"KDC" (space) message & send to 7575

سیاسی جماعتیں اور آرٹیکل 17 !

ملک کے سیاسی افق پر سیاسی رہنماوں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف جو سیاسی بیانات کی جنگ بھڑک اٹھی ہے‘ لگتا ہے کہ اس وقت ملک کا اہم ترین مسئلہ سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما ہیں۔ ملیر کے ایس ایس پی راؤ محمد انوار نے متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف پریس کانفرنس‘ ظاہر ہے حقائق سے روشناس کرانے کے لئے اعلیٰ حکام کی مشاورت سے کی۔ راؤ انوار بطور ایس ایس پی قومی ایکشن پلان کمیٹی کا بھی حصہ تھے۔ ان کی پریس کانفرنس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی والے اس خوف میں مبتلا ہیں کہ ایم کیو ایم کے بعد ان کی باری نہ آجائے کیونکہ گورنر سندھ اب عسکری قیادت اور ایم کیو ایم کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ ادھر قومی ایکشن پلان اپنی اصل روح کے مطابق آگے نہیں بڑھ رہا ہے اور وفاقی اور صوبائی حکومتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ اب بھی چند منظم بھتہ خور بڑی بڑی مارکیٹوں سے باقاعدہ بھتہ وصول کر رہے ہیں، اور تاجر برادری خاموشی سے رقمیں جمع کرکے ان کے ایجنٹوں تک پہنچانے پر مجبور ہے۔ کہا جاتا ہے کہ محض ایک جماعت نہیں بلکہ کئی سیاسی، سماجی، مذہبی اور علاقائی گروپس ان میں شامل ہیں۔ تقریباً دو ماہ گذر چکے ہیں کسی بھی عسکری ونگ اور آزاد دہشت گرد گروپ‘ جن کی سرپرستی بعض سیاسی، لسانی اور مذہبی جماعتیں کر رہی ہیں ‘ کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔ نائن زیرو پر 11 مارچ کو چھاپے سے متحدہ قومی موومنٹ میں کافی اضطراب تھا جب کہ دیگر سیاسی جماعتوں کے حوالے سے خاموشی ہے۔ کراچی میں دہشت گردی میں بعض دوسری سیاسی، مذہبی اور سندھ کے قوم پرست علاقائی گروپس بھی شامل ہیں، ان سب کے خلاف آپریشن کیاجائے تب جا کر کراچی میں مکمل امن قائم ہوگا۔
متحدہ کے قائد الطاف حسین کے بیانات سے ملکی سیاسی فضا مکدر ہو رہی ہے بلکہ جمہوری اداروں پر بھی زد پڑنے کا اندیشہ ہے ۔ ملکی سرمایہ دوسرے ملکوں میں منتقل ہو رہا ہے اور کاروباری، تجارتی سرگرمیاں مفلوج ہو کر رہ گئی ہیں۔ ایسے حالات میں الطاف حسین کو عسکری قیادت اور عسکری اداروں کے بارے میں بیانات سے گریز کرنا چاہیے تھا۔ وقفہ وقفہ سے معذرت کا اظہار کرنے کی وجہ سے ان کے حامیوں کی سبکی بھی ہو رہی ہے۔ ان کے جذباتی بیانات سے ریاستی اداروں پر تنقید اور تضحیک کا پہلو نکلتا ہے۔ جنرل راحیل شریف نے چند روز پیشتر اشارہ دیا تھا کہ ایک پلان کے تحت ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ راؤ انوار نے پریس کانفرنس میں اس کا واضح ثبوت پیش کر دیا ہے۔ان حالات میں قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ آگے کچھ ایسے شواہد سامنے آئیں گے جن کے ذریعے بھارت کا تعلق ظاہر ہوگا۔ ایک طرف فوج آپریشن کر رہی ہے، اس کے پاس خفیہ معلومات ہیں، جن پر وہ یقین رکھتی ہے، دوسری طرف ہماری سیاسی جماعتیں ہیں، جن کے سیاسی مقاصد ہیں۔ اگر وفاقی حکومت الطاف حسین کی تقریر پر آئین کے آرٹیکل 17 اور پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء کے آرٹیکل 15 اور 16 کے مطابق کارروائی کرنے کا عندیہ دے دیتی تو میرے خیال میں فوج کو شدید ردعمل دینے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ فوج بجا طور پر قومی مفاد میں کام کر رہی ہے مگر ایک تاثر ہے کہ سندھ حکومت ان کا ساتھ نہیں دے رہی اور وزیر اعظم نواز شریف بھی اس حد تک تیزی سے ساتھ نہیں دے رہے جیسا کہ دینا چاہیے اور شاید کچھ دوسری سیاسی حکومتیں اس آپریشن کے سلسلے میں کھلے دل سے تعاون نہیں کر رہی ہیں۔ الطاف حسین صاحب نے جب بھی فوج کی تعریف کی تو ان کا مقصد یہ تھا کہ اگر فوج مارشل لاء لگاتی ہے تو ہم فوج کے ساتھ ہیں۔ الطاف حسین کا کراچی میں فوج اور رینجرز کو آپریشن کے لئے بلانے کا مقصد طالبان کا مکمل صفایا کروانا تھا۔ لیکن فوج جب کراچی گئی تو اس نے سیاست کھیلے بغیر آپریشن شروع کر دیا جس کی وجہ سے کچھ حلقے ناراض ہو گئے۔
سندھ میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف آپریشن کے دوسرے اور نازک مرحلے میں بعض صوبائی وزراء سمیت اعلیٰ سیاستدانوں کے خلاف بھی کارروائی ہونے کا امکان ہے۔ اس کے علاوہ اربوں روپے کی کرپشن اور زمینوں پر قبضوں میں ملوث بیورو کریٹس کو بھی گرفت میں لینے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا، آئندہ چند دنوں میں دہشت گردوں اور کرپٹ عناصر کے خلاف سندھ کے دیہی اور شہری علاقوں میں آپریشن تیز کر دیا جائے گا اور ایک کشتی کے ذریعے اربوں ڈالر دوبئی منتقل کرنے کی کوشش کا معاملہ بھی زیر تفتیش ہے ۔شنید یہی ہے کہ 60 سے زائد اعلیٰ بیورو کریٹس اور بعض صحافیوں کے خلاف مذکورہ جرائم میں اعانت پر کارروائی کی جائے گی جنہوں نے کروڑوں روپے کے ناجائز فوائد حاصل کئے اور انہوں نے دوبئی میں جائیدادیں بنائی ہیں ۔
الطاف حسین صاحب نے اپنے خطاب میں غیر محتاط لب و لہجہ اختیار کرنے کے حوالے سے کہا ہے کہ ان کی تقریر پر طوفان کھڑا کر دیا گیا ہے اور اگر کوئی ان کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ چلانا چاہتے ہیں تو یہ شوق پورا کر لیا جائے جب کہ احساس ذمہ داری کا تقاضا ہے کہ الطاف حسین نے اپنے پہلے بیان پر جو صدق دل سے معذرت کی ہے اسے زیر غور لایا جائے ‘اس کے بعد وہ غیر محتاط رویے سے مکمل گریز کر کے اپنے سنجیدہ ہونے کا ثبوت فراہم کریں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ ہی نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کو سماج اور وطن دشمن اور جرائم پیشہ عناصر سے پاک کیا جائے۔ کراچی میں جاری آپریشن کو پوری غیر جانبداری کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے اور اس عمل کو پورے ملک بشمول جنوبی پنجاب تک وسعت دی جائے، نیز الطاف حسین اور متحدہ قومی موومنٹ کے آئین اور قانون کے دائرے میں مثبت سیاسی کردار کی ادائیگی کے تمام مواقع کھلے رکھے جائیں اور اس دائرے کے باہر کسی سرگرمی کی اجازت کسی بھی سیاسی جماعت اور اس کی قیادت کو کسی بھی صورت نہ دی جائے۔
اصولی طور پر الطاف حسین کو حیدر عباس رضوی کی باز پرسی کرنی چاہئے تھی کہ انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں تیسری شخصیت کا ذکر کس زمرے میں کیا تھا کیونکہ بادی النظر میں حید ر عباس رضوی کا اشارہ جنرل راحیل شریف کی طرف تھا کیونکہ فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف 29 اپریل (بدھ) کو کراچی میں تھے۔جنرل راحیل شریف اس دن کو ر ہیڈ کوارٹرز میں کو ر کمانڈر اور ڈائریکٹر جنرل رینجرز کے ساتھ کراچی آپریشن کے نتائج کے حوالے سے بریفنگ لے رہے تھے اور انہوں نے کراچی کے اس دورے کے دوران صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ کراچی میں تمام مافیاز کا خاتمہ کیا جائے گا۔
بلوجستان اسمبلی نے افواج پاکستان، قومی اداروں اور ملکی سالمیت کے خلاف ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کی جانب سے تقریر کو ملک سے بغاوت قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اس جماعت پر پابندی عائد کی جائے اور اس کے نام نہاد لیڈر کے خلاف کاروائی کی جائے۔ اسی طرح کی مزید قراردادیں آ سکتی ہیں۔ کسی جماعت کو غیر قانونی قرار دینا ایک ناپسندیدہ فعل ہے جس کے ماضی میں کبھی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوئے۔اس حوالے سے پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء کے آرٹیکل 15 اور 16 عوام ، میڈیا اور آئینی اور قانونی ماہرین کے لیے چشم کشا ہیں آئینی پوزیشن ملاحظہ فرمائیں:۔
DISSOLUTION OF
POLITICAL PARTIES
15. Dissolution of a political party.-(1) Where the Federal Government is satisfied that a political party is a foreign-aided party or has been formed or is operating in a manner prejudicial to the sovereignty or integrity of Pakistan or is indulging in terrorism, it shall make such declaration by a notification in the official Gazette.(2) Within fifteen days of making a declaration under clause (1), the Federal Government shall refer the matter to the Supreme Court whose decision on such reference shall be final.
(3) Where the Supreme Court upholds the declaration made against a political party under clause (1), such party shall stand dissolved forthwith.
16. Effects of Dissolution of political party.-(1) Where a political party is dissolved under Article 15, any member of such political party, if he is a member of the Majlis-e-Shoora (Parliament) or a Provincial Assembly, shall be disqualified for the remaining term to be a member of the Majlis-e-Shoora (Parliament) or as the case may be, the Provincial Assembly, unless before the final decision of the Supreme Court, he resigns from the membership of the party and publicly announces his disassociation with such political party.
(2) A person becoming disqualified from being a member of the Majlis-e-Shoora (Parliament) of Provincial Assembly under clause (1) shall not participate in election for any elective office or any legislative body till the expiry of four years from the date of his disqualification from being a member of the Majlis-e-Shoora (Parliament) or, as the case may be, the Provincial Assembly.
(3) The order of members of a political party becoming disqualified from being members of Majlis-e-Shoora (Parliament) of the Provincial Assembly on its dissolution shall be notified in the official Gazette.

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں