"KDC" (space) message & send to 7575

عوامی نمائندوں کی قومی حکومت تشکیل دی جائے!

1973ء کا آئین کوئی قابلِ عمل دستاویز نہیں ہے۔ اس میں مسلسل ترامیم کی ضرورت پیش آرہی ہے۔ یہ اچھے اور برے میں امتیاز نہیں کرتا۔ ایک رکن اپنی پارٹی کی خواہش کے برعکس اپنے شعور کے مطابق کسی کو ووٹ دیتا ہے تو فلور کراسنگ کے نام پر اس کی رکنیت ختم کر دی جاتی ہے۔ موجودہ جمہوریت ملک میں خاندانی آمریت کے مکروہ چہرے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ہماری سیاسی جماعتیں عوام کی خدمت کے لئے تشکیل نہیںدی گئیں بلکہ صرف چند خاندانوں/ افراد کی تابع ہیں جو پارٹی میں اعلیٰ عہدوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
1973ء کا آئین صرف انتخابی جمہوریت تک محدود ہے؛ چنانچہ انتخاب جیت کر یا چھوٹی پارٹیاں خرید کر حکومت بنانے والی جماعت کا وزیراعظم اور صدر مکمل طور پر مطلق العنان ہو کر مرضی سے اداروں کے سربراہ مقرر کرتے ہیں جس سے مخصوص ذہنیت اداروں پر ـحاوی ہو جاتی ہے۔ گورنر، سفیر ، عدلیہ اور دیگر آئینی اداروں کے سربراہ میرٹ کی بجائے سیاسی آمریت کے نامزد کردہ ہوتے ہیں اور ملک کے تمام وسائل اتحادی پارٹیوں یا کارکنوں کی نمود و نمائش پر خرچ کر دیئے جاتے ہیں تاکہ موجودہ پانچ سال پورے کئے جائیں اور اگلا انتخاب جیتا جائے۔ بھٹو، ضیاء، نواز ، بے نظیر اور مشرف آئینی ترامیم کے باوجود اداروں کے اپنے نامزد کردہ سربراہوں کے ہاتھوںنشانِ عبرت بنے۔جمہوری معاشروں میں جہاں رہنما عوام کی خدمت کے لئے منتخب ہوتے ہیں‘ جب ان پر کوئی الزام لگتا ہے تو اپنے عہدوں سے مستعفی ہو کر دامن پر لگا داغ دھو دیتے ہیں۔ مسلم معاشروں کے رہنما عہدے چھوڑ نے سے انکار کر دیتے ہیں‘ چاہے عدالت عظمیٰ سے سزا یافتہ بھی ہو جائیں۔ دراصل وہ سیاسی قوت کے حصول کی اس لئے خواہش رکھتے ہیں کہ اسے ذاتی مفاد، کالے دھن کو محفوظ بنانے اور عہدے پر ہمیشہ قائم رہنے کے لئے استعمال کر سکیں۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے‘ اقربا پروری اس وقت عروج پر پہنچی جب جنرل پرویز مشرف کے چیف ایگزیکٹو آرڈر 2002 ء کے تحت آرٹیکل 51 اور 224کے تحت قومی اسمبلی کی 60 مخصوص سیٹیں پارٹی رہنماؤں کے وفاداروں اور رشتے داروں میں تقسیم کی گئیں اور اس طرح پارٹی اور ملک میں آمریت کو مستحکم کیا گیا‘ جو کہ آئین کے آرٹیکل 226 سے ہی متصادم ہے اور افسوس کہ اس بارے میں سابق چیف جسٹس نے 10جون 2010ء کو جو ریمارکس دئیے تھے‘ قانونی پوزیشن حاصل نہ کر سکے۔
ملک کی وحدت کو محفوظ ہاتھوں میں دینے کے لئے لازم ہے کہ صرف وہ سیاسی جماعتیں کہلائیں جو الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہوں اور سیاسی پارٹیوں کی باقاعدہ آئینی رجسٹریشن کے لئے پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء میں باقاعدہ ترمیم کرکے اسے آئین کا حصہ بنایا جائے۔الیکشن کمیشن ایسی سیاسی پارٹیوں کو ماہانہ آمدن و خرچ کا گوشوارہ جمع کرانے کا پابند کرے۔ تمام سیاسی جماعتیں جو قومی سیاست میں حصہ لینا چاہتی ہیں، ان کا کم از کم ضلعی سطح پر دفتر ہونا لازمی قرار دیا جائے اور صدر دفتر بھی ہونا چاہیے جو روزانہ ورکنگ آورز میں کھلا رہے۔ تمام سیاسی پارٹیاں اپنی پارٹی کا طریقہ انتخاب شائع کریں اور پارٹی میں بھی انتخاب کروائیں۔ جو پارٹی کاسٹ شدہ کل ووٹوں کے دس فیصد ووٹ نہ لے سکے وہ پارٹی اور قیادت آئندہ کے لئے نااہل قرار دے دی جائے۔ پارٹیوں کے اتحاد کو ممنوع قرار دیا جائے‘ پارٹیاں صرف ایک دوسرے میں ضم کرنے کی اجازت ہو۔ اگر کوئی سیاسی جماعت رنگ، نسل، علاقہ یا زبان کی بنیاد پر قائم ہو تو اسے اور اس کے لیڈروں کو ہمیشہ کے لئے نا اہل قرار دے دیا جائے۔ صرف وہ قومی پارٹی الیکشن میں حصہ لے سکے جو کم از کم ستر فیصد سیٹوں پر نمائندے کھڑے کرے۔ ایسے پریشر گروپ جو آزاد یا کسی مخصوص علاقے سے نمائندے کھڑے کرتے ہیں‘ ان کو الیکشن سے باز رکھا جائے۔ یہی گروپ بعد میں بلیک میلنگ کی سیاست کرتے ہیں۔ ایک سیاسی جماعت ایک ہی نام سے رجسٹر ہو، ایک جماعت کے دوسرے گروپ کو رجسٹر نہ کیا جائے۔ اگر کوئی جماعت چھوڑے تو و ہ نئی جماعت نئے نام سے رجسٹر کروائے۔ جماعت کا نام دوسروں سے مختلف ہو اور بالکل مشابہت نہ رکھتا ہو۔ کسی ایسی نئی جماعت کو رجسٹر نہ کیا جائے جس کے ملک کے ستر فیصد شہروں میں دفاتر، فون نمبر اور سٹاف موجود نہ ہو۔ جماعتیں ہمیشہ عوام میں موجود رہیں۔ الیکشن کمیشن اپنے سیکرٹریٹ میں سیاسی جماعتوں پر مکمل کنٹرول رکھنے کے لئے ایک ایـڈوائزرز کونسل تشکیل دے۔ عوام اور پارٹیاں کسی لیڈر کے ملکی مفاد کے خلاف کام کرنے یا بیان دینے کا مسئلہ اس میں باقاعدہ سماعت کے لئے پیش کریں۔ الیکشن کمیشن ضابطۂ اخلاق وضع کرے اور ایسے لیڈر جو اپنی اصل آمدن سے زیادہ حیثیت سے رہ رہے ہیں، ان کی چھان بین کرے۔ سیاسی پارٹی صرف الیکشن ہی میں نظر نہ آئے بلکہ مستقل سامنے رہے اور اسمبلیوں کے ارکان کے اپنے حلقے میں دفاتر قائم کرنے کے لئے الیکشن کمیشن ضابطہ اخلاق مرتب کرے اور عوام کے مسائل بلا سیاسی وابستگی کے انہی حلقوں میں حل کئے جائیں۔
اسلامی معاشرے کو تقسیم کرنے کے لیے کثیر الجماعتی سیاسی نظام قائم کیا جاتا ہے جس کے نفاذ سے مسلمان فرقوں یا لسانی بنیادوں پر سیاسی جماعتیں بنا لیتے ہیں۔ اکثر مذہبی فرقے طاقت کے مظاہرے اور اقلیتی فرقے اپنی بقا کے لئے اپنی اپنی جماعتوں میں عسکری گروپ تشکیل دیتے ہیں۔ لسانی اور علاقائی بنیادوں پر بننے والی جماعتیں صوبے یا حقوق کے مطالبات کی جدوجہد کے لئے سخت گیر لوگوں کو پارٹی میں نمایاں عہدے دیتی ہیں جس سے پارٹی عسکریت پسند بن جاتی ہے۔ مارشل لاء کی آشیر باد سے بننے والی موروثی سیاسی جماعتیں انہی سیاسی جماعتوں سے اتحاد کرکے ایوان حکومت میں پہنچتی ہیں‘ پھر حکومت کو بچانے اور جمہوریت کو مضبوط کرنے کے نام پر ان جماعتوں کے عسکری گروہوں کو عدالت سے عدم ثبوت کی آڑ میں آزاد کرا لیا جاتا ہے۔ اتحاد کی خوشنودی اور جمہوریت کی مضبوطی کی خاطر نام نہاد جمہوری حکومتیں ان عسکریت پسند سیاسی جماعتوں کے خلاف کارروائی کرنے کی اہلیت نہیں رکھتیں۔
1973ء کے آئین کے مطابق اکثریتی جماعت کا حق حکمرانی کا تجربہ بار بار ناکام ہونا ایک لمحہ فکریہ ہے۔ اقلیتی پارٹی اور علاقائی رہنما حق حکمرانی سے مایوس ہو کر خود مختاری کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔ 58, 2-Bکے آئین سے انخلا سے صدر کو بے بس اور کمزور کر دیا گیا ہے۔ صدر کا الیکٹورل کالج یعنی اسمبلیوں اور سینیٹ کے ارکان سے منتخب ہونا ایک لحاظ سے پیشہ ورانہ بد دیانتی ہے، لہٰذا یہ فریضہ واپس عوام کو سونپ دینا چاہیے۔ عوام اپنے صدر کا انتخاب خود کریں۔ اپنے 32سالہ تجربہ کی روشنی میں میری تجویز یہ ہے کہ تقسیم شدہ انتخابی نتائج کے نتیجے میں بننے والی حکومتوں اور اتحادوں کی ایک سال کی کارکردگی کو مد نظر رکھتے ہوئے قومی اتحاد کے لئے لازم ہے کہ عوامی نمائندوں پر مشتمل قومی حکومت تشکیل دی جائے جس میں تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں حق حکومت حاصل ہو۔ ملک کے وسیع تر مفاد میں اکثریتی جماعت کو پہلا حق حکمرانی اس کی حاصل شدہ سیٹوں کے تناسب سے دیا جائے اور اسی طرح دوسرے اور تیسرے نمبر پر آنے والی جماعتوں کو ترتیب وار وزارت عظمیٰ کا قلمدان سونپا جائے۔ پانچ سالہ مدت کے1826 دنوں کو 272 سیٹوں پر تقسیم کیا جائے۔ تمام ارکان قومی اسمبلی سے وزارتوں کی بہتری کی تجاویز مانگی جائیں۔ سب سے بہترین امیدوار کو پہلے اور بہتر کو دوسرے اور اچھے کو آخر میں موقع دیا جائے تاکہ ہر ممبر اپنی مدت کے درمیان کسی وزارت کا سربراہ بنے‘ اپنے باقی تمام ساتھیوں کے برابر‘ تاکہ وزیر بننے یا کسی بل پر حق رائے دہی کے لئے وفاداریاں فروخت یا ضمیر کے خلاف ووٹ دینے کا راستہ بند ہو۔ جن اسمبلیوں میں کسی ایک پارٹی نے اکثریت حاصل کی ہو، وہاں اس کی حکومت بنائی جائے اور انہیں سیٹوں کے تناسب سے مدت حکمرانی دی جائے اور باری باری تمام پارٹیوں کو ان کی سیٹوں کے مطابق مدت حکمرانی دی جائے اور عوام کو حق دیا جائے کہ جو ارکان اسمبلی ان کے حقوق کی حفاظت کرنے میں ناکام رہے ان سے مینڈیٹ واپس لے لیں۔ اس کے لئے قانون سازی کی جائے جس کے مطابق اگر کسی رکن اسمبلی کے حلقے کے 30 فیصد سے زائد ووٹرز الیکشن کمیشن کو تحریری یاد داشت پیش کر دیں تو اس رکن اسمبلی کا الیکشن کالعدم قرار دینے کے اختیارات الیکشن کمیشن کو ہونے چاہئیں۔
میری ان تجاویز سے پارلیمنٹ بلا خوف و خطر اپنی مدت پوری کرے گی ‘کوئی نمائندہ وفاداری بھی تبدیل نہیں کرے گا‘کوئی پارٹی علیحدگی کا مطالبہ بھی نہیں کرے گی‘صوبہ بلوچستان کے عوام میں بھی حکمرانی کا احساس اجاگر ہو گا اور مفاد پرستوں کے عزائم ناکام ہو جائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں