"KDC" (space) message & send to 7575

خیبر پختونخوا میں از سر نو انتخابات کا معاملہ

اٹھارہویں ترمیم کے بعد آئین کے آرٹیکل 63-A کی رُو سے پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں کے سربراہان اگر پارلیمنٹ کے رکن نہ ہوں تو بھی وہ اپنے ارکان کو باہر بیٹھ کر کنٹرول کر سکتے ہیں۔ اس ترمیم کے ذریعے سابق صدر آصف علی زرداری ایک ایسی پارٹی کے شریک چیئرمین ہیں جن کی پارلیمنٹ میں نمائندگی نہیں ہے کیونکہ مخدوم امین فہیم پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے سربراہ ہیں، لیکن ان کے اختیارات جناب آصف علی زرداری استعمال کر رہے ہیں۔ آئین کے آ رٹیکل 63-Aکے تحت کوئی بھی نابالغ کسی بھی سیاسی جماعت کو کنٹرول کر سکتا ہے۔ آرٹیکل 63-A قومی تعمیر نو کے چیئر مین جنرل تنویر حسین نقوی نے اپنے ہم خیال ججوں کی معاونت سے تیار کروایا تھا اور جب آئین میں ترامیم کا ڈرافٹ اخبارات کے ذریعے مشتہرکرایا گیا تو راقم نے جنرل نقوی کو خط کے ذریعے مطلع کیا تھا کہ اس طرح کی ترمیم سے ملک میں خاندان غلاماں کی حکومت قائم ہو جائے گی اور پارلیمنٹ کے وقار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ اسی ترمیم کے تحت جناب شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے رہے۔ انہوں نے پاکستان مسلم لیگ (ق) کے پچاس کے لگ بھگ ارکان صوبائی اسمبلی کو ہم خیال بنا کر یونی فیکیشن بلاک بنوایا اور ق لیگ کو مفلوج کر دیا تھا۔ پنجاب میں اس کے 186 ارکان صوبائی اسمبلی سمٹ کر محدود ہو گئے تھے۔ چودھری شجاعت حسین اپنی مفاہمت کی پالیسی کے تحت پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت میں شامل ہو گئے اور چودھری پرویز الٰہی برائے نام نائب وزیر اعظم کے پروٹوکول کے سہارے اپنی جماعت کو ادھر ادھر جانے سے بچانے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ آرٹیکل 63-A کو آئین میں شامل کرانے کے لیے بعض سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو باہر بھجوایا گیا تھا۔ در اصل میاں نواز شریف نے تیسری بار وزیر اعظم بننے کی آئینی شرط کالعدم کرانے کے لیے صوبہ سرحد کا نام تبدیل کیا اور اس صوبے کے سیاستدان‘ حکمران جماعت کے ہم نوا بنے؛ حالانکہ صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی کے بارے میں قائد اعظم کا مضبوط موقف تھا جسے میاں نواز شریف نے اپنے ذاتی مفادات کے لیے نظر اندازکر دیا۔ جب 1998ء میں خان ولی خان نے صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی کے لیے وزیر اعظم نواز شریف پر دباؤ ڈالا تو حکمران جماعت نے آئین میں ترمیم کرانے کی تجویز مسترد کر دی تھی جس پر عوامی نیشنل پارٹی حکومت سے علیحدہ ہو گئی تھی، لیکن اٹھارہویں ترمیم کرانے کے لیے ، اپنے ذاتی مفادات کے پیش نظر انہوں نے صوبہ خیبر پختونخوا کے حق میں اپنا وزن ڈال دیا۔ صوبہ خیبر پختونخوا نام میں کشش ہے اور یہ درست فیصلہ ہے، لیکن میاں نواز شریف کو1998ء میں اس نام کی مخالفت کرنے کا جواز بھی پیش کرنا چاہیے تھا۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ملک کی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو یہ کہہ کر حیرت زدہ کر دیا ہے کہ ان کی پارٹی خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات یا صوبائی اسمبلی کے انتخابات دوبارہ کرانے کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے فوج کی نگرانی میں صوبائی اسمبلی اور بلدیاتی انتخابات کرانے کی تجویز دی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار خان نے عمران خان کی تجویز کی تائید کر دی ہے جبکہ جماعت اسلامی ، جمعیت علمائے اسلام اور پاکستان مسلم لیگ (ن) پریشان ہیں اور اپنے ردعمل کا واضح اظہار نہیں کیا بلکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے تو بلدیاتی انتخابات دوبارہ کرانے کی تجویز مسترد کر دی ہے۔ عمران خان اگر بلدیاتی انتخابات میں گڑ بڑ اور بے ضابطگیوں کی بنیاد پر
دوبارہ انتخابات کراتے ہیں تو پھر اس فارمولے کے تحت پنجاب، سندھ اور وفاق میں بھی دوبارہ انتخابات کرانے پڑیں گے۔ اگر مئی 2013 ء کے انتخابات کی تحقیقات کرنے والا عدالتی کمیشن خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخاب دھاندلی یا بے ضابطگیوں کی بنیاد پر دوبارہ ہوتے ہوئے دیکھتا ہے تو ایسی صورت حال میں نئے عام انتخابات کے لیے ٹھوس جواز فراہم ہو جائے گا۔ لہٰذا عمران خان کو چاہیے کہ وہ عدالتی کمیشن میں اپنا موقف مضبوط کرنے کے لیے صوبہ خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کالعدم قرار دلوانے کے لیے صوبائی اسمبلی سے قرارداد منظور کرا لیں۔ عمران خان نے اس تناظر میں گہری سیاسی چال چلی ہے۔ جناب میاں نواز شریف کو اس پیش کش پر محتاط غورکرنا پڑے گا کیونکہ یہ واضح ہے کہ سپریم کورٹ کے عدالتی کمیشن کے رو برو پیش کیے جانے والے ثبوت شاید منظم دھاندلی کو ثابت نہ کر سکیں لیکن اس سے یہ ضرور ثابت ہو جائے گا کہ مئی 2013ء کے الیکشن خیبر پختونخوا کے حالیہ الیکشن سے بد تر تھے۔ سیاسی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو تحریک انصاف کے خلاف تمام مخالف سیاسی جماعتوں نے الیکشن میں دھاندلی کی وجہ سے احتجاج تو کیا لیکن ان جماعتوں کے اپنے امیدوار بھی
اس میں ملوث تھے۔ کچھ مزید سیاسی جماعتیں بھی احتجاج میں شامل ہو گئیں تو پھر انتخابی احتساب کرنا لازم ہو جائے گا۔ ان بے ضابطگیوں کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ نئے انتخابات کرانا پڑیں گے اور یہی فارمولا مئی 2013ء کے الیکشن پر بھی لاگو ہو گا جو وفاق اور دیگر صوبوں میں بیٹھی تمام حکومتوں کے لیے ایک خوفناک منظر پیش کرے گا۔ عمران خان کو یقین ہے کہ خیبر پختونخوا میں ان کی کامیابی کا تناسب اتنا زیادہ ہے کہ وہ کسی بھی وقت نئے الیکشن کروانے کی پوزیشن میں ہیں، چاہے یہ صوبائی سطح پر ہوں یا بلدیاتی سطح پر۔ اب اگر عمران خان بلدیاتی انتخابات میں اپنی موجودہ کامیابی سے دستبردار ہوجاتے ہیں، حتیٰ کہ صوبے میں اپنی حکومت کی قربانی بھی دے دیتے ہیں تو وہ ملک بھر میں نئے انتخابات کے لیے دباؤ ڈال سکیں گے اور یہ ان کی کامیابی کی کلید ہوگی۔ اگر عمران خان یہ اقدام کر گزریں اور انتہائی سرگرمی کے ساتھ نئے بلدیاتی انتخابات کا اعلان کردیں اور ساتھ ہی صوبائی حکومت بھی تحلیل کر دیں تو وہ 2015 ء میں ہی عام انتخابات کرانے سے متعلق اپنا خواب پورا کر سکتے ہیں۔ عظیم لیڈر کی پہچان ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ وقت پر صحیح سمت میں فیصلہ کرتا ہے۔ عمران خان کو چاہیے کہ وہ عدالتی فیصلے سے پیشتر ہی صوبہ خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کوکالعدم قرار دے کر اپنی صوبائی حکومت میں اہم تبدیلیاں لے لائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں