"KDC" (space) message & send to 7575

متنازع الیکشن کی بد ترین مثال

قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق کے حلقہ 122 کے بارے میں نادرا کی جانب سے انتخابی ٹربیونل میں جمع کرائی جانے والی فرانزک رپورٹ کے مطابق بیلٹ پیپرز کی بڑی تعداد کے کائونٹر فائلز پر لگائے گئے انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ دو ماہ کی مدت میں بیلٹ پیپروں کی مکمل جانچ پڑتال کے بعد جاری کی گئی اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ڈالے گئے ایک لاکھ 84 ہزار ووٹوں میں سے 73 ہزار ووٹوں کے انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق ہوگئی ہے جب کہ 93 ہزار ووٹوں کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ تصدیق نہ ہونے کی بنیادی وجہ رپورٹ میں انگوٹھے کا نشان لگانے کے لئے فراہم کی گئی سیاہی کا ناقص ہونابتائی گئی ہے۔ تاہم رپورٹ میں ان ووٹوں کے شناختی کارڈوں کے اصل ہونے کی توثیق بھی کی گئی ہے۔ رپورٹ سے جو مزید معلومات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق 6123 بیلٹ پیپروں پر شناختی کارڈ نمبر غلط درج تھا۔ 570 ووٹ رجسٹرڈ نہیں تھے اور 1715 کائونٹر فائلز پر انگوٹھے کا نشان نہیں تھا۔ نادرا کی یہ رپورٹ اسی انتخابی عذرداری کے فیصلے میں ٹربیونل کی مدد کے لئے پیش کی گئی ہے۔ اس کی روشنی میں ٹربیونل کے لئے یہ طے کرنا آسان ہوگا کہ اس حلقے میں انتخابی نتائج منظم اور دانستہ دھاندلی کے ذریعے تبدیل کئے گئے یا نہیں اور یہ کہ انتخابی عمل میں جس پیمانے پر بے قاعدگیاں ہوئی ہیں وہ انتخابات میں ووٹروں کے فیصلے کو تبدیل کرنے کا سبب قرار دی جا سکتی ہیں یا نہیں۔
اب جبکہ عدالتی کمشن کو محض 45 دن میں اپنی رپورٹ قوم کے سامنے پیش کرنی ہے تو متحارب سیاسی فریقوں کیلئے باوقار طرز عمل یہی ہے کہ وہ قابل اعتبار اور ٹھوس شواہد کی فراہمی کے ذریعے درست نتائج تک پہنچنے میں عدلیہ کی معاونت کریں۔ انتخابی دھاندلی اور بے قاعدگی کے فرق اور ان کے مضمرات و نتائج کو بھی عدالتی فیصلوں میں واضح طور پر بیان کیا جانا چاہئے تا کہ ان حوالوں سے پائی جانے والی غلط فہمیاں دور ہوں، نیز یہ کہ دھاندلی کے ذمہ داروں کی محض نشاندہی کافی نہیں، آئین و قانون کے مطابق انہیں سزا بھی ملنی چاہیے اور آئندہ انتخابات میں شرکت کے لئے انہیں نا اہل بھی قرار دیا جانا چاہیے۔
حلقہ 125 کے الیکشن ٹربیونل کے جج جاوید رشید نے 4 مئی کو ‘جو ٹیپو سلطان کی شہادت کا دن تھا‘ مختصر فیصلہ دیا جب کہ 6 مئی کو 80 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔ اس فیصلے کے مطابق مئی 2013ء کے انتخابات میں اس حلقے میں بہت زیادہ بے قاعدگیاں ہوئیں، جنہوں نے پورے انتخابی عمل کو مشکوک بنا دیا۔اسی وجہ سے الیکشن ٹربیونل نے دوبارہ انتخابات کا حکم دیا۔ سپریم کورٹ نے الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے با قاعدہ سماعت کی تاریخ مقرر کر دی ہے۔ بہر حال الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کے اہم نکات کے مطابق متعدد پولنگ سٹیشنوں پر ایک ایک ووٹر نے اوسطاً چھ ووٹ ڈالے، درجنوں کائونٹر فائلز پر دستخط موجود نہیں تھے، 265 پولنگ سٹیشن کے تھیلوں کی جانچ پڑتال کی گئی تو ان میں بے قاعدگیاں پائی گئیں۔ ان میں سے 7 پولنگ سٹیشن کے نتائج انگوٹھوں کی تصدیق کے لئے نادرا کو بھجوائے گئے تو ان کی تصدیق نہ ہو سکی۔ حلقہ 125 کے انتخاب کو کالعدم قرار دینے کی وجوہ میں لکھا گیا ہے کہ پریزائڈنگ افسران کی فہرست ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر نے تیار کی اور یوایس بی کے ذریعے کمپیوٹر میں منتقل کی جب کہ قانون کے تحت یہ ذمہ داری ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر کی نہیں بلکہ ریٹرننگ آفیسر کی تھی۔ اس فیصلے میں یہ بھی لکھا گیا کہ ایسا ظاہر ہوتا ہے جیسے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر کے دفتر میں نامعلوم افراد نے پریذائڈنگ افسران کی فہرست تیار کر لی اور طے کیا کہ کسی مخصوص حلقے میں ذمہ داری دی جائے گی اور یہ بھی لکھا گیا کہ ریٹرننگ آفیسر نے حامد خان کی درخواستوں کے باوجود پولنگ بیگ کھولنے کی بجائے فار م xiv پر انحصار کرتے ہوئے سرکاری گنتی کروانے کا ڈھونگ رچایا اور قانون کے مطابق فارم xvi اور xviiتیار نہیں کیے گئے۔ فارم xvپر نتائج مرتب کرتے وقت پریذائڈنگ افسران نے اپنے انگوٹھے اور دستخط ہی ثبت نہیں کئے۔ ریٹرننگ آفیسر کی غفلت کی وجہ سے ایک مرحلہ پر مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد 590 جب کہ حقیقت میں5ہزار مسترد ووٹ تھے۔ الیکشن کمیشن نے پولنگ تھیلے انتہائی گھٹیا کپڑے کے بنوائے جو چند جھٹکوں کی وجہ سے پھٹ گئے۔ جب الیکشن ٹربیونل نے 10 پولنگ سٹیشنوں کا ریکارڈ طلب کیا تو وہ دستیاب ہی نہیں ہو سکا۔
اسی ساری صورت حال میں یہ دلائل دئیے جائیں کہ ریٹرننگ افسر یا پریذائڈنگ آفیسران کی غلطی کی سزا خواجہ سعدرفیق کو دی جائے تو یہ بھی ٹھیک نہیں۔ اگر کوئی یہ موقف اختیار کرتا ہے کہ یہ سنگین بے قاعدگیاں ہیں‘ دھاندلی نہیں تو یہ بھی غلط ہے ۔ دھاندلی اور بے ضابطگیاں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ ریٹرننگ افسران نے الیکشن سے دو دن پہلے پنجاب کے 93 حلقوں میں پولنگ سٹیشن الیکشن کمشن کی منظوری کے بغیر تبدیل کر دیئے اور پولنگ سٹیشنوں کی فہرست میں کئی ہزار نئے ووٹرز کے ناموں کا اندراج اور منتقلی غیر قانونی ہوتی ہے ۔ یہاں پر ایسا ہی عمل دہرایا گیا۔ یہ سب کچھ دھاندلیوں کے ہی زمرے میں آتا ہے، اسی طرح ووٹرز کا اندراج غلط یا جعلی ہے۔ انتخابی فہرستیں غلط ہیں‘ ان میں نقص رکھے گئے۔ الیکشن کے عملے نے الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے بعد اپنے فرائض قانون اور الیکشن قوانین کے مطابق ادا نہیں کئے اور امیدواروں نے سرکاری وسائل کا استعمال کیا۔ اگر کائونٹر فائلز پر دستخط نہیں، نشان انگوٹھا نہیں، شناختی کارڈ کا نمبر درج نہیں، الیکشن کے اخراجات طے کردہ حد سے زیادہ ہیںتو یہ سب دھاندلی ہی تصور کی جائے گی۔ اگر آرٹیکل 219کے مطابق تمام مراحل صاف و شفاف نہیں تو یہ دھاندلی ہی ہے۔
الیکشن کمیشن ان دنوں جوڈیشل کمیشن میں سماعت کے دوران اپنے سرکاری وکیل راجہ سلمان اکرم کی معاونت سے دفاعی پوزیشن میں کھڑا نظر آ رہا ہے۔ بعض حلقوں میں اضافی بیلٹ پیپرز چھپوانے کے عمل میں انہیں الیکشن کمیشن سے باقاعدہ منظوری حاصل کرنی چاہیے تھی اور ریٹرننگ افسران کی ڈیمانڈ کو اپنی سفارشات کے ہمراہ الیکشن کمیشن بھجوانا ان کے فرائض میں شامل تھا۔ در اصل پنجاب میں غیر مصدقہ طور پر جس الیکشن سیل کا ذکر بار بار کیا جا رہا ہے، اس خفیہ سیل نے الیکشن کمیشن کو ہاتھ دکھایا اس کے عملی ثبوت اب تحریک انصاف کو سامنے لانے چاہئیں۔
حلقہ 125 کے بارے میں حیرت انگیز اور اہم ترین فیصلہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ این اے 125 کے فیصلے کو بنیاد بنا کر 51 حلقوں کے نتائج کالعدم ہو سکتے ہیں کیونکہ این۔اے 125 میں مصدقہ نتائج میں فارم xiv کی غیر موجودگی الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کی بنیاد بنی، جب کہ این اے 125 کے کئی پولنگ سٹیشن کے فارم xiv اور فارم xv ہی غائب تھے۔ الیکشن کمیشن تقریباً 51 حلقوں کے ریٹرننگ افسران سے مطلوبہ فارم حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ فارم xiv کی بنیاد پر فارم xvi میں پولنگ سٹیشن وار انتخابی نتائج تیار کرتا ہے اور فارم xvi پر ریٹرننگ افسران کے دستخط اور کوڈنمبر ہوتے ہیں۔ ان فارموں کی وصولی کے بعد الیکشن کمیشن کامیاب امیدواروں کے لئے سرکاری گزٹ نوٹیفیکیشن جاری کرتا ہے جبکہ فارم xv میں بیلٹ پیپرز اور دیگر پولنگ میں استعمال ہونے والے میٹریل کی تفصیلات ہوتی ہیں۔ شنید ہے کہ الیکشن کمیشن کے ریکارڈ میں قومی اسمبلی کے 51 حلقوں کے انتخابی فارمز موجود ہی نہیں ہیں کیونکہ متعلقہ حلقوں کے ریٹرننگ افسران نے پولنگ سٹیشن کے مصدقہ نتائج الیکشن کمیشن کو بھجوائے ہی نہیں تھے اور فارم xiv کی عدم دستیابی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے 32 ‘ جے یو آئی کے 6 ، پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف، اور ایم کیو ایم کے تین تین ارکان کے حلقوں کے فارم xiv غائب ہیں ۔ مذکورہ حلقوں میں پنجاب کے 36‘ سندھ کے سات، بلوچستان اور خیبر پختون خواکے تین تین حلقے شامل ہیں، اب اگر جوڈیشل کمیشن فارم xiv کا مکمل ریکارڈ طلب کرتا ہے اور عدم دستیابی کی صورت میں جوڈیشل کمیشن ریٹرننگ افسران سے وضاحت طلب کر سکتا ہے کہ فارم xiv کی عدم دستیابی کے باوجود فارم xviاور فارم xvکن بنیادوں پر مرتب کئے گئے تو تسلی بخش جواب نہ ملنے کی صورت میں 51 ارکان اسمبلی کی رکنیت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں