذمہ داری رینجرز کے سپرد ہونے کی وجہ سے سیاسی تصادم کے خدشات کا بڑی حد تک سدباب ہو گیا تھا۔ شناختی کارڈ کی پابندی نے بوگس ووٹنگ کے اندیشوں کو بہت محدود کر دیا تھا۔ بعض حلقوں کی جانب سے تاثر پھیلایا گیا تھاکہ حلقہ 246‘ جو الطاف حسین کا مولد مرکز ہے‘ کے مکینوں کے اصل شناختی کارڈوں کو مرکز نائن زیرو میں محفوظ رکھا جاتا ہے اور لوگوں کو اپنے روزمرہ کے کام کے لئے رنگین کاپی مہیا کر دی جاتی ہے۔ بعض حلقوں کی خواہش بلکہ کوشش تھی کہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف مشترکہ امیدوار کے ساتھ انتخابی میدان میں سامنے آئیں، لیکن شاید جماعت اسلامی زمینی حقائق سے آگاہی حاصل کرنا چاہتی تھی چنانچہ انہوں نے اپنا اپنا انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا۔ شاید یہ فیصلے اس لئے کیا گیا بطور خاص جب ایک سیٹ سے قومی سیاست میں کوئی جوہری تبدیلی واقعہ نہیں ہونے والی تھی اور آئندہ کی حکمت عملی طے کرنے کے لئے انتخابی پریکٹس ضروری تھی۔ اس حکمت عملی کے نتیجے میں جماعت اسلامی کو اپنی سیاسی اوقات کا بخوبی علم ہو گیا اور جماعت اسلامی کے امیدوار عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی شق 20,13 اور 43کے تحت اپنی ضمانت بھی ضبط کروا بیٹھے۔ انتخابی قوانین کے تحت ان کو اپنی ضمانت بچانے کے لئے کم و بیش پندرہ ہزار ووٹوں کی ضرورت تھی، جبکہ راشد نسیم تقریباً نو ہزار ووٹ ہی حاصل کر سکے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے کنور نوید جمیل‘ جو انتہائی متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں‘ کو 96 ہزار ووٹ عزیز آباد کے ووٹروں نے دیے۔ اس طرح جماعت اسلامی کے چراغوں میں اب لگتا ہے کہ روشنی نہیں رہی۔ جب جنرل یحییٰ خان نے یکم جولائی 1969ء کو اپنی طویل ترین نشری تقریر میںقومی انتخابات کا اعلان کیا‘ تو جماعت اسلامی کو عسکری قیادت کی مکمل حمایت حاصل تھی اور انہوں نے پہلی مرتبہ نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کو اپنی انتخابی مہم میں استعمال کیا اور غالباً 1970ء کے اوائل میں یوم شوکت اسلام منایا۔ راقم نے اپنی طالب علمی کے زمانے میں یومِ شوکتِ اسلام کی عظیم الشان ریلی دیکھی تھی‘ مولانا مودودی جس کی قیادت کر رہے تھے۔ اس کے باوجود 7 دسمبر 1970ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی کو مغربی پاکستان میں صرف چار نشستیں ہی حاصل ہو سکیں‘ جن میں دو نشستیں صوبہ سرحد سے اور دو کراچی سے حاصل ہو سکیں۔
اس کامیابی نے متحدہ قومی موومنٹ کو اب اپنے بارے میں قائم ہونے والے منفی تاثرات کے ازالے کا اچھاموقع فراہم کر دیا ہے جسے اپنی صفوں کو ناپسندیدہ سرگرمیوں میں ملوث عناصر سے پاک کرنے کے لئے استعمال کر کے وہ اپنے لئے ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار کی ادائیگی کے زیادہ وسیع مواقع حاصل کر سکتی ہے۔ شکست سے دو چار ہونے والی تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کو بھی ان انتخابی نتائج نے اپنی مقبولیت میں اضافے اور اپنی انتخابی حکمت عملی کو بہتر بنانے کے اقدامات پر سوچ بچار کا موقع فراہم کر دیا گیا ہے جس سے فائدہ اٹھا کر وہ مستقبل میں اپنی کامیابی کے امکانات روشن کر سکتی ہیں۔
حلقہ 246 کراچی کا ضمنی الیکشن ملکی تاریخ کا مقبول ترین ضمنی انتخاب قرار پایا۔ قومی و بین الاقوامی میڈیا نے جس طرح سے کراچی کے اس ایک حلقے کے ضمنی الیکشن کی کوریج کی‘ ماضی میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ تمام نجی ٹیلی وژن چینلز نے 24 گھنٹے کی لائیو کوریج کا بندوبست کر رکھا تھا۔ راقم نے بھی ضمنی انتخاب کی براہ راست کوریج کرنے والے تقریباً سبھی ٹیلی وژن چینلز میں اپنے تاثرات و مشاہدات کا اظہار کیا۔ کراچی کے ضمنی انتخاب کی غیر معمولی اہمیت اختیار کرنے کی کئی وجوہ تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ11 مارچ کو رینجرز آپریشن اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین پر منی لانڈرنگ اور دیگر الزامات اور صولت مرزا اور نبیل گبول کے معاملات نے 246 کے ضمنی الیکشن کو ملکی سیاست کی اہم ترین سرگرمی بنا دیا تھا اور تحریک انصاف کو بھرپور کوریج دی۔ اس ضمنی انتخاب کے بعد طے پایا کہ میڈیا یا عوام کی رائے پر اثر انداز تو ہو سکتا ہے مگر اسے یکسر تبدیل نہیں کر سکتا۔ اب قوم اس حقیقت کو جان چکی ہے کہ ایم کیو ایم حقیقت میں کراچی کے عوام کی حقیقی نمائندہ جماعت ہے۔ کراچی کا ضمنی انتخاب ملکی تاریخ کا شفاف ترین الیکشن سمجھا جا رہا ہے۔ ہر پولنگ بوتھ پر ایک رینجر اہلکار کی موجودگی نے انتخابات کی شفافیت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے ۔الطاف حسین نے اپنی حکمت عملی سے یہ واضح پیغام دیا ہے کہ ان کی طاقت ابھی برقرار ہے۔ اگر اس طرح کے شفاف انتخابات ہوں تو کسی جماعت کو دھاندلی کی شکایت نہ ہو۔ اگرچہ اس کے لیے بہت زیادہ وسائل درکار ہوتے ہیں؛ تاہم یہ مشکل مراحل قوموں کی تعمیر و ترقی میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ کراچی کے ضمنی انتخاب میں کسی جماعت نے دھاندلی کا الزام نہیں لگایا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ خوامخواہ کوئی بھی دھاندلی کا الزام نہیں لگاتا بلکہ اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی شواہد اور حقائق موجود ہوتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں