"KDC" (space) message & send to 7575

انتخابی نظام میں اصلاحات کی ضرورت

ہمارا انتخابی نظام، سول سرونٹس سسٹم اور جمہوریت چند افراد کے ہاتھوں یرغمال بن چکی ہے۔ انہیں جتنا جلد ممکن ہو ان قوتوں سے نجات دلائی جائے۔ انہی حالات کے تناظر میں چند روز پیشتر ایک عدالتی فیصلہ سامنے آیا جس پر اس کی روح کے مطابق عمل در آمد ماتحت عدالتوں اور سول سروس کے لئے غیر منصفانہ دباؤ سے آزاد ہو کر انصاف کے تقاضوں کے مطابق کام کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ نے سول سرونٹس کو کسی نوٹس کے بغیر ملازمت سے بر طرف کرنے کے قانون کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کالعدم کر دیا ہے۔ سول سرونٹس ایکٹ مجریہ 1974ء کی شق دس کے تحت کسی بھی سول سرونٹ کی ملازمت بغیر نوٹس دیئے ختم کی جاسکتی تھی جسے فاضل عدالت نے آئین پاکستان کے آرٹیکل دس۔اے کے منافی قرار دے دیا۔ آرٹیکل 10-11 کے تحت کسی بھی فرد کو کرمنل چارج کی صورت میں آزادانہ سماعت اور ضابطے کی کارروائی کا حق دیا جانا چاہئے۔ فاضل عدالت کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 10-A کے تحت حق سماعت دیئے بغیر کسی کو ملازمت سے کیسے فارغ کیا جا سکتا ہے۔ مذ کورہ ریمارکس ایک سابق جج کی پیٹیشن منظور کرتے اور سات سابق ججوں کی بر طرفی کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے سامنے آئے۔ اس بارے میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ برصغیر پر برطانوی راج کے دور میں بیوروکریسی اور ماتحت عدالتوں کا جو ڈھانچہ بنایا گیا، اس کے تحت سول سرونٹس اور ججوں کو ملازمتوں میں ایسا تحفظ حاصل تھا کہ وہ کسی خوف اور دباؤ کے بغیر قواعد و ضوابط پر ان کی روح کے مطابق آزادی سے عمل کر سکتے تھے۔ برطانوی حکومت کا دور سیاسی طور پر بہت ظالمانہ تھا مگر انتظامی طور پر برصغیر کے عوام کے لئے نجات دہندہ تھا، امیرعلی ٹھگ کے ٹولے کو ختم کرنا ہی برٹش حکومت کا بہت بڑا کارنامہ تھا۔ امیر علی ٹھگ 30 برسوں سے ہندوستان کے عوام کو تگنی کا ناچ نچا رہا تھا۔ برطانوی حکومت نے امیر علی ٹھگ سمیت تمام گروپس کو سزائے موت دلوائی اور ان ٹھگوں کا ہندوستان سے صفایا کر دیا تھا۔ آزادی کے بعد ہمیں عدالتی ڈھانچے، بیوروکریسی کا نظام ، سڑکوں کے جال، ریلوے لائن اور نہروں کے مثالی نظام سمیت جو چیز یں ورثے میں ملیں، انہیں آزاد مملکت کے تقاضوں کے مطابق مزید بہتر بنانے کے بجائے، اس بری طرح بگاڑا گیا کہ اب اصلاح احوال کے لئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ حکمران طبقوں، برسر اقتدار گروہوں اور وسائل پر قابض سیاسی جماعتوں کی موروثی اشرافیہ کی بے لگام خواہشات کے ہاتھوں تباہ ہونے والی چیزوں میں بیورو کریسی اور ماتحت عدالتوں کا ڈھانچہ بھی شامل ہے۔ سول سرونٹس کے قواعد و ضوابط کے مطابق منصفانہ فیصلوں کی راہیں مقررہ مدت سے پہلے تبادلوں اور وجہ بتائے بغیر ملازمت کے خاتمے جیسے دباؤ کے مکروہ عزائم کے ذریعے مسدود کر دی گئی ہیں۔ آج ہم ما تحت عدالتوں سمیت بہت سے اداروں اور محکموں میں قواعد و ضوابط کے ساتھ مذاق اور عوام کو پریشان کرنے کے جن واقعات کا مشاہدہ کر رہے ہیں، اسے اسی دباؤ کا نتیجہ اور اس کی توسیع شدہ کیفیت کہا جا سکتا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کا جو فیصلہ آیا ہے اس سے کسی سرکاری ملازم کو قواعد و ضوابط کے مطابق وجہ بتائے اور اس کا نقطہ نظر سنے بغیر فارغ کرنے کی گنجائش بظاہر ختم ہو گئی ہے جیسا کہ فاضل عدالت نے بھی اپنے ریمارکس میں اشارہ دیا ہے۔
کتنی ستم ظریفی ہے کہ شہریوں کے مسائل سن کر فیصلے کرنے والے سول سرونٹس، جن میں ماتحت عدالتوں کے جج بھی شامل ہیں، بغیر غلطیوں سے آگاہ کئے فارغ کر دیئے جاتے ہیں اور وہ اپنے اہل خانہ کو یہ بتانے سے بھی قاصر رہتے ہیں کہ انہیں کس بنیاد پر بر طرف کیا گیا ہے۔ اب اس بارے میں دور رس نتائج کا حامل فیصلہ آیا ہے تو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے 31 جولائی 2009ء کے فیصلے پر بھی نظر ثانی کرنی چاہئے جب موصوف نے آئین کے آرٹیکل 209 سے انحراف کرتے ہوئے تقریباً ایک سو بیس کے لگ بھگ ہائی کورٹس کے ججوں سمیت سپریم کورٹ کے اعلیٰ ترین ججوں کو برطرف کر دیا تھا۔ سابق چیف جسٹس نے بھی ان معزز ججوں کو سنے بغیر، انتقامی جذبے کی بھینٹ چڑھا دیا تھا۔ اسی طرح ماتحت عدالتوں کے فاضل افسران کی کارکردگی 11 مئی 2013ء کے انتخابات میں سامنے آئی جب انہوں نے بطور ریٹرننگ افسران قوم کے اعتماد کو مجروح کیا اور الیکشن کے انعقاد میں ان کی عدم توجہی اور ایک مخصوص سیاسی پارٹی کی طرف ان کا جھکاؤ دیکھنے میں آیا۔ انہی ریٹرننگ افسر کی سنگین غلطیوں کی وجہ سے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کرنا پڑی اور تقریباً سبھی سیاسی پارٹیوں نے ان انتخابات کو منصفانہ تسلیم نہیں کیا، ان عدالتی افسران کو کسی فرد واحد یا گروہ کی مرضی کا تابع ہونے کی بجائے مملکت پاکستان کے مفادات اور اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق درست فیصلے کرنے چاہئیں تھے۔ اب بھی وقت ہے کہ وہ تمام ریٹرننگ افسران جنہوں نے انتخابات میں تغافل برتا ہے، ضمیر کی آواز پر جوڈیشل کمیشن میں پیش ہو کر حقائق بیان کریں۔ کیونکہ حلقہ 125کے الیکشن ٹربیونل کے فاضل جج نے اپنے 80 صفحات پر مشتمل مفصل فیصلے میں ریٹرننگ افسران کی غفلت کو دوبارہ انتخابات کرانے کی بنیادی وجہ قرار دیا ہے۔ انتخابات میں بد انتظامی اور افراتفری کا ذمہ دار ریٹرننگ افسر کو ہی ٹھہرایا جا تا ہے۔ ان حالات میں انتخابی اصلاحات کے لئے ایک مستقل ادارہ 'انتخابی اصلاحات کمیشن‘ بنایا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن سیاسی اور مذ ہبی جماعتوں کی مشاورت سے ان جماعتوں کے لئے قواعد و ضوابط مرتب کرے تاکہ انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتیں انتخابی عمل سے ہم آہنگ ہو سکیں۔ درست انتخابی فہرستوں کی تیاری، نئے ووٹرز کا اندراج، پولنگ سٹیشنوں کی تفصیلات، پولنگ عملے کی ذمہ داریاں اور انتخابی حکمت عملی سے متعلقہ تمام معلومات اور قوانین سال بھر الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر دستیاب ہونے چاہئیں۔ الیکٹرانک پولنگ کا نظام بھارت سے بہتر انداز میں متعارف کروانا بھی مشکل نہیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ کے نظام سے انتظامی اخراجات میں کمی اور دھاندلی کی روک تھام میں مدد مل سکتی ہے بشرطیکہ انتخابات فوج کی نگرانی میں کروائے جائیں، پولنگ کے اندر اور باہر فوج تعینات کی جائے، ایک دن کی بجائے چار دن تک پولنگ کا سسٹم رائج کیا جائے اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات علیحدہ علیحدہ تاریخوں اور مناسب وقفے کے ساتھ کروانے کا اہتمام کیا جائے۔ 3 فروری 1997ء کے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن کرانے کا ایگزیکٹو آرڈر سابق صدر سردار فاروق خان لغاری نے پیپلز پارٹی کو زک پہنچانے کے لئے جاری کیا تھا اور یہ آرڈر بدنیتی پر مشتمل تھا۔ اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر سردار فخر عالم مرحوم نے اس کی شدید مخالفت کی تھی لیکن مرحوم ملک معراج خالداور ان کی کابینہ نے ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت ایک ہی دن میں قومی انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا تھا۔
پولنگ کو ایک دن تک محدود رکھنے کے بجائے کچھ دنوں تک پھیلانے سے ووٹوں کی شرح بڑھ سکتی ہے۔ جعلی ووٹوں کا اندراج سنگین قومی جرم قرار دینے کے لیے قوانین مرتب کئے جائیں۔ الیکشن کمیشن کو سیاست سے الگ کر کے ایک بہت قابل اعتماد اور بااختیار ادارہ بنانے کی ضرورت ہے۔ اصلاحات کبھی آسان نہیں ہوتیں، راقم الحروف نے 11 مارچ 2009ء کو بطور وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن و چیئرمین انتخابی اصلاحات کمیشن متعدد بار اصلاحات پر مبنی جامع رپورٹس وفاقی حکومت کو بھجوائی تھیں، اپنی ریٹائرمنٹ سے اب تک انتخابی اصلاحات پر سینکڑوں کالم بھی قومی اخبارات میں لکھ چکا ہوں، الیکٹرانک میڈیا پر بھی انتخابی اصلاحات پر جامع تجاویز پیش کر چکا ہوں اور حال ہی میںتشکیل پانے والی انتخابی اصلاحات کمیٹی کے چیئر مین اسحاق ڈار کو بھی انتخابی اصلاحات پر تجاویز بھجوا چکا ہوں۔ ہماری رائے یہ بھی ہے کہ افراد کی بجائے جماعتیں الیکشن لڑیں اور انتخابی نتائج کے بعد موزوں امیدواروں کو منتخب کیا جائے نہ کہ ایک ایک ٹکٹ کے لئے پارٹی فنڈز میں کروڑوں روپے ڈلوائے جائیں۔ سیاسی جماعتوں میں قومی، صوبائی اور علاقائی جماعتوں کی حیثیت کا تعین کیا جائے۔ کسی شہر یا قصبے کی مقامی این جی او کی رجسٹریشن کے لئے تو قواعد و ضوابط موجود ہیں لیکن اکتوبر 1988ء میںبے نظیر بھٹو کی درخواست پر سپریم کورٹ کے فل کورٹ نے چیف جسٹس (ر) حلیم صدیقی کی سربراہی میں سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی رجسٹریشن منسوخ کر دی تھی اور سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دے دیا تھا، لہٰذا جون 2002ء میں صدر پرویز مشرف نے پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 62 کو کالعدم قرار دے دیا اور پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء کے تحت الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن کے بجائے انہیں بطور ریکارڈ لسٹ کر لیا تھا‘ جو برائے نام رجسٹریشن کے زمرے میں آتا ہے۔ الیکشن کمشن کو انتخابی اصلاحات کمیٹی کو ریفر کرنا چاہیے کہ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 62 کو بحال کرکے انڈین الیکشن کمیشن کی طرز پر پارٹیوں کی رجسٹریشن کی جائے اور خلاف آئین کام کرنے والی سیاسی و مذہبی جماعتوں کی رجسٹریشن منسوخ کرنے کے بھی اختیارات تفویض کئے جائیں۔ قابل قبول انتخابی اصلاحات کا تجربہ بلدیاتی الیکشن میں چھوٹے انتظامی یونٹس کی سطح پر کیا جا سکتا ہے تاکہ ان پر عمل در آمد میں حائل مشکلات کو قومی و صوبائی الیکشن سے پہلے دور کر دیا جائے اور ایسا پُراعتماد نظام رائج کیا جائے کہ تمام سیاسی جماعتوں کا الیکشن کمیشن پر اعتماد بر قرار رہے۔ چیف الیکشن کمشنر اور ارکان الیکشن کمیشن کو وزیر اعظم اور صدر مملکت سے بغیر کسی سرکاری ایجنڈے کے ملاقات سے بھی گریز کرنا چاہئے اور صدر یا وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد باہمی مشاوت سے پریس ریلیز جاری کیا جائے جس طرح آئی ایس پی آر کا طریقہ کار ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں