"KDC" (space) message & send to 7575

جوڈیشل کمیشن‘ ایوان اقتدار میں خوف کی لہر

الیکشن 2013ء پاکستان کی تاریخ کے بد ترین انتخابات تھے جو بین الاقوامی ایجنڈے کے تحت کروائے گئے تھے اور چیف الیکشن کمشنر اپنے فرائض کو پورا کرنے میں ناکام رہے۔ ایسی انتخابی اصلاحات لائی جا ئیں جو کسی مخصوص گروہ، جماعت یا سیاسی سوچ رکھنے والوں کے مفادات کا تحفظ کرنے کی بجائے ملکی مفادات کا تحفظ کریں۔
جوڈیشل کمیشن کی کارروائی نے ایوانِ اقتدار میں خوف کی لہر پیدا کر دی ہے۔ 38 روز کی کارروائی کے بعد جوڈیشل کمیشن نے اپنی سمت کا تعین کر لیا ہے۔ عدالتی کمیشن مقررہ مدت میں کارروائی مکمل کرنے کا خواہاں ہے۔ عدالتی کمیشن بظاہر صدارتی آرڈیننس کے مطابق اپنی میعاد پوری کر چکا ہے؛ تا ہم اگر وہ محسوس کرے کہ اس کو اپنے کام کی تکمیل کے لئے مزید وقت درکار ہے تو وہ اس دئیے گئے وقت سے آگے جا سکتا ہے۔ اگر 16اپریل کو پہلے اجلاس سے کمیشن کی مدت شمار کی جائے تو وہ 31 مئی کو پوری ہو جائے گی۔ 11 مئی2013ء کے قومی انتخابات میں منظم دھاندلی کے سنگین الزامات کی تحقیقات کی روزانہ سماعت ہو رہی ہے؛ اس لئے محسوس ہو رہا ہے کہ کمیشن طے شدہ مدت میں اپنی کارروائی مکمل کر لے گا۔ اس کو کارروائی آگے بڑھانے میں کوئی آئینی رکاوٹ بھی درپیش نہیں ہے۔ گزشتہ چند روز سے روزانہ کی بنیاد پر کمیشن کی کارروائی نے واضح کر دیا ہے کہ معاملہ حساس سمت میں داخل ہو چکا ہے۔ تحریک انصاف اور دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے عدالتی کمیشن میں دستاویزی ثبوت فراہم کرنے کے بعد گواہوں پر جرح کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ پنجاب کے الیکشن کمشنر محبوب انور پر طویل جرح ہوئی جس میں کئی روز لگے۔ نگران حکومت کے سابق چیف سیکرٹری جاوید اقبال اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری راؤ افتخار کے حوالے سے سرگوشیاں ہو رہی تھیں کہ وہ متضاد بیان دے کر نجم سیٹھی کے لئے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں، مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ عدالتی کمیشن میں محبوب انور کے بیانات میں تضادات سے کیس نیا رُخ اختیار کر سکتا ہے کیونکہ سماعت کے دوران کمیشن کو بتایا گیا کہ انہوں نے اضافی بیلٹ پیپر نہیں چھپوائے مگر اگلے ہی دن الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کی جانب سے فراہم کردہ بیشتر دستاویزات کو درست قرار دے دیا جن میں شواہد بھی فراہم کیے گئے ہیں کہ ملک کے بعض حلقوں میں اضافی بیلٹ پیپرزچھاپے گئے ہیں جس کی الیکشن کمیشن اور حکمران جماعت ایک عرصے سے تردید کرتی آرہی تھی۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے اضافی بیلٹ پیپرز کی چھپائی کے باضابطہ اعتراف کے بعد صورت حال مختلف ہو سکتی ہے مگر حتمی فیصلہ عدالتی کمشن نے ہی کرنا ہے۔ در اصل محبوب انور بیلٹ پیپرز کی اشاعت میں کنفیوژن کا شکار ہو گئے۔ بیلٹ پیپرز الیکشن کمیشن کے بجٹ ونگ کے الیکشن پلان کی پالیسی کے مطابق 1970ء سے شائع ہوتے آ رہے ہیں اور الیکشن پلان کی منظوری چیف الیکشن کمشنر ہی دیتے ہیں اور اسی الیکشن پلان کے تحت ریٹرننگ افسران اپنی اپنی پولنگ سکیم‘ جس میں ہر حلقہ کے پولنگ سٹیشنوں کی ضروریات کو مد نظر رکھا جاتا ہے‘ صوبائی الیکشن کمشنر کو بھجواتے ہیں اور صوبائی الیکشن کمشنر سیکریٹریٹ کے سینئر افسران اس کا باقاعدہ چارٹ تیار کروا کے پرنٹنگ پریس کو بھجوا دیتے ہیں اور اس کی ایک کاپی چیف الیکشن کمشنر کو برائے ملاحظہ بھجوائی جاتی ہے۔ اگر دوبارہ بیلٹ پیپرز کسی تکنیکی خرابی کی وجہ سے شائع کیے جائیں یا Symbol غلط پرنٹ ہو جائیں تو اس حلقے کے تمام بیلٹ پیپرز از سر نو شائع کئے جاتے ہیں لیکن اس کی منظوری چیف الیکشن کمشنر سے لازمی لی جاتی ہے اور مسترد شدہ بیلٹ پیپرز سیل کر کے پرنٹنگ پریس کے جنرل منیجر کی تحویل میں دیے جاتے ہیں اور یہ عمل وہاں پر موجود آرمی آفیسر کے نوٹس میں لایا جاتا ہے۔11 مئی 2013ء کے انتخابات میں بیلٹ پیپرز کی اشاعت میں صوبائی الیکشن کمشنر الیکشن کمیشن کو اعتماد میں لئے بغیر براہ راست احکامات جاری کر رہے تھے۔ ایسا ممکن نہیں ہے۔ دراصل محبوب انور سینئر ترین جہاندیدہ وکلاء کے پینل کے سامنے سرنگوں ہو گئے۔ ویسے انتظامی طور پر محبوب انور با صلاحیت افسر ہیں‘ مگر بدقسمتی سے الیکشن کمیشن کے وکلا ء بھی ان کی معاونت کے لئے آگے نہیں بڑھے۔ اضافی بیلٹ پیپرز کی اشاعت کے لئے باقاعدہ طریقہ کار ہے اور الیکشن کمیشن اس کے مطابق ہی آگے بڑھتا ہے۔
الیکشن کمیشن اور دیگر متعلقہ افراد کو مسلسل اس کی نفی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ اگر محبوب انور الیکشن کمیشن کی رپورٹ جو 2008ء کے انتخابات کے بعد سے شائع ہوتی ہے، میں بیلٹ پیپرز کی اشاعت کا باب ہی پڑھ کر آتے تو وہ با آسانی عدالتی کمیشن کو اپنا نقطہ نگاہ پیش کر دیتے اور ایسی صورت حال پیدا نہ ہوتی جس سے شکوک و شبہات جنم لیتے۔ منظم دھاندلی کے حوالے سے عدالتی کمیشن جس سرعت کے ساتھ روزانہ کی بنیادوں پر کیس کی سماعت کر رہا ہے اس سے قوم توقع کر رہی ہے کہ کم از کم آئندہ الیکشن کے حوالے سے نئے قواعد و ضوابط طے کر دیئے جائیں گے اور قومی انتخابات 2013ء میں جو انتخابی خامیاں اداروں کی سطح پر نظر آئیں وہ آئندہ نہیں دہرائی جائیں گی۔
عدالتی کمیشن میں 21 جماعتوں نے شکایات جمع کرائی ہیں تو چوہدری شجاعت کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف کی 11 مئی 2013ء کی رات 1 بجکر بیس منٹ کی وکٹری تقریر کو بھی زیر بحث لانے کے لئے اپنے وکلاء کو آگے بڑھانا چاہیے کیونکہ بطور صدر پاکستان مسلم لیگ (ن) ان کا خطاب عوامی نمائندگی ایکٹ کی شق 84 کی صریحاً خلاف ورزی تھا۔ اس شق کے تحت نواز شریف کو بطور صدر پاکستان مسلم لیگ (ن) وکٹری تقریر میں دو تہائی اکثریت کی خواہش ظاہر نہیں کرنی چاہئے تھی۔ راقم نے اسی وقت جب محترم نواز شریف نے تقریر ختم کی تو سی این بی ٹیلی وژن چینل کے ذریعے خبردار کر دیا تھا کہ الیکشن کمیشن کو ان کی تقریر کا نوٹس لینا چاہیے۔ اگر انڈیا میں وکٹری تقریر کی جاتی تو انڈین الیکشن کمیشن ان کو نا اہل قرار دے کر سزا بھی سنا دیتا۔ عوام کی رہنمائی کے لئے میں اس شق کو یہاں پیش کر رہا ہوں‘ جسے پڑھنے کے بعد آپ بخوبی اس نتیجہ پر پہنچ جائیں گے کہ میاں نواز شریف کے نادان دوستوں نے حقائق کو جانے بغیر ان سے تقریر کروا دی۔ سینیٹر پرویز رشید بڑی سادگی سے یہ ذمہ داری اپنے اوپر لے چکے ہیں۔ ان کے فرمودات میں سے ایک فرمان یہ تھا کہ انہوں نے وکٹری تقریر کروائی تھی۔ شق 84 ملاحظہ فرمائیں:
84. Prohibition of public meetings, etc., during certain period.-
(1) No person shall convene, hold or attend any public meeting, and no person shall promote or join in any procession, within the area of any constituency during a period of forty-eight hours ending at midnight following the conclusion of the poll for any election in that constituency.
(2) Any person who contravenes the provisions of sub-section (1) shall be punishable with rigorous imprisonment for a term which may extend to six months, or with fine which may extend to one thousand rupees, or with both.
خواجہ سعد رفیق کے الیکشن کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کو سپریم کورٹ نے معطل کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ کی اس پر شکوہ عمار ت کے معزز ججز نے یہ فیصلہ سنایا جس میں قومی انتخابات میں منظم دھاندلی کی تحقیقات کے حوالے سے عدالتی کمیشن تاریخی سماعت کر رہا ہے لیکن خواجہ سعد رفیق کے بارے میں عبوری فیصلہ اس بات کا عملی اشارہ ہے کہ پاکستان میں اعلیٰ عدلیہ ایک مضبوط ادارے کی حیثیت سے کام کر رہی ہے۔ ایک طرف پورے ملک کی نظریں عدالتی کمیشن پر مرکوز ہیں تو وزیر اعظم نواز شریف تعمیری پروجیکٹوں کا افتتاح اس انداز میں کر رہے ہیں جس طرح انہوں نے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کے متوقع فیصلے کے خوف سے 27 نومبر 1997ء کو عجلت میں نیم پختہ موٹروے کا افتتاح کر دیا تھا۔ وہ گرین لائن ٹرین ، بہاولپور میں توانائی کے منصوبوں اور میٹروبس اسلام آباد کے مکمل ہونے والے منصوبوں کے افتتاح کر رہے ہیں اور ان کی اندرونی کیفیت یہی ہے کہ پاکستان میں کسی بھی صورت ان حالات میں نظام کی تبدیلی دانشمندانہ اقدام نہیں ہو گی اور ان کا مطمح نظر یہی ہے کہ وہ پاک چائنہ اقتصادی راہداری کا آغاز کرنے والے ہیں؛ لہٰذا حالیہ سیاسی، عسکری اور عدالتی عمائدین کو 11 مئی 2013 ء کے قومی انتخابات کے تنازعہ کو نظر انداز کرکے ملکی مفاد کے لیے متحد ہو کر چلنا چاہیے۔ حالانکہ ملک کے اقتصادی منصوبے آنے والی حکومتیں بھی جاری رکھیں گی اور بہتر انداز میں ان منصوبوں کو کرپشن سے پاک کر کے ملک کے بہتر مفاد میں فیصلے ہوں گے۔ دھاندلی زدہ اور بد عنوانی پر مبنی نظام میں ایسے پروجیکٹ پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ عدالتی کمیشن کو اپنے فیصلے کرنے دیں، اور عسکری قیادت بھی امن کے منصوبوں کے لئے کام کرتی رہے۔
نواز شریف کی اس حکمت عملی پر تنقید سے متعلق میرے کالم ریکارڈ میں موجود ہیں۔ میں نے چیف الیکشن کمشنر کی توجہ اسی شق کی طرف مبذول کراتے ہوئے ان کو الیکشن کمیشن میں طلب کرنے کی تجویز دی تھی۔ پاکستان کے معروضی حالات میں سول ملٹری ہم آہنگی کا شدید فقدان ہے۔ وزیر اعظم کے ذاتی خیالات بھی سابق صدر زرداری کے مشورے سے کچھ اور ہیں اور ان کی کابینہ کے وزراء بھی خلوتوں میں کچھ اور اشارے کر رہے ہوتے ہیں اور ایک خاص جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ ہماری راہ میں رکاوٹیں ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں