"KDC" (space) message & send to 7575

پوسٹل پرنٹنگ پریس سے بیلٹ پیپرز کی چھپائی

خیبر پختون خوا میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کا انعقاد ایک ایسے آئینی اور جمہوری تقاضے کی تکمیل ہے جو گذشتہ چھ سالوں سے واجب الادا تھا، اس بناء پر ان انتخابات کا انعقادبہرصورت اطمینان بخش ہے۔ انتخابی جنگ میں تحریک انصاف کو برتری حاصل رہی۔ منتخب بلدیاتی نظام شہریوں کے بیشتر روزمرہ مسائل کے حل اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے تما م ترقی یافتہ ملکوں میں مقامی حکومتوں کو وسیع اختیارات حاصل ہوتے ہیں اور یہ نظام کبھی تعطل کا شکار نہیں ہوتا؛ تاہم پاکستان میں منتخب سیاسی حکومتیں بالعموم مقامی انتخابات سے گریزاں رہتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ جو انتخابات اگست 2009ء میں ہونے تھے وہ اب 2015ء میں ہو رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے مارچ 2015 ء میں بلدیاتی انتخابات کی حتمی تاریخوں کے تعین کا قطعی حکم الیکشن کمیشن کو دیا تھا جس کے بعد خیبر پختون خوا میں 30 مئی اور پنجاب اور سند ھ میں 24 ستمبر میں مقامی انتخابات کے شیڈول کا اعلان کیا گیا۔ بہرحال اب دونوں صوبوں میں بھی مقامی انتخابات کے انعقاد کے بعد پورے ملک میں مقامی حکومتیں قائم ہو جائیں گی۔ مارچ 2015 ء میں حتمی حکم جاری کرنے سے پہلے سپریم کورٹ نے بارہا صوبوں اور الیکشن کمیشن کو مقامی انتخابات کرانے کی ہدایت کی مگر ضروری تیاری کے لئے مزید مہلت طلب کی جاتی رہی۔ اسی بناء پر توقع تھی کہ خیبر پختون خوا میں ہونے والے مقامی الیکشن ملک میں اب تک ہونے والے تمام چھوٹے بڑے انتخابات کے مقابلے میں زیادہ منصفانہ اور انتظامات کے اعتبار سے بہتر ہوں گے لیکن یہ خوش گمانی پوری نہیں ہوئی، تاہم اب تین ماہ بعد پنجاب اور سندھ میں ہونے والے مقامی انتخابات کو ان نقائص اور بے قاعدگیوں سے پاک رکھنے کی کوششوں میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہیے جو صوبہ خیبر پختون خوا میں سامنے آئی ہیں، نیز وفاق اور صوبوں کی طرف سے مقامی حکومتوں کو وہ تمام اختیارات کھلے دل سے فراہم کئے جانے چاہئیں جو آئین میں ان کے لئے مختص کئے گئے ہیں بلکہ ترقی یافتہ ملکوں کی طرح ان اختیارات میں مزید اضافہ کیا جانا چاہیے کیونکہ اختیارات کی یہ تقسیم عوام کو اپنے مسائل خود حل کرنے کے مواقع فراہم کرتی ہے جس کے نتیجے میں ملک کو امن و استحکام حاصل ہوتا ہے اور قومی ترقی کی راہیں کشادہ ہوتی ہیں۔
پنجاب اور سندھ کی حکومتوں سے بلوچستان اور خیبر پختون خوا کی حکومتیں زیادہ جمہوریت پسند ثابت ہوتی ہیں۔ بلوچستان کو اس حوالے سے سر فہرست قرار دیا جا سکتا ہے کہ بلوچستان کے لوکل گورنمنٹ کے الیکشن سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنی مجوزہ ریٹائرمنٹ 12 دسمبر 2013ء سے پیشتر 7 دسمبر 2013ء کو کرانے کا حکم دیا تھا؛ لہٰذا بلوچستان میں جو لوکل گورنمنٹ الیکشن کرائے گئے اس کا کریڈٹ سابق چیف جسٹس کو ہی جانا چاہیے۔ چیف جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری کی خواہش تھی کہ ان کی ریٹائرمنٹ سے قبل باقی تینوں صوبوں میں بھی لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کرا دیے جائیں لیکن پنجاب اور سندھ کی حکومتیں تاخیری حربوں سے کام لیتی رہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان کے بلدیاتی ادارے برائے نام ہیں اور خیبر پختون خوا میں جو نظام بنایا گیا ہے وہ کچھ حوالوں سے دیگر صوبوں سے بہتر ضرور ہے جبکہ پنجاب اور سندھ کے لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں یہ ادارے صوبائی حکومتوں کے مہرے کا ہی کردار ادا کرتے رہیں گے۔ دو صوبوں میں جو نظام مرتب کیا گیا ہے وہ آئین کے آرٹیکل 142-A سے مطابقت نہیں رکھتا اور عوام کا جو مینڈیٹ لیا جا رہا ہے وہ مقامی حکومتوں کا نہیں بلکہ بے اختیار قسم کی مشاورتی کونسلوں کا نظام ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف نے لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2001ء میں عوام کو نچلی سطح تک اختیارات تفویض کر دیے تھے اور پولیس اور ریونیو کے اہم محکمے لوکل یونین کونسل کے حوالے کر دیے تھے۔ پولیس یونین کونسل کی سطح پر آن کھڑی ہوئی تھی اور پٹواری اور محکمہ مال کے افسران یونین کونسلوں کی دہلیز پر کھڑے نظر آ رہے تھے۔ یہ عجیب و غریب قسم کا مبہم نظام ہے۔ تینوں صوبوں میں انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعد اختیارات کی جنگ شروع ہو جائے گی اور ممکن ہے کہ پھر سیاسی نظام ہی لپیٹ میں آ جائے۔
الیکشن کمیشن نے خیبر پختون خوا کے حلقہ 95 لوئر دیر میں خواتین کو ووٹ دینے سے روکنے پر دوبارہ ضمنی الیکشن کرانے کا حکم دے دیا ہے۔ حلقہ میں خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکنے پر متعدد سیاسی جماعتوں نے احتجاج کیا تھا اور الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی تھی ، جس پر الیکشن کمیشن نے حلقہ میں دوبارہ الیکشن کرانے کا حکم دے کر خوش آئند قدم اٹھایا ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق اس حلقہ میں 53 ہزار خواتین میں سے کسی خاتون نے بھی ووٹ نہیں ڈالا۔ واضح رہے کہ عام انتخابات 11 مئی 2013ء میں صوبہ خیبر پختون خوا حلقہ 95 سے جماعت اسلامی کے سراج الحق رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ بعد ازاں ان کے سینیٹر منتخب ہونے کے بعد یہ نشست خالی ہو گئی تھی جس پر ضمنی انتخابات کرائے گئے، جن میں پھر جماعت اسلامی کا امیدوار کامیاب ہوا تھا۔
رسول اکرم ؐ جب صفا پر تشریف فرما تھے اور اسلام قبول کرنے والوں سے بیعت لے رہے تھے تو آپؐ نے پہلے مردوں سے اور پھر عورتوں سے بیعت لی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام میں عورت کی رائے کی کتنی اہمیت ہے ورنہ آپؐ عورتوں سے بیعت کیوں لیتے‘ وہ اپنے گھروں میں ہی رہتیں۔ لوئر دیر میں خواتین ووٹرز کو ووٹ نہ ڈالنے دینا‘ نبی کریمؐ کے اسوۂ حسنہ اور اتباعِ رسول ؐ سے رو گردانی کی 
مثال ہے اور اس کے لئے غلط تاویلیں پیش کی جا رہی ہیں، اسی لئے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) محمد رضا اور ان کے کمیشن کے ارکان نے حلقہ 95 کے الیکشن کو کالعدم قرار دے کر نئے سرے سے انتخابات کرانے کا حکم دیاہے۔الیکشن ٹربیونل نے حلقہ 125 قومی اسمبلی کے رکن خواجہ سعد رفیق کی قومی اسمبلی کی رکنیت اس لئے ختم کر دی تھی کہ ریٹرننگ آفیسر نے بے ضابطگیاں کی تھی، اسی لئے اپیل سپریم کورٹ میں زیر غور ہے اور اب پرنٹنگ پریس پاکستان کے منیجر نے جوڈیشل کمشن کے رو برو اعتراف کیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے پوسٹل پریس سے 41 لاکھ بیلٹ پیپرز چھپوائے جو بغیر نمبر اور بائنڈنگ کے تھے۔ اصولی طور پر الیکشن کمیشن کوپوسٹل پریس سے بیلٹ پیپرز چھپوانے سے پہلے کیبنٹ ڈویژن سے رائے حاصل کرنی چاہیے تھی کیونکہ پوسٹل پریس ایک پرائیویٹ پرنٹنگ پریس کی حیثیت کا حامل ہے۔ 2002ء کے قومی انتخابات کے انعقاد سے پیشتر الیکشن کمیشن نے پوسٹل پرنٹنگ پریس سے بیلٹ پیپر شائع کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا تھا لیکن پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان کے مینجنگ ڈائریکٹر اور جنرل منیجر ظفر احمد نے اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر، چیف جسٹس (ر) ارشاد حسن خان کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کیبنٹ ڈویژن کے احکامات پیش کئے تھے جس کے مطابق پوسٹل پرنٹنگ پریس پرائیویٹ پریس کے زمرے میں آتا ہے اور کیبنٹ ڈویژن کو الیکشن کمیشن کی رہنمائی کرنی چاہیے تھی۔ الیکشن کمیشن کے افسران کو جسٹس ارشاد حسن خان کے احکامات کو مد نظر رکھنا چاہیے تھا کیونکہ پوسٹل پرنٹنگ پریس پوسٹ آفس فاؤنڈیشن کا ایک غیر سرکاری ذیلی ادارہ ہے۔اب پوسٹل پرنٹنگ پریس سے بیلٹ پیپرز بغیر نمبر کے چھپوانے سے صورت حال بہت زیادہ مشکوک ہوتی جا رہی ہے۔ لگتا ہے کہ الیکشن میں بے قاعدگیاں 
ہوئی ہیں اور بعض ریٹرننگ افسران کا اس میں منظم کردار ہے۔ اب جوڈیشل کمیشن نے الیکشن کے بارے میں اہم فیصلہ کرنا ہے۔ عدالت عظمیٰ آئین کی محافظ ہے۔ سیاستدان اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر جو ترامیم کرتے رہتے ہیں‘ ان سے 1973ء کا آئین اصل صورت سے محروم ہو چکا ہے اور حال ہی میں معزز جج سپریم کورٹ، جسٹس ثاقب نثار اور ان کے ساتھی معزز ججوں نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے آئین کا بنیادی ڈھانچہ ہی نہیں ہے۔ بادی النظر میں دیباچہ کو آئینی ڈھانچہ نہیں کہا جا سکتا۔ بھارتی آئین میں آئین کے ڈھانچہ کی بڑی اہمیت ہے اور وہی آئین کی روح ہے۔ بھارتی آئین کے ڈھانچہ میں پارلیمنٹ ترمیم نہیں کر سکتی۔ ترمیم کرنے سے پہلے پارلیمنٹ کو تحلیل کرکے آئین ساز اسمبلی کے لئے انتخابات کرانا ہوں گے۔ پاکستان کے سیاستدانوں اور ارکان پارلیمنٹ نے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے آئین کے بنیادی خدوخال کو ہی تبدیل کر دیا اور تقریباً 120 سے زائد ترامیم بھی کرا دیں اور عوام کی رائے کے لئے ریفرنڈم تک نہیں کرایا گیا اور نہ ہی آئین میں ترامیم کے لئے آگاہی مہم شروع کرائی اور بے خبری اور لا علمی میں آئین کو یکسر تبدیل کرکے نشان امتیاز کے میڈل اپنے سینوں پر سجالئے، حالانکہ برطانیہ کی پارلیمنٹ نے انتخابی اصلاحات کے ضمن میں ووٹر کی عمر کم کرنے کی سفارش کی تو اس کو ریفرنڈم میں عوام نے مستردکر دیا۔ وہاں ایک معمولی سی ترمیم کے لئے بھی عوام کی رائے کو مقدم سمجھا گیا اور یہاں آٹھویں ترمیم، سترہویں ترمیم، اٹھارہویں ترمیم‘ انیسویں اور بیسویں ترامیم میں عوام کی رائے حاصل کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی، اسی لئے عوام آئین کی قدرو منزلت اور پاسداری نہیں کرتے۔اعلیٰ عدالتیں کسی بھی ملک میں انتظامیہ کو آئین میں طے کردہ حدود سے آگے جانے سے روک سکتی ہیں۔ اگر ملک میں آئین کی بالادستی قائم ہو جائے تو ملک میں صاف شفاف انتخابات کے ذریعے تبدیلی لائی جا سکتی ہے اور خاندانی سیاست کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں