"KDC" (space) message & send to 7575

آصف علی زرداری آئین کی زد میں

سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے سابق وزرائے اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی تقلید کرتے ہوئے فوجی قیادت کی اتھارٹی کو ہی چیلنج کر دیا۔ پیپلز پارٹی کی ایگزیکٹو کمیٹی نے بھی اپنے شریک چیئر مین کے موقف کی توثیق کر دی۔ انہوں نے معمولی چنگاری کو ہوا دے کر تیز شعلوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ بھٹو مرحوم جنرل یحییٰ خان کو اس طرح کے چیلنج دیتے رہتے تھے‘ لیکن شام ڈھلتے ہی راولپنڈی کلب میں دونوں اکٹھے ہو کر گلے شکوے دور کر لیا کرتے۔ زرداری صاحب جنرل راحیل شریف اور وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ ایکشن پلان کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کرتے رہے ہیں، ان کے وزیراعلیٰ سندھ بھی ایکشن پلان کمیٹی کے اجلاس اور عوامی اجتماعات میں فوج اور رینجرز کے حکام کی باتیں سنتے رہے ہیں۔ عمومی دہشت گردی کا حصہ سمجھی جانے والی اقتصادی دہشت گردی کے خلاف فوج کا بھرپور ایکشن جاری ہے۔ لہٰذا ایکشن پلان کے اس ابتدائی مرحلے پر زرداری صاحب نے افواج پاکستان سے محاذ آرائی کا فیصلہ کرکے ملک کو شدید بحران کی طرف لے جانے کی سعی کی ہے۔ موصوف کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ نواز شریف انہیں اکیلا چھوڑ دیں گے۔ دوسری جانب جنرل راحیل شریف کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ہر اس شخص کو کچل دیں گے جو ایکشن پلان میں مزاحم ہونے کی کوشش کرے گا۔ جناب زرداری میں اتنا دم خم نہیں کہ وہ مسلح افواج پاکستان کے خلاف ملک گیر تحریک چلا سکیں۔ وہ مبینہ طور پر ماڈل گرل ایان علی کو بچانے کے لئے وزیراعظم نواز شریف کی خوشامد کرتے پائے گئے ہیں۔ وہ اپنی متنازع بیان بازی کے باعث وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کو مشکل میں ڈال چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین‘ ملک کو کراچی سے خیبر تک جام کرنے کی پوزیشن میں نہیں، ان کی پارٹی کے ورکر مایوسی کا شکار ہیں۔ ایان علی کے گرد جیل میں گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ وہ ایسے مجرموں کے نرغے میں ہے جن کی وفاداریاں آصف علی زرداری کے ساتھ ہیں۔ پریشانی اور افراتفری کی اس فضا میں مسٹر زرداری کی جانب سے فوج اور رینجرز کے خلاف دھمکی آمیز خطاب سے اپنے اوپر دباؤ کم کروانا مقصود ہے، لیکن اس کے باوجود ان کی باتوں کا عسکری قیادت کو سنجیدگی سے نوٹس لینا ہوگا۔ آصف علی زرداری کے خلاف آئین کے آرٹیکل (G) (1) 63 کے حوالے سے ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا جا سکتا ہے قانون کی رو سے زرداری صاحب‘ حاصل تمام مراعات سے محروم کئے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح پولیٹیکل پارٹیز آرڈر کے آرٹیکل 11 کے تحت ان کی شریک چیئرمین کی حیثیت کو بھی چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ بے نظیر بھٹو کی پراسرار وصیت کو بھی نادرا کے ذریعے فرانزک کرایا جا سکتا ہے۔ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء کے آرٹیکل 11 کے مطابق کسی کو بھی وصیت کے بل بوتے پر پارٹی عہدیدار نہیں بنایا جا سکتا۔ آصف علی زرداری جذبات میں بھول گئے ہیں کہ فوج کی جانب سے کسی بھی صورت تیز اور سخت ردعمل آسکتا ہے اور یہ قدم سیاست کی لفظی جنگ کی طرح نہیں ہوگا بلکہ کرپٹ مافیاز اور ایسے سیاستدانوں کے خلاف ہوگا جو اس میں ملوث ہیں۔ جب ان کے فرنٹ مینوں کو روائتی پولیس کے حوالے کیا جائے گا تو بڑے بڑے ناموں سے پردہ اٹھ جائے گا۔ تب آصف علی زرداری اور ان کے خاص دوست واحباب حقیقت میں پریشان ہو جائیں گے۔
پارلیمنٹ کے حوالے سے بغور جائزہ لیا جائے تو اہم مفہوم یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی پارلیمنٹ میں کوئی نمائندگی نہیں‘ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین ہی سندھ میں حکومت کر رہی ہے اور وفاقی سطح پر پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر مخدوم امین فہیم ہیں۔ مخدوم امین فہیم بطور چیئرمین، آصف علی زرداری کے بیان سے لاتعلقی کا اظہار کر سکتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی لاہور ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کی روشنی میں این جی او کی حیثیت کی حامل ہے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان میں اس کی نام نہاد رجسٹریشن کو ناہید خان اور صفدر عباسی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلینج کر رکھا ہے۔ مسٹر بلاول زرداری ایک ایسی پارٹی کے سرپرست اعلیٰ ہیں جو لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ایک این جی او کا درجہ رکھتی ہے۔ موجودہ سیاسی تناظر میں مخدوم امین فہیم کا وزن بڑھ گیا ہے اور قانون کی نظر میں پاکستان پیپلز پارٹی نے پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء کے آرٹیکل 11 کے مطابق پارٹی میں انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کرائے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں اپنی رجسٹریشن کے حوالے سے صوبہ خیبر پختون خوا کے سابق گورنر مسعود کوثر اور پنجاب کے
سابق گورنر سردارلطیف کھوسہ کے دستخط ہیں جو کہ آئین کی رو سے اس وقت سیاسی پارٹی کے عہدیدار بننے کے مجاز نہیں تھے۔ مسٹر جہانگیر بدر کے ساتھ ساتھ سردار لطیف کھوسہ اور مسعود کوثر چونکہ پاکستان پیپلز پارلیمنٹرین کے بھی بنیادی رکن ہیں لہذا پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء کے آرٹیکل کے تحت وہ دو سیاسی جماعتوں کے رکن یا عہدیدار نہیں بن سکتے، لہٰذا پاکستان پیپلز پارٹی کی الیکشن کمیشن میں جو نام نہاد رجسٹریشن ہوئی ہے وہ سوالیہ نشان ہے۔ الیکشن کمیشن کے اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم نے ان قانونی و آئینی تقاضوں کا بغور جائزہ ہی نہیں لیا اور پیپلز پارٹی سے اپنی گہری وابستگی کے تحت پاکستان پیپلز پارٹی کی رجسٹریشن کر دی! آصف علی زرداری جس پارٹی کے شریک چیئرمین ہیں اس کی الیکشن کمیشن کے قوانین کے مطابق مشکوک پوزیشن ہے۔ ممکن ہے کہ راقم کے آئینی و قانونی تجزیے سے پیپلز پارٹی کے روح و رواں اور دماغ اعتزاز احسن اتفاق نہ کریں، لیکن میری ناقص رائے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے نام نہاد انٹرا پارٹی الیکشن پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء کے آرٹیکل 11 کے مطابق نہیں ہیں اور الیکشن کمیشن کو چاہئے کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے انٹرا پارٹی الیکشن کے تمام ریکارڈ کا از سر نو جائز ہ لے! سردار لطیف کھوسہ اور مسعود کوثر سروسز آف پاکستان کے تحت ان دنوں پیپلز پارٹی کے عہدیدار بننے کے اہل نہیں تھے۔میں قارئین کی رہنمائی کے لئے ‘چشم کشا قانونی شقیں بطور حوالہ جات پیش کر رہا ہوں:
The Political Parties Order 2002
Artical 5-(3): A person shall not be a member of more than one political party at a time.
Artical 11-(3): All members of the political party at the Federal, Provincial and local levels shall constitute the electoral college for election of the party.
Artical 63 (1)-(g): he is propagating any opinion, or acting in any manner, prejudicial to the Ideology of Pakistan, or the sovereignty, integrity or security of Pakistan, or morality, or the maintenance of public order, or the integrity or independence of the judiciary of Pakistan, or which defames or brings into ridicule the judiciary or the Armed Forces of Pakistan,
Artical 63 (1)-(k): he has been in the service of Pakistan or of any statutory body or any body which is owned or controlled by the Government or in which the Government has a controlling share or interest, unless a period of two years has elapsed since he ceased to be in such service.

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں