"KDC" (space) message & send to 7575

حکومت اور عدالتی کمیشن

سابق صدر آصف علی زرداری نے افواج پاکستان کے بارے میں پُرجوش انداز خطابت سے پورے ملک میں ارتعاش کی سی جو کیفیت پیدا کر دی ہے اس کا اندازہ اس امر سے کیا جا سکتاہے کہ اس بیان کی نہ صرف قومی، سیاسی و مذہبی حلقوں کی جانب سے بھر پور مذمت کی جا رہی ہے بلکہ خود پاکستان پیپلز پارٹی کے بعض سنجیدہ رہنما بشمول یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف اوربعض کارکن اس پر انگشت بدنداں رہ گئے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف جو افواج پاکستان کے بارے میں تحفظات رکھتے تھے اور ماضی میں انہوں نے بھی شدت جذبات سے مغلوب ہو کر کارگل کمیشن بنانے کی تجویز دی تھی جس میں بھارت کے جرنیل کو بھی رسائی دینے کا تذکرہ کیا تھا‘ انہوں نے بھی آصف علی زرداری سے ایک طے شدہ ملاقات موخر کر دی۔ اس پس منظر میں سابق صدر کی جانب سے عوامی نیشنل پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، جمعیت علماء اسلام اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کے رہنمائوں کو دیئے جانے والے افطار ڈنر کو پیپلز پارٹی کی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان کو کم کرنے کی ایک کوشش بھی قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اس میں سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کو محاذ آرائی ترک کرکے مفاہمت و مصالحت کا راستہ اختیار کرنے کا جو مشورہ دیا ہے اس سے پی پی پی کی قیادت کو اندازہ ہو جا نا چاہئے کہ قوم پاک فوج کے ساتھ کھڑی ہے۔ آصف علی زرداری کو جنرل راحیل شریف کی آنکھوں میں پھیلی ہوئی روشنی، ان کے چہرے پر چمکتی ہوئی یقین کی کیفیت کو دیکھ کر کرپشن میں پکڑے جانے کا خوف ہے۔ ایان علی گرفتار ہوئی تو لوٹ کی دولت بیرون ملک منتقل کرنے کے خوفناک انکشافات ہونے لگے، پھر ایک صوبائی وزیر کے گھر سے دو ارب ڈالر اور سمندری لانچ سے پانچ ارب روپے پکڑے گئے۔ فش ہاربر کا سلطان قمر گرفتار ہوا تو کھلا کہ اسلحہ کی سمگلنگ اور دوسرے ذرائع سے حاصل دولت بلاول ہائوس، بلوچ علیحدگی پسندوں اور لیاری گینگ میں تقسیم کی جاتی ہے، یعنی ایک ہی ذریعے سے حکمران سیاسی قیادت، دہشت گرد اور قاتل مستفید ہو رہے ہیں۔ رینجرز کے سربراہ نے 230 ارب روپے کی لوٹ اور دہشت گردی کے تعلق پر بات کی تو منظور کا کا فرار ہو گیا اور محمد علی شیخ ائیر پورٹ سے گرفتار ہوا۔ وزیر بلدیات، وزیر مال، صوبائی وزیر مظہر الحق، مردان علی شاہ اپنی قبل از گرفتاری ضمانتیں کروا کے آ گئے ہیں۔ سیکرٹری تعلیم دبئی بھاگتے ہوئے گرفتار کر لئے گئے ہیں جو آصف علی زرداری کے بہنوئی بتائے جاتے ہیں۔ لیاری کے بے تاج بادشاہ عزیربلوچ نے سینکڑوں لوگوں کے قتل کا اعتراف کیا، جن میں بے نظیر بھٹو کے قتل کے گواہ بھی شامل تھے اور آصف علی زرداری کے گارڈ بھی جنہیں عزیر بلوچ کے ہاتھوں راستے سے ہٹایا گیا اور لیاری کا سلطانہ ڈاکو رحمن ڈکیت بھی قتل ہوا۔
آصف علی زرداری کے تناؤ میں اس وقت اضافہ ہوا جب ان کے بد عنوان دوستوں کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگا، چنانچہ وہ غصے میں آگئے اور فوج پر یلغار کر دی۔ وہ گرجے ''ہمیں تنگ کرنا بند کر دو ، ورنہ ہم اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے‘‘ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر فوج نے سندھ انتظامیہ میں بدعنوان عناصر کی فہرست بنالی ہے تو پھر ان کی طرف سے بھی بدعنوان جرنیلوں کی فہرست شائع کر دی جائے گی۔ مزید کہا '' ہمیں ہدف بنانا بند کر دو، ورنہ پی پی پی کراچی سے خیبر تک پورے پاکستان کو بند کر دے گی‘‘۔ پیپلز پارٹی کے سنجیدہ حلقے کہتے ہیں کہ زرداری صاحب کی کرپشن سامنے آنے لگی تو وہ غصے سے کھول اٹھے لیکن جب بے نظیر قتل ہوئیں تو انہوں نے اپنے ذاتی مفادات میں اور جعلی وصیت نامہ پر عمل درآمد کرانے کے لئے پاکستان کے حق میں نعرہ بلند کرکے پرویز مشرف کو زیرو کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی پشت پناہی دبئی کا پراسرار طبقہ کر رہا ہے، جس کا تعلق بھارتی سرمایہ کاروں سے ہے۔ انہی کی آشیر باد سے یہ حرکت کی گئی ہے۔ جنرل راحیل شریف کو دوبئی کے حکمرانوں کو بھی اسی انداز میں سمجھانا ہوگا جس طرح انہوں نے افغان صدر اشرف غنی کو قائل کیا۔ دبئی کے حکمرانوں سے پاکستان کے ان سیاستدانوں کی فہرست حاصل کرنا ہوگی جن کی اربوں ڈالروں کی جائیدادیں دبئی میں موجود ہیں اور جن کے کاروباری مراکز سے پاکستان سے منی لانڈرنگ ہو رہی ہے۔ جنرل راحیل شریف جس انداز سے آگے بڑھ رہے ہیں ان کو الیکشن کمیشن کے ارکان اور چیف الیکشن کمشنر کو بھی مدعو کرکے بیرونی ممالک سرمایہ کاری کرنے والے سیاستدانوں کی فہرست طلب کرنی چاہیے۔
وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت انتخابی انکوائر ی کمیشن کے گرد گھوم رہی ہے۔ نادرا نے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے 40 حلقہ جات میں ڈالے گئے ووٹوں کے بارے میں جو رپورٹ عدالتی کمیشن کو بھجوائی ہے اس کے مطابق ان حلقوں کے انتخابات مشکوک اور عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی شق 80-78 کے تحت بد عنوانی کی تعریف میں آتے نظر آرہے ہیں ۔ اس پس منظر میں مفاہمت کی پالیسی کو اب
نظر انداز کرنا ہوگا کیونکہ یہ ایسا مکروہ کھیل رہا ہے جس کی پاکستان میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ آصف علی زرداری کی مفاہمت پالیسی تو مجرموں، ڈاکوئوں، بھتہ خوروں، سیاسی بلیک میلروں، مافیا کا تحفظ اور پولیس ، بیوروکریسی اور ماتحت عدالتوں میںبد عنوان افراد کو لانے کے گرد گھومتی تھی۔ بد قسمتی سے میاں نواز شریف بطور اپوزیشن رہنما کے آصف علی زرداری کے سحر میں مبتلا رہے اور انہوں نے بھی قوم کی نمائندگی کے بجائے اپنے مفادات کو مدنظر رکھا۔ نواز شریف نے میمو کیس میں دہری چال چل کر چیف آف آرمی سٹاف جنرل کیانی اور جنرل احمد شجاع پاشا کی حکمت عملی کو ناکام بنا دیا اور آصف علی زرداری نے تمام سیاسی جماعتوں میں مفاہمت پیدا کی اور اس کے نتیجہ میں عوام مخالف عناصر اوربھتہ تاوان گروپ، مافیا گروپ بغیر کسی تادیبی کارروائی کا سامنا کئے اپنا کھیل کھیلتے رہے۔ چنانچہ مفاہمت کے آٹھ برسوں نے سیاست، حکمرانی اور احتساب میں ایک خلاء پیدا کر دیا۔ یہ خلا غیر سیاسی طاقتوں نے اس طرح پُر کیا کہ قومی ایکشن پلان کمیٹی، جائنٹ آرمی ایکشن، پولیٹیکل ٹاسک فورسز اور جے آئی ٹی تخلیق کی گئیں۔ یہ حقیقی معنوں میں مفاہمتی پالیسی کی ناکامی کا اعلامیہ بن گیا اور اب قوم توقع کر رہی ہے کہ جنرل راحیل شریف تمام غلط کاریوں پر آصف علی زرداری اور دیگران سے جواب طلبی کریں۔
اسی بین الاقوامی مفاہمت کی آڑ میں 11 مئی 2013ء کے قومی انتخابات کرائے گئے اور اپنے مخصوص اشخاص کو پارلیمنٹ بھیجنے کے لئے خصوصی طریق کار اختیار کئے گئے ۔ پیپلز پارٹی کی نگاہ صرف لیڈر آف دی اپوزیشن کی طرف لگی ہوئی تھی لہٰذا قومی اسمبلی کی تقریباً 30 نشستوں پر منظم دھاندلی کروا کے عمران خان کو لیڈر آف دی اپوزیشن بننے سے محروم کر دیا گیا اور یہ گہری چال آصف علی زرداری کی ہی تھی تاکہ ان کی کرپشن پر سے پردہ نہ اٹھایا جائے اور پیپلز پارٹی کے لیڈر آف دی اپوزیشن نے وزیر اعظم نواز شریف سے مفاہمت کرکے دوستانہ اپوزیشن کا کھیل کھیل کر پاکستان کے 18 کروڑ عوام کے ساتھ فریب کیا۔
بلوچستان حکومت کے سابق نگران وزیر اعلیٰ ڈاکٹر غوث بخش باروزئی نے عدالتی کمیشن کے باہر موقف پیش کیا تھا کہ بھارت کی یہ کوشش تھی کہ بلوچستان میں حالات اتنے خراب کر دیئے جائیں کہ انتخابات نہ ہو سکیں اور وہ بلوچستان میں انتخابات نہ ہونے کو پاکستان کے خلاف ریفرنڈم کے طور پر استعمال کر سکے۔ نگران وزیر اعلیٰ کا نقطہ نظر درست ہے۔ دسمبر 2012ء میں میری ملاقات کوئٹہ کے سدرن کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل عالم خٹک سے کوئٹہ میں ہوئی تھی اور ملاقات کے دوران جنرل عالم خٹک نے اشارتاً مجھے بتایا تھا کہ ان کی رپورٹ کے مطابق بھارت بلوچستان کی علیحدگی پسند جماعتوں میں کروڑوں روپے تقسیم کر رہا ہے تاکہ 2013ء کے انتخابات میں علیحدگی پسند جماعتوں کو کامیاب کروایا جا سکے اور بعد ازاں بلوچستان اسمبلی کے پہلے ہی اجلاس میں وفاق سے علیحدگی کی قرار داد منظور کرواکے بین الاقوامی توجہ حاصل کرتے ہوئے بھارت کو مشرقی پاکستا ن کی طرز پر مداخلت کا موقع فراہم کیا جا سکے۔ لیکن جنرل عالم خٹک کی خصوصی توجہ اور نگران وزیر اعلیٰ ڈاکٹر غوث بخش باروزئی نے بھارت کے عزائم کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا اور بلوچستان کے چیف سیکرٹری بابر یعقوب فتح محمد نے بلوچستان میں انتخابات کرانے کے لئے ساز گار ماحول بنانے میں ان کی معاونت کی۔ ڈاکٹر غوث بخش باروزئی کے والد مرحوم سردار محمد خان باروزئی بلوچستان اسمبلی کے سپیکر بھی رہے اور بعد ازاں بلوچستان حکومت کے وزیر اعلیٰ بھی رہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں