"KDC" (space) message & send to 7575

عدالتی کمیشن: ریٹرننگ افسران کی طلبی‘ اہم پیش رفت

1973ء کا آئین قومی وحدت کی بجائے انفرادی شخصیت کو تقویت دیتا ہے جس سے سیاسی آمریت جنم لے رہی ہے کیونکہ 1973ء کے آئین کا 2015ء تک کا بیالیس سالہ سیاسی سفر سیاسی آمریت اور فوجی آمریت کے جمہوری تجربے اور آئین کی درجنوں ترامیم عوام کے مسائل حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔ برطانیہ کے نو آبادیاتی نظام کے تحت پارلیمنٹ کے ارکان کے موروثی انتخابی حلقے مخصوص سرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کے انتخابی حلقے ہیں۔ ناقص طریقۂ انتخاب کی وجہ سے وہی خاندان‘ پارٹی یا ممبران چہرہ بدل کر چالیس سال سے منتخب ہو رہے ہیں۔ اس نظام انتخاب کے ہوتے ہوئے اصلاح یا تبدیلی ناممکن ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنی قیادت کے کرپشن کے کیسز حل کرنے کے لئے جمہوریت اور مفاہمت سے دو وزرائے اعظم سے اتنی کرپشن کرائی کہ آصف علی زرداری کی کرپشن جرمِ صغیر بن گئی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اپنی قیادت کی قرض نادہندگی کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے پہلے دور میں پیلی ٹیکسی کی قرض سکیم متعارف کرائی جس میں سے نوے فیصد قرض نا دہندہ ہیں اور قرض اتارو، ملک سنوارو کی سکیم منظر سے ہی غائب کرا دی گئی۔ اب نوجوانوں کی قرض سکیم متعارف کرائی گئی جس میں امید ہے سو فیصد قرض نادہندہ ہوں گے۔ قرض نادہندہ کلب میں عوام اور سفید پوش نوجوانوں کی شرکت سے قیادت کی بینک نادہندگان کو الیکشن 2018ء سے پیشتر قدرتی آفات کے بہانے عام معافی کا اعلامیہ جاری کر دیا جائے گا۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی مفاہمت سے کرپشن اور بنک نادہندگان کے کیسز کے ملزمان کو باعزت بری کیا جا رہا ہے۔ مفاہمت کے اصولوں کے مطابق پی پی پی کو کرپشن کے کیسز میں باعزت بری اور مسلم لیگ (ن) کو قرض نادہندگی میں بری کرکے جمہوریت کو مضبوط کیا جائے گا۔
ان حالات میں کراچی کی صورت حال پر رینجرز نے جرائم کی فہرست اور ان کی سطح کا تعین کرکے بالآخر مسائل کے دائمی حل کے لئے ضرب عضب کی طرز پر قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کا مطلب ایسا ملٹری آپریشن ہے جس میں 230 ارب روپے کی بھتہ خوری میں ملوث ان طاقتور گروپس کو ٹارگٹ کیا جائے گا، جن کی حیثیت اور اثرورسوخ بہت زیادہ ہے اور وہی مافیا گروپ سندھ کے اربن اور رورل معاملات کو چلا رہے ہیں۔ اس اقدام سے انتظامی، سیاسی اور صوبے کی سکیورٹی اور امن و امان کی صورت حال بہتر ہو سکتی ہے۔ رینجرز کی جانب سے فراہم کی جانے والی فہرست میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے کچھ سیاستدانوں ، رہنمائوں اور وزیروں کے ساتھ ساتھ بیورو کریسی اور پولیس کے عہدیداروں کے نام بھی شامل ہیں۔ فہرست ملنے کے بعد آصف علی زرداری نے وزیر اعلیٰ سندھ کو ہدایات دے دی ہیں کہ معاملات کو اسی طرح چلنے دیں اور رینجرز کے احکامات کو پس پشت ڈال دیا جائے۔ پیپلز پارٹی کے وزراء اور بیوروکریٹس کا موقف ہے کہ مالی دہشت گردی سے رینجرز اور پاک فوج کا کیا تعلق ہے۔ آصف علی زرداری کی ہدایات پر اعتزاز احسن نے بھی اپنی توپوں کا رخ رینجرز کی طرف موڑ دیا ہے اور الطاف حسین نے بھی نواز شریف اور آصف زرداری کو دوستی کا پیغام بھجوا دیا ہے۔
اگر رینجرز ان معروضی حالات کے پیش نظر اپنی پریشان کن تحقیقات کے حوالے سے کسی کارروائی کے لئے تیار نہیں ہے یا وہ کارروائی کی پوزیشن میں نہیں ہے تو مافیاز اور ان کے سیاسی آقائوں کے ہاتھ مزید مضبوط ہوں گے اور یہ طاقتور گروپس خود کو اپنی مجرمانہ کارروائیوں کے معاملے میں آزاد سمجھیں گے۔ اس طرح رینجرز اور فوج کی ساکھ خراب ہوگی، جس کے وہ متحمل نہیں ہو سکتے۔ اگر رینجرز نے نیم دلانہ اور مصنوعی انداز میں کارروائی کی تو یہ لوگ معاملات کو مزید سیاست زدہ کر دیں گے اور اس کے نتائج انتہائی خطرناک ہو سکتے ہیں۔ آصف علی زرداری نے دیگر سیاسی قوتوں کی آشیر باد سے رینجرز کی کوششوں کو ناکام بنانے کی حکمت عملی کے لئے اعتزاز احسن اور دیگر ارکان اسمبلی کو آگے بڑھایا ہے۔ '' اگر اب یا کبھی نہیں‘‘ کے فارمولے کے تحت اگر رینجرز نے تمام منفی عناصر کے خلاف بلا تفریق کارروائی نہ کی تو مختلف تنظیموں اور عوام کی جانب سے شدید رد عمل آسکتا ہے۔ کراچی شہر اور دیہی سندھ پر حکومت کرنے والے سیاستدانوں اور حکمرانوں کی جانب سے اگر مزاحمت کی گئی تو فوج اپنی ساکھ کو بچانے کے لئے پورے سیاسی نظام کے سیٹ اپ کا خاتمہ کر سکتی ہے کیونکہ ان سیاستدانوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی کے لئے سیاسی حمایت کے ساتھ ساتھ پولیس اور دیگر بلدیاتی اور صوبائی محکموں کی بھر پور حمایت درکار ہوگی اور اس طرح کی کارروائی کے لئے موجودہ سندھ حکومت مناسب نہیں ہے، لہٰذا آرمی کے لیے صوبہ سندھ میں حکومت کی تبدیلی پیشگی شرط ہوگی۔ ایسی کارروائی کا سب سے آسان اور آئینی طریقہ یہ ہے کہ وفاقی حکومت کی حمایت حاصل کی جائے اور سندھ میں ایمرجنسی لگا کر تین ماہ کے لئے صوبائی اسمبلی اور کابینہ کو معطل کرا دیا جائے۔ اس پر آصف علی زرداری اور ان
کے ساتھیوں کی جانب سے سیاسی مزاحمت ہوگی لیکن فی الوقت پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم دونوں انتشار کا شکار ہیں۔ اب افواج پاکستان کو صدر بش کی طرح پیغام دینا ہوگا کہ وزیر اعظم نواز شریف ان سیاسی جرائم پیشہ افراد کے ساتھ ہیں یا فوج اور رینجرز کے ساتھ ہیں۔ جس انداز سے آصف علی زرداری نے رینجرز کی کارروائی میں حصہ نہ بننے کی ہدایات وزیر اعلیٰ سندھ کو دی ہیں، اس سے رینجرز کی جانب سے شروع کیا جانے والا عمل واضح طور پر فوج کی جانب سے معاملات کو کنٹرول کرنے تک پہنچ سکتا ہے، یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ ایکشن کمیٹی کے اجلاس میں فوجی جرنیل بیٹھے ہیں اور ان کی جانب سے کئے جانے والے اتنے بڑے انکشافات کے بعد یہ جرائم پیشہ عناصر بغیر کسی منصوبے کے بیٹھے رہیں گے اور پوری حکمت عملی پر غور نہیں کریں گے، آصف علی زرداری بھانپ گئے ہیں کہ آنے والے دنوں میں سیاستدان اور ان کے سرپرستوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جس طرح سابق صدر آصف علی زرداری 22 نومبر 2012 ء کو بیماری کی حالت میں دوبئی شفٹ ہوگئے تھے۔ اب بھی ان میں سے کچھ تو ملک چھوڑ کر بھاگ سکتے ہیں، لیکن اس کا انحصار اس پر ہوگا کہ پاک فوج اور رینجرز کس قدر تیار ہیں۔
رینجرز اور افواج پاکستان عدالتی کمیشن کی طرف نگاہ رکھے ہوئے ہیں کیونکہ ملکی تاریخ میں پہلی بار عام انتخابات میں منظم دھاندلی کی تحقیقات کے لئے سپریم کورٹ کے حاضر سروس ججز پر مشتمل عدالتی کمیشن کا سہارا لیا گیا ہے جس کی سربراہی ملک کے چیف جسٹس کو تفویض کی گئی، حالانکہ آئین کا آرٹیکل 225 اس حوالے سے واضح ہے، جس کا حوالہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے 2013ء کے انتخابات کے حوالے سے تین درخواستیں مسترد کر دی تھیں، اور ان درخواستوں پر فیصلہ دیتے ہوئے محترم چیف جسٹس نے فرمایا کہ انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کرنا سپریم کورٹ کا نہیں بلکہ الیکشن ٹربیونل کی ذمہ داری ہے، مگر جب اس کمیشن کی تشکیل کے وقت قومی سطح پر اتفاق کیا گیا تو خصوصی صدارتی آرڈیننس کے ذریعے عدالت عظمیٰ کو آئینی تحفظ دے دیا گیا تاکہ کمیشن کی تحقیقات کے دوران کسی بھی قسم کی آئینی و قانونی دشواری درپیش نہ ہو۔
عدالتی کمیشن کو فارم 15 کے حوالے سے جو رپورٹس موصول ہوئیں، اس نے ریٹرننگ افسران کی خامیوں اور لاپروائیوں کا راز کھول دیا ہے اور چشم کشا حقائق نے ثابت کر دیا ہے کہ ملک کے انتخابی نظام میں شفافیت لانے کے لئے وسیع پیمانے پر انتخابی اصلاح کرنی ہوگی۔ فارم vx اور فارم xiv دراصل فارم xvi مرتب کرنے کے لئے اہم دستاویزات ہیں جن کو عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ38 میں لازمی دستاویزات تصور کیا جاتا ہے۔ فارم xv ہر حلقے کے ہر پولنگ سٹیشن کے ہر پولنگ بیگ میں ووٹروں کے ساتھ موجود ہوتا ہے، جس میں اس پولنگ سٹیشن کی دن بھر کی کارروائی سمیت تمام تفصیلات درج ہوتی ہیں کہ کتنے بیلٹ پیپرز دیئے گئے، کتنے ووٹ ڈالے گئے، کتنے ووٹ مسترد ہوئے، کتنے چیلنج کئے گئے اور کتنے ٹینڈر کئے گئے اور کتنے بیلٹ پیپرز کا استعمال ہوا۔ لہٰذا بیس ہزار پولنگ سٹیشنوں سے فارم xv کے دستیاب نہ ہونے سے عدالتی کمیشن کو عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 38 اور رولز 25 کو مد نظر رکھنا ہوگا کیونکہ ان فارموں کو قانونی پوزیشن حاصل ہے۔ اسی طرح عدالتی کمیشن کی طرف سے ان حلقوں کے 12 ریٹرننگ افسران جہاں غیر معمولی طریقے سے بیلٹ پیپرز چھاپے گئے، کو از خود نوٹس کے ذریعے طلب کرنا اہم پیش رفت ہے۔ بلاشبہ عدالتی کمیشن کارروائی اب غیر معمولی طور پر اپنے طریقہ کار کے مطابق آگے بڑھ رہی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں