"KDC" (space) message & send to 7575

بلدیاتی انتخابات‘ الیکشن کمیشن کی وارننگ

عام آدمی کے لئے وہی بجٹ اچھا ہوتا ہے جو اس کی مشکلات بڑھانے کے بجائے کم کرے اور اس کے لئے زندگی کو آسان بنائے۔ مہنگائی نہ بڑھے، بے روز گاری ختم ہو، روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں، رشوت، سفارش، بے انصافی اور کرپشن کے کلچر سے نجات ملے، اس کے بچوں کے لئے معیاری تعلیم کے حصول میں حائل رکاوٹیں دور ہوں، اور انہیں اہلیت کی بنیاد پر آگے بڑھنے کے مواقع کسی روک ٹوک کے بغیر مہیا ہوں۔ اگر حکومت کی معاشی حکمت عملی ان تقاضوں کی تکمیل کر سکے تو عام آدمی کے لئے بجٹ یقینا باعث راحت ہوگا، ورنہ اسحاق ڈار کی الجھی ہوئی بجٹ تقریر کی کوئی حیثیت اس کی نگاہ میں نہیں ہوگی۔
اسحاق ڈار نے ارکان پارلیمنٹ کے لئے 30 کروڑ میں فیملی سوئٹس تعمیر کرانے کا بجٹ میں ذکر کیا اور ساتھ پینشنرز اور سرکاری ملازمین کو محض ساڑھے سات فیصد اضافہ دے کر عوام کی بد دعائیں لینے کا اہتمام کیا۔ وفاقی حکومت نے اپنی مراعات میں کوئی کمی نہیں کی۔ بجٹ میں ہم نے یہ کمال دیکھا کہ صوبہ خیبر پختون خوا کو ایک بڑی رعایت دی گئی تاکہ ان کا منہ بند کیا جا سکے۔ یہ ستم ظریفی نہیں تو کیا ہے کہ بزرگ پینشنروں کے لئے بہبود اسکیم میں شرح منافع نہ بڑھایا۔ سرمایہ کاری کی حد بڑھا دی یعنی اپنا ہی فائدہ دیکھا۔ زرداری اپوزیشن پورے بجٹ کے دوران مکمل طور پر خاموش رہی۔ پاکستان کے غریب اور متوسط گھرانے قناعت اختیار کریں تاکہ اشرافیہ کی فضول خرچی میں فرق نہ آئے۔
2013ء میں عمران خان نے تجویز پیش کی تھی کہ انتخابات عدلیہ کی نگرانی میں کرائے جائیں تاکہ ان کی شفافیت پر کسی کو شک نہ ہو، لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلا۔ دراصل یہ فوج یا عدلیہ کا کام نہیں کہ وہ انتخابات کی نگرانی کا فریضہ سرانجام دے۔ یہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ ہمیں سیاسی معاملات کا ایڈہاک بنیادوں پر حل تلاش کرنے اور تجویز کرنے
سے گریز کرنا چاہیے۔ الیکشن کمیشن کو خود مختار اور فعال بنانا ہوگا اور اسے مطلوبہ وسائل مہیا کرنا ہوں گے تاکہ وہ اپنا کام درست طریقے سے سر انجام دے سکے۔ تقریباً اٹھارہ کروڑ کی آبادی والے ملک، جس میں حکومتی ادارے سیاست زدہ اور کرپشن کی لپیٹ میں ہیں، میں قومی، صوبائی یا مقامی حکومتوں کے انتخابات کا انعقاد آسان کام نہیں۔ پھر الیکشن کمیشن کی درستی اور اصلاح کا مطلب چار اچھے ارکان کی تلاش نہیں۔ ہمیں اپنی توجہ افراد کی بجائے اداروں کی اصلاح پر مرکوز کرنی چاہیے۔ جب تک الیکشن کمیشن وقتی طور پر کام کرنے والے سکول ٹیچرز اور غیر تربیت یافتہ سرکاری ملازموں کے ساتھ کام چلائے گا‘ ہمیں 2013ء اور خیبر پختون خوا میں 2015ء میں ہونے والے انتخابات کا اعادہ ہوتا دکھائی دیتا رہے گا۔ اگر انتخابات درست بھی ہو جائیں تو کیا سیاستدان مقامی حکومتوں کو سیاسی، انتظامی اور مالی خود مختاری دیتے ہوئے بطور فعال ادارہ کام کرنے کی اجازت دیں گے‘ جو ان کے مزاج میں ہی نہیں ہے۔ فوجی حکمرانوں نے اپنے ذاتی مفادات میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کروا کے ان کو انتخابی کالج میں تبدیل کر دیا جس سے مقامی حکومتوں کا نظام مفلوج ہو کر رہ گیا۔ آئین کی اٹھارویں ترمیم کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی‘ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور عوامی نیشنل پارٹی نے مقامی حکومتوں کے انتخابات کرانے کے سلسلے میں تاخیری حربے اختیار کئے۔ بلوچستان نے مقامی حکومتوں کے برائے نام انتخابات کا انعقاد کرا لیا لیکن پنجاب اور سندھ میں ایسا نہ ہو سکا۔ خیبر پختون خوا میں بھی ایسا سپریم کورٹ کے دباؤ کی وجہ سے ہوا تھا۔
عمران خان نے 2013ء کے قومی انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کا الزام نواز شریف پر لگایا تھا کیونکہ نواز شریف کو کامیابی ملی تھی، اب ستم ظریفی دیکھیے کہ عمران خان کی دیانتداری اور سچائی کو صوبہ خیبر پختون خوا کے امین علی گنڈا پور جیسے لوگوں نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ دراصل ہماری اشرافیہ اس حقیقت کے ساتھ سمجھوتہ کر چکی ہے کہ اقتدار حاصل کرنا اور اس پر اجارہ داری قائم کرنا سیاسی زندگی کا ارفع ترین مقصد ہے، چنانچہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کے حصول کے لئے مشکوک ذرائع اختیار کر لئے جائیں۔ ملک کی اکثریت عمران خان سے یہ توقع نہیں کرتی کہ وہ بھی روائتی سیاست دانوں کی طرح علی امین گنڈا پور یا پرویز خٹک کی حمایت کریں گے جن کا بھائی لیاقت خٹک رات بارہ بجے تک غیر قانونی طور پر پولنگ سٹیشن پر قبضہ جمائے بیٹھا رہا اور پریذائڈنگ افسران مجسٹریٹی اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسے اشخاص کو گرفتار نہ کرا سکے۔ دراصل صوبائی محکمہ کے سٹاف کی نگاہیں ایوان سیکرٹریٹ کی طرف ہوتی ہیں۔ بھارت میں 1980ء میں ایسے موقع پر وزیر داخلہ کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
پنجاب حکومت نے لوکل گورنمنٹ کے انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر کرانے کی تجویز پیش کی تھی تا کہ لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے سیاست زدہ اور کرپشن کے ماہرین اپنی من مانی کرنے میں آزاد ہوں۔ یہاں پھر لاہور ہائی کورٹ کو مداخلت کرنا پڑی اور انہوں نے حکومت کو مجبور کیا کہ وہ آئین کے مطابق اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی یقینی بنائے اور اس تناظر میں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ کو آئین کے آرٹیکل 140-A اور 32 کے تحت عوام کو بطور شہری ان کے حقوق نہ دینے پر پنجاب حکومت کی سرزنش کرنا پڑی۔
خیبر پختون خوا کے بلدیاتی انتخابات میں بد انتظامی ہوئی ہے۔ اپنے رشتے داروں کی وجہ سے اب صوبہ کے پی کے پر پرویز خٹک کی گرفت کمزور ہو چکی ہے۔ الیکشن کمیشن کے ساتھ صوبائی حکومت نے معاندانہ رویہ اختیار کیا ہوا تھا۔ امن و امان کی ذمہ داری صوبائی حکومت کی ہوتی ہے‘ اس لیے جو دو درجن کے لگ بھگ لوگ جاں بحق ہو گئے تھے ان کی ذمہ داری بھی صوبائی حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے۔ اب یہی سوچا جا رہا ہے کہ ملک کا انتخابی سسٹم ناکام ہو چکا ہے؛ تاہم عمران خان اور وزیر اعلیٰ پرویز خٹک سے استعفیٰ طلب کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور جمعیت علماء اسلام بھی عمران خان کے اس مطالبے سے متفق نہ تھے کہ نواز شریف مستعفی ہوجائیں۔ عوام یہ پوچھ رہے ہیں کہ جو مطالبہ نواز شریف کے بارے میں غیر آئینی تھا وہ اب پرویز خٹک کے معاملے میں کیسے آئینی ہو گیا۔ جب صوبائی حکومت تسلیم کر رہی ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے اور دوبارہ انتخابات کے لئے بار بار پیش کش کر رہی ہے تو پھر سہ فریقی اتحاد کی احتجاجی تحریک کس لیے؟ خیبر پختون خوا کی تمام اپوزیشن جماعتوں اور حکمران جماعتوں کو فوری طور پر وزیراعلیٰ سے مذاکرات کرنا چاہئیں۔ وہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں فوری تبدیلی کرائیں جو غیر ملکی امداد سے چلنے والی غیرسرکاری تنظیموں نے بنایا ہے اور اس میں سے ویلیج کونسل اور نیبرہوڈ جیسی غیر معروف اصطلاح نکال دیں جو کسی غیر معروف دانشور کی ذہنی اختراع ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 140-A اور 32 کو مد نظر رکھ کر از سر نو ایکٹ بنایا جائے اور مشترکہ قرار داد کے ذریعے الیکشن کمیشن سے درخواست کی جائے کہ صوبہ خیبر پختون خوا کے انتخابات کو کالعدم قرار دے دیا جائے۔ ویسے بھی وفاق کی آشیرباد سے اب صوبہ خیبر پختون خوا کی حکومت چند ہفتوں کی مہمان نظر آرہی ہے، لہٰذا عمران خان اپنی حکمت عملی ہوشیاری سے تیار کریں اور فوری طور پر خیبر پختون خوا کی تمام اپوزیشن جماعتوں کو گول میز کانفرنس میں مدعو کریں اور بلدیاتی انتخابات کو کالعدم قرار دے دیں۔ اس طرح عمران خان کا جمہوری انداز کا یہ فیصلہ ان کی شخصیت کو اُبھارے گا۔ حکومت اور اپوزیشن کی مشترکہ قرارد اد کی روشنی میں الیکشن کمیشن اپنی حکمت عملی قانون کے مطابق اختیار کرے گا۔ چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار محمد رضا نے درست اعلامیہ جاری کیا ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں قانون کا مذاق اڑانے والوں کو سبق سکھا دیں گے۔ صوبائی حکومت بلدیاتی انتخابات کے دوران امن و امان قائم رکھنے میں ناکام رہی اور حکومت اور اپوزیشن کے ورکروں نے امن و امان خراب کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ عمران خان کے خلاف گھنٹی بج چکی ہے۔ اب ان کو صوبائی حکومت سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ ایک بار صوبائی حکومت ان کے ہاتھ سے نکلی تو اپوزیشن اتحاد حکومت بناتے ہی ان کے وزراء کے خلاف مقدمات کی بھرمار کر دے گا۔ لہٰذا عمران خان از خود نوٹس لیتے ہوئے پرویز خٹک کو سبکدوش کر دیں کیونکہ خیبر پختون خوا حکومت کے لئے مشکلات کے لئے کانٹے بچھا دئیے گئے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کا خاتمہ ہو جائے۔ عمران خان تن تنہا جنگ لڑ رہے ہیں اور آصف علی زرداری نے ان کے ارد گرد جال بچھا دیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں