"KDC" (space) message & send to 7575

الیکشن کمیشن کے لئے لمحہ فکریہ !

الیکشن ٹر بیونل کا فیصلہ اگرچہ سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا ہے پھر بھی حکمران جماعت کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے۔ سردار ایاز صادق، خواجہ آصف اور دیگر اہم رہنماوں کے بارے میں الیکشن ٹربیونل کے فیصلے بھی عنقریب متوقع ہیں۔ حکومتی وزراء کا یہ موقف درست نہیں ہے کہ سات پولنگ سٹیشنز کو بنیاد بنا کر پورے الیکشن کی نفی نہیں کی جا سکتی۔ ان ارکان اسمبلی کو عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی شق 67 اور 68 کا ادراک ہی نہیں ہے کہ اگر پورے حلقہ کے کسی بھی پولنگ سٹیشن کے بارے میں بد عنوانی کے ثبوت سامنے آجائیں تو پورے حلقہ کے انتخاب کو کالعدم یا پھر دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار کو کامیاب قرار دیا جا سکتا ہے۔ قومی اسمبلی کے حلقہ 125 اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ 155 دونوں کے انتخابات کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی کے حلقہ 125 سے خواجہ سعد رفیق 123416 اور پی پی 155 سے میاں نصیر احمد 62838 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے تھے جب کہ ان کے مد مقابل تحریک انصاف کے امیدواران حامد خان اور حافظ فرحت عباس دوسرے نمبر پر تھے۔ الیکشن ٹربیونل نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ووٹوں کے سات بیگز کو تصدیق کے لئے نادرا کو بھجوایا گیا تھا۔ نادرا رپورٹ سے دھاندلی کے ثبوت ملے ہیں۔ ایک ایک ووٹر نے چھ چھ ووٹ کاسٹ کئے۔ الیکشن ٹربیونل نے اپنے فیصلے میں ریمارکس دیئے کہ انتخابی عملے نے اپنے فرائض
میں غفلت برتی اور حکم جاری کیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 224 کی روح کے مطابق 60 روز کے اندر دوبارہ انتخابات کروائے جائیں ‘تاہم نرم رویہ اختیار کرتے ہوئے الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ آفیسرکو نصیحت کی ہے کہ اپنے فرائض درست طریقے سے ادا کریں‘ 11 مئی 2013ء کی طرح نہیں۔ الیکشن ٹربیونل نے اپنے فیصلے میں خواجہ سعد رفیق، میاں نصیر احمد، پریذائیڈنگ افسران ، اسسٹنٹ پریذائیڈنگ افسران سمیت انتخابی عملے سے اعزازیے اور مراعات واپس لینے کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہاکہ خواجہ دسعد رفیق اور میاں نصیر احمد نے جو تنخواہیں اور مراعات لی ہیں وہ واپس کر دیں۔ الیکشن ٹربیونل نے بادی النظر میں 11 مئی 2013ء کے انتخابات کی روایت نہ دہرانے کا ذکر کرکے قومی انتخابات کے بارے میں تحفظات کا اظہار کر دیا ہے۔
الیکشن ٹربیونل نے اس حلقہ میں بد عنوانی اور دیگر غیر قانونی ذرائع استعمال کرنے پر حلقہ 125 اور پی پی 155 کے انتخابات کو کالعدم قرار دے کر کامیاب امیدواروں کو بد عنوانی کا مرتکب قرار دیا ہے۔ اس فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن کی بہت اہم ذمہ داری ہے کہ دھاندلی کے ذمہ داروں کے خلاف مقدمہ دائر کرے۔ این اے 125، این اے 122، این اے 124، این اے 118 کے پولنگ سٹیشنوں پر ڈائریکٹر جنرل لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی احد چیمہ کی معاونت سے ریٹرننگ افسران نے اس ادارے کے 40 ہزار اہلکاروں کو ڈیوٹی پر لگایا اور ان اہل کاروں کا ریکارڈ صوبائی الیکشن کمشنر کے ہاں موجود ہے۔ جن کو اعزاز یہ دیا گیا تھا‘ ان کا ریکارڈ بھی آڈٹ کے نقطہ نظرسے محفوظ ہے۔ عوامی نمائندگی ایکٹ کی شق 93, 92, 91 کے تحت اس حلقے کے ریٹرننگ آفیسر اور سات پولنگ سٹیشنوں کے انتخابی عملہ کے خلاف عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی شق 82-A اور 85 کے تحت مقدمہ درج کروایا جائے تاکہ آئندہ انتخابات میں بد عنوانیوں کا راستہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو سکے۔ خواجہ سعد رفیق اور دیگر رہنمائوں کی رہنمائی کے لئے بتاتا چلوں کہ عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی شق (C) (D) 68 کے تحت انتخابی عملہ کے ذریعے کسی امیدوار کو فائدہ پہنچانا بدعنوانی کے زمرے میں آتا ہے، پھر ہمارے سیاستدان بدعنوانی کے الزام سے کیسے بچ سکتے ہیں۔ انتخاب کے موقع پر کوئی ریٹرننگ آفیسر یا پولنگ کا عملہ خود دھاندلی نہیں کرتا، جب تک ان پر کوئی دباؤ نہ ہو، لہٰذا عومی نمائندگی ایکٹ 76 کی شق 91 کے تحت ان کو دو سال کی سزا دی جا سکتی ہے۔ الیکشن ٹربیونلز کے تمام فیصلے‘ جن میں انتخابات کو کالعدم قرار دیا گیا ہے‘ جوڈیشل کمیشن کے لئے چشم کشاء ثابت ہو سکتے ہیں، عدالتی کمیشن ایسے مرتکب ریٹرننگ افسران کو طلب کرکے حقائق معلوم کر سکتا ہے۔
ملک کے انتخابی نظام میں اصلاحات لانے کی باتیں تو ہمیشہ ہوتی رہیں مگر عملی کام بہت کم کیا گیا، جس کی وجہ سے 1970ء کے معمولی استثناء کے ساتھ آج تک ہونے والا ہر الیکشن دھاندلیوں اور بے قاعدگیوں کے الزامات کی زد میں رہا۔ 11 مئی 2013ء کے قومی انتخابات اس لحاظ سے منفرد تھے کہ تقریباً تمام بڑی اور قابل ذکر پارٹیوں کو وفاق یا صوبوں کے اقتدار میں حصہ مل گیا‘ پھر بھی انتخابی نتائج چرانے کی شکایات کم نہ ہوئیں اور پاکستان تحریک انصاف نے اس حوالے سے پر جوش مہم چلائی جس کے نتیجہ میں سیاسی اتفاق رائے سے جو جوڈیشل کمیشن تشکیل پایا‘ وہ ان انتخابات میں منظم دھاندلی کی شکایات کی تحقیقات شروع کر چکا ہے۔ اب لاہو ر سے حلقہ 125 کے بارے میں الیکشن ٹربیونل نے ایسا فیصلہ دیا ہے جسے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ہزیمت اور تحریک انصاف کی اخلاقی فتح قرار دیا جا رہا ہے۔ اس حلقے کی پہلی اہمیت یہ ہے کہ یہ ان چار حلقوں میں سے ایک ہے جن پر تحریک انصاف نے سب سے پہلے تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا جو پورا نہ ہو سکا تو معاملہ جوڈیشل کمیشن کے ذریعے سارے انتخابی عمل کی شفافیت جانچنے تک جا پہنچا۔ اس کی دوسری اہمیت یہ ہے کہ یہاں سے میاں نواز شریف کے دست راست خواجہ سعد رفیق کامیاب ہوئے تھے جو وفاقی وزیر ریلوے بھی ہیں۔ انتخابی ٹربیونل نے مقدمے کی دو سال تک سماعت کے بعد ریٹرننگ آفیسر سمیت انتخابی عملے کو بے ضابطگیوں کا مرتکب ٹھہراتے ہوئے وصول کی جانے والی تنخواہوں اور مراعات کی رقم واپس کرنے کے احکامات جاری کر دیئے۔ اب اگر جوڈیشل کمیشن کی سفارشات پر ملک میں نئے انتخاب کا عمل شروع کر دینے کے امکانات پائے جائیں تو موجودہ انتخابی سسٹم کے تحت ہی الیکشن ہوں گے۔ اس صورت میں اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ دھاندلیوں سے پاک اور صاف، شفاف ہوں گے، اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ انتخابی نظام میں موجود خرابیوں کو دور کیا جائے اور سیاسی پارٹیوں کو چاہئے کہ انتخابی اصلاحات کی پارلیمانی کمیٹی کو متحرک کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں