"KDC" (space) message & send to 7575

کنٹونمنٹ بورڈز اور حلقہ 246 کے انتخابات

پورے ملک کے کنٹونمنٹ بورڈز میں 25 اپریل کو مقامی حکومت کے انتخابات سے ان علاقوں کے شہریوں کو بالآخر 17 سال بعد ایسا آئینی و جمہوری حق مل گیا ‘جو 2002ء سے حکمرانوں کے لیت و لعل کا شکار تھا۔ مارچ 1998ء میں کنٹونمنٹ بورڈز کے نام نہاد انتخابات ہوئے تھے اور کنٹونمنٹ بورڈز کی انتظامیہ نے اپنی ہی نامزد کردہ الیکشن اتھارٹی کے لئے رسمی کارروائی مکمل کی تھی۔ سپریم کورٹ کے مسلسل احکامات کے باوجود ملک میں کنٹونمنٹ بورڈز سمیت مقامی حکومتوں کے انتخابات تعطل کا شکار رہے۔ 2008 ء میں منتخب وفاقی اور صوبائی حکومتیں قائم ہوئیں مگر انہوں نے عوام کو بلدیاتی انتخابات کے آئینی حق سے محروم رکھا۔ 2013ء کے عام انتخابات کے نتیجہ میں قائم شدہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں بھی اسی روش پر کار بند رہیں حتیٰ کہ فروری کے آخر میں سپریم کورٹ کو یہ انتباہ جاری کرنا پڑا کہ اس آئینی تقاضے کی تکمیل نہ کی گئی تو ملک کے وزیر اعظم سمیت تمام ذمہ داروں کے خلاف توہین عدالت کے حوالے سے کارروائی کی جائے گی۔ اس کے بعد کوشش کی گئی کہ کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر کرائے جائیں، تاہم اس فیصلے کو آئینی بنیادوں پر چیلنج کر دیا گیا اور 31 مارچ 2015ء کو لاہور ہائی کورٹ نے کنٹونمنٹ بورڈز میں غیر جماعتی انتخابات کے فیصلے کو کالعدم قرار د ے دیا۔ اس طرح بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے طور پر کنٹونمنٹ کے علاقوں میں جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات کا راستہ ہموار ہو ا۔ 25 اپریل کو 42 کنٹونمنٹ بورڈز میں انتخابات عمل میں آئے جن میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے 68 سیٹوں کے ساتھ پہلی پوزیشن حاصل کی ۔ 55 نشستوں پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔ تحریک انصاف نے 43 اور متحدہ قومی موومنٹ نے 19 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ پاکستان پیپلز پارٹی محض سات نشستیں حاصل کر سکی۔ جماعت اسلامی کی نشستوں کی تعداد 6 رہی جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کے حصہ میں دو آئیں۔
پاکستا ن کی سیاسی جماعتوں میں تحقیق اور قانونی معاملات کے ادراک کا کوئی منظم سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے الیکشن میں بے قاعدگی اور قانونی معاملات سے انحراف کا علم ہی نہیں ہو پاتا۔ حالیہ کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات میں انتخابی قواعد کی سنگین خلاف ورزیاں دیکھنے میں آئیں، جن میں پابندی کے باوجود پولنگ بوتھس میں موبائل فون کا استعمال اور قومی شناختی کارڈ کے بجائے دیگر دستاویزات کی بنیاد پر ووٹ ڈالنے کی اجازت شامل ہیں۔ الیکشن کمیشن کو ایسی شکایات کا نوٹس لے کر انتخابی قوانین پر مکمل عمل در آمد کو یقینی بنانے کا اہتمام کرنا چاہئے‘جن پولنگ سٹیشنوں پر قومی شناختی کارڈ کے بغیر انتخابات ہوئے ‘ ان کی انتخابی فہرستوں کا از سر نو جائزہ لے کر ان وارڈز کے انتخابات کو کالعدم قرار دینا چاہیے اور متعلقہ پریذائڈنگ افسر ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جانی چاہیے۔
تحریک انصاف کو کراچی کے حلقہ این اے 246 میں جو صرف 22 ہزار ووٹ حاصل ہوئے اور کنٹونمنٹ کے انتخابات میں لاہور، راولپنڈی، گوجرانوالہ، سیالکوٹ اور دیگر اہم علاقوں میں جو شکست کا سامنا کرنا پڑا‘ میرے خیال میں اس کی وجہ یہ ہے کہ جسٹس وجیہہ الدین کمیشن کی رپورٹ اچانک آنے سے تحریک انصاف انتظامی ڈھانچے سے محروم ہو گئی اور عمران خان تنہا ہو گئے۔جسٹس وجیہہ الدین کو پارٹی کے اندرونی انتخابات کالعدم قرار دینے سے پہلے زمینی حقائق کا جائزہ لینا اور آئندہ انتخابات کے لئے طریقہ وضع کرنا چاہیے تھا۔ علاوہ ازیں لاہور میں دو طاقتور گروپ آپس میں متصادم رہے۔ اعجاز احمد چودھری تحریک انصاف کا اثاثہ ہیں۔ انہوں نے 2010ء سے تحریک انصاف کو پنجاب میں تنظیمی اعتبار سے مضبوط کیا‘ مگر مخالف گروپ نے ان کی انتخابی حکمت عملی کو سیاسی مفادات کے تحت ناکام بنا دیا۔
سیاسی جماعتوں کو انتخابی ٹیکنالوجی کو مد نظر رکھنا چاہئے کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ بڑے جلسوں سے ووٹ حاصل کئے جا سکیں۔ تحریک انصاف ، جمعیت علماء اسلام، جماعت اسلامی اور دیگر قوم پرست سیاسی جماعتوں نے کراچی میں بہت بڑے جلسے کئے لیکن وہاں ان کا ووٹ بنک نہیں ہے۔ جلسے عوامی مقبولیت کا معیار نہیں ہوتے، فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں بڑے سیاسی جلسے کرنے کا رواج احمد سعید کرمانی (مرحوم)، خدا بخش بچہ (مرحوم) اور مسعود صادق (مرحوم) نے شروع کیا تھا لیکن ان کو عوامی حمایت حاصل نہ ہو سکی۔ جلسے اور جلوس ووٹ اور کامیابی نہیں دلا سکتے، زیادہ اہم تنظیم اور سیاسی قیادت کا رویہ ہوتا ہے۔ جس شہر ، صوبے اور ملک کی سیاست کی جا رہی ہے اس میں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ سیاست کرنے والے افراد وہاں کے لوگوں میں پہچان رکھتے ہوں ، اچھی سیاست، اچھی تنظیم ‘ اچھی قیادت اور علاقے کے مسائل سے آگہی ان کا طرۂ امتیاز ہو۔ لوگوں کو ان پر اعتماد ہونا چاہئے کہ یہ ایماندار ہیں اور خلوص سے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں۔
تحریک انصاف کے لئے کراچی میں سیاست کرنے کا موقع موجود ہے اور ایک سیاسی خلا بھی ہے، یہ وہی سیاسی خلا ہے جو پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، جمعیت علماء پاکستان اور چند دیگر مذہبی و سیاسی جماعتوں نے چھوڑا ہے۔ تحریک انصاف اس خلا کو پر کر سکتی ہے۔ ایم کیو ایم نے جو مقام بنایا ہوا ہے اس میں داخل ہونا حلقہ 246 کے انتخابات میں شکست کے بعد مشکل ہے۔ بد قسمتی سے تحریک انصاف کو شہری سیاست کا ادراک نہیں ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے ضمنی انتخابات میں اپنی ساری انتخابی مہم الطاف حسین کی شخصیت اور ایم کیو ایم کے خلاف چلائی۔ عمران خان اور ان کے امیدوار کی ٹیم نے کراچی کے سنگین مسائل کے حل کے لئے کوئی پروگرام نہیں دیا۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ ان کی یہ انتخابی مہم ایم کیو ایم کے خلاف جاری آپریشن کا حصہ ہے۔ مئی 2013 ء کے عام انتخابات کے مقابلے میں تحریک انصاف کی مقبولیت کا گراف کراچی کے مقامی رہنمائوں کی وجہ سے کم ہوا ہے۔ کراچی کے عوام نے ان دو سالوں میں ان کی ٹیم کی کارکردگی اور انداز سیاست کو بغور دیکھا ہے۔ میڈیا ان کے منفی پہلوئوں کو اجاگر کرتا رہا ہے۔
پاکستان کے شہری اب ماضی کی نسبت زیادہ با شعور ہیں۔ آئندہ چند مہینوں میں صوبہ خیبر پختون خوا، پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ضروری ہے ملک کی تمام سیاسی جماعتیں ان بلدیاتی انتخابات کو حقیقی معنوں میں عوام کی صفوں سے قومی قیادت ابھارنے کا ذریعہ بنائیں۔ اس کے علاوہ ملک میں نچلی سطح سے جمہوریت کی نشوونما کے لئے پارٹیوں میں انتخابات کرا کے صحیح قیادت کو سامنے لائیں۔ تحریک انصاف میں اندرونی طور پر سازشوں کا جال بچھ گیا ہے اور لگتا ہے انٹرا پارٹی الیکشن کے حوالے سے پارٹی کی بعض شخصیات نے عمران خان کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کر دیا ہے۔
جوڈیشل کمیشن کے حوالے سے حکومتی حلقوں نے ملک میں اضطراب کی فضا قائم کر رکھی ہے اور عدالتی فیصلے سے پہلے ہی شادیانے بجائے جا رہے ہیں۔ ان وزراء کو شاید صورتحال کا درست ادراک ہی نہیں ہے۔ تھوڑا سا انتظار کر لیں۔ انتخابی آمرانہ سوچ سے نکل کر جمہوریت کی طرف سفر شروع ہونے کے امکانات واضح ہوتے جا رہے ہیں۔ بادی النظر میں 11 مئی 2013ء کے انتخابات میں مجرمانہ سرگرمیوں کی تہہ تک پہنچنے کی ذمہ دار ی تحقیقاتی ٹیم کی ہی ہے جس میں نادرا کا کردار اہم ہو گا۔
11 مئی 2013 ء کے قومی انتخابات کے بعد اب تک کم و بیش 35 ضمنی انتخاب ہو چکے ہیں لیکن جو اعزاز حلقہ 246 کو حاصل ہوا کسی اور ضمنی انتخاب کو حاصل نہ ہو سکا۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے کراچی میں جاری آپریشن سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور دونوں جماعتوں نے مہاجر کمیونٹی کی عصبیت کو جگا دیا۔ پاکستان کی تخلیق قائد اعظم کی آئینی اور قانونی جدوجہد کا نتیجہ ہے اور اس کے لئے انگریزوں کے ساتھ کوئی باقاعدو جنگ نہیں لڑی گئی تھی مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ تقسیم ہند کے نتیجے میں ہونے والے فسادات کی وجہ سے نوع انسان کی آبادی کا سب سے بڑا تبادلہ رو پذیر ہوا؟ ایک کروڑ 30 لاکھ کے لگ بھگ انسانوں نے اپنا گھر بار چھوڑا، جہاں ان کے آباؤ اجداد صدیوںسے رہتے تھے اور جو معاشی لحاظ سے بھی تقریباً خوشحال تھے ‘وہ بھرے بھرائے گھروں کے دروازے کھلے چھوڑ کر خالی ہاتھ اس امید پر کیمپوں میں آ گئے تھے۔
مشرقی و مغربی پنجاب میں جب خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی تو 50 ہزار نفوس پر مشتمل پنجاب بائونڈری فورس محض تماشائی تھی۔ ہمارے سیاستدانوں کو یہ ادراک ہی نہیں کہ فسادات ایک بہت بڑی سازش کا نتیجہ تھے۔ اگر قتل و غارت نہ ہوتی تو آبادی کی تقسیم بھی نہ ہوتی اور لوگ بدستور اپنے آبائی گھروں میں آباد رہتے جو کانگرس کے سازشی ذہنوں کو منظور نہیں تھا۔ اس تاریخی تناظر میں کراچی حیدرآباد اور اندرون سندھ میں مہاجرین کے جذبات کا ادراک نہ رکھنے والی سیاسی جماعتیں انتخابی عمل میں کامیاب نہیں ہو سکیں اور حلقہ 246 کی وجہ سے پاکستان کے فرسودہ انتخابی نظام کو زندہ کر دیا گیا ہے الطاف حسین نے کراچی میں اپنی پوزیشن مضبوط کر لی ہے اور عمران خان کراچی کے علاوہ کنٹونمنٹ بورڈ ز کے انتخابات میں بھی برتری حاصل نہیں کر سکے۔ اسی رد عمل کے طور پر الطاف حسین نے کراچی صوبہ کا مطالبہ کر دیا۔میرے خیال میں حلقہ246 کے انتخاب کو بلا وجہ غیر معمولی اہمیت دی گئی ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں