"KDC" (space) message & send to 7575

حالات کے تقاضے اور ایم کیو ایم کی قیادت

بی بی سی کے بین الاقوامی شہرت یافتہ فری لانس صحافی اون بینٹ جونز نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کو بھارت کی طرف سے نہ صرف مالی امداد فراہم کی جاتی رہی بلکہ دس برس کے دوران اس کے سینکڑوں عسکریت پسندوں کو تربیت بھی دی گئی ۔ انٹیلی جنس اداروں نے پاکستان سے ایجنٹ بھارت بلوانے کے لیے ' را ‘ کے خفیہ طریقے کا کھوج لگا لیا ہے۔ یہ ایجنٹ ماہی گیروں کے روپ میں بھارت جاتے ہیں، وہ طے شدہ منصوبے کے تحت سمندری حدود کی خلاف ورزی کرتے ہیں، انہیں بھارت میں خوش آمدید کہا جاتا ہے اور پھر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ان کی گرفتاری ڈال دی جاتی ہے۔ شناخت کے بعد ماہی گیروں کا روپ دھارے ان دہشت گردوں کو علیحدہ کرکے 'را‘ حکام اور فوجی افسروں سے ملوایا جاتا ہے۔ ' را ‘ ان پاکستانی ایجنٹوں کو آسائشیں اور سہولتیں فراہم کرتی ہے ۔ بھارتی افواج اور ' را ‘ کے اہلکار ان ایجنٹوں کو جدید اسلحہ چلانے اور دہشت گردی کے طریقے سکھاتے ہیں، ان کی برین واشنگ کی جاتی ہے اور پھر ان دہشت گردوں کو جذبہ خیر سگالی کے تحت واہگہ بارڈر پر پاکستان کے حوالے کر دیا جاتا ہے، جن میں سے بیشتر روپوش ہوکر دہشت گردی کی کارروائیاں کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
متحدہ قومی مومنٹ کو بھارت سے مالی امداد ملنے کا انکشاف ان کے اہم رہنما طارق میر نے کیا ہے جو بھارت کی پاکستان میں مداخلت کا ثبوت ہے اور اس پر بھارت کے خلاف مہم چلائی جا سکتی ہے۔ بھارت پاکستان میں مسلسل مداخلت کر رہا ہے۔ حکومت کو یہ معاملہ عالمی سطح پر اٹھانا چاہیے۔ بین الاقوامی قانون اسی کا ساتھ دیتا ہے جو انصاف کا طلب گار ہوتا ہے۔ برطانوی صحافی نے نئی بات نہیں کہی، اس طرح کی خبریں ہفت روزہ تکبیر اورروزنامہ امت میں دو دہائیوں سے چھپ رہی ہیں۔ ان میں ایم کیو ایم کے بھارت سے روابط کے بارے میں بھی مواد شائع ہوتا رہا ہے۔ روزنامہ امت نے پاکستان کے بعض میڈیا پرسنز اور اینکر پرسنزکے بارے میں دستاویزی ثبوت بھی فراہم کیے تھے جن کے مطابق یہ لوگ اسرائیل کے مسلمہ ایجنٹ رہے۔ روزنامہ امت نے بعض نامور اینکرز کے نام شائع کیے جنہوں نے ان سودوں میں فرنٹ مین کا کردار ادا کیا جن میں اسرائیل نے کئی ممالک سے اسلحہ منگوایا تھا۔
ایم کیو ایم کے لندن سیکرٹریٹ کی قیادت کو ان حقائق سے مکمل آگاہی حاصل ہے اس لیے وہ بی بی سی پر ہتک عزت کا دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ اون بینٹ جونز کی تہلکہ مچانے والی خبر کی ٹائمنگ بڑی اہم ہے۔ عسکری قیادت نے قومی مفاد میں فیصلہ کر لیا ہے کہ جہاں ملک کی سلامتی کے خلاف گڑ بڑ نظر آئے وہاں ایکشن کیا جائے گا۔ اس فیصلے کے تناظرمیں اب ایم کیوایم کے گرد گھیرا تنگ ہوتا جا رہا ہے۔
ایم کیوایم 9 مئی2013 ء کو ہونے والے جنرل ورکرز اجلاس کے بعد سے تنظیمی بحران پر قابو نہیں پا سکی بلکہ یہ مزید گہرا ہوگیا ہے۔ پارٹی کے اہم رہنما سائڈ لائن ہو چکے ہیں اور بعض نے گوشہ نشینی اختیار کر لی ہے جن میں کنور خالد یونس جیسے جہاندیدہ رہنما شامل ہیں۔ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کے معاملے میں ایم کیو ایم کا فیصلہ حیران کن تھا،کھلے عام چارج شیٹ عائد کر کے انہیں پریشان کیا گیا۔ اگر ان پر اعتماد برقرار رہتا تو وہ اس سنگین صورت حال کوکنٹرول کرنے کی پوزیشن میں تھے۔ ایم کیو ایم میں
اچھے رہنمائوں کی کمی نہیں، اس میں وسیم اختر، ڈاکٹر فاروق ستار، حیدر عباس رضوی، خواجہ اظہار الحق، رشید گوڈیل، سردار احمد، فیصل سبزواری، قمر منصور، بیرسٹر فروغ نسیم، بیرسٹر سیف، خوش بخت شجاعت، کشور زہرہ جیسے لیڈر موجود ہیں۔ الطاف حسین کی عسکری قوتوں کے ساتھ محاذ آرائی کے بعد کارکنوں میںاعتماد کی سطح ماضی جیسی نہیں رہی۔ باوثوق ذرائع کے مطابق چند روز یا ہفتوں میں آپریشن میں تیزی آئے گی، درجنوں سنگین کیسوں کی انکوائری مکمل ہو جائے گی۔ ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس اور منی لانڈرنگ کیس آخری مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں۔ ان مقدمات کے نتیجے میں الطاف حسین کو محفوظ راستہ ملنے کے امکانات تقریباً ختم ہو چکے۔
الطاف حسین کو سیاسی زندگی کے سنگین ترین بحران کا سامنا ہے۔ منی لانڈرنگ کیس کے بعد بی بی سی کی دستاویزی فلم سے ان پر دبائو مزید بڑھ گیا ہے۔ طارق میر نے کھلا الزام لگایا ہے کہ ان کی جماعت بھارت سے آٹھ لاکھ پونڈ سالانہ حاصل کرتی رہی ہے اور یہ سلسلہ 1994ء سے جاری ہے۔ انہوں نے دستاویزی شواہد کے ساتھ تفصیل دی ہے کہ دوبئی کے کس بینک سے ہندوستانی رقوم ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے کس کس اکائونٹ میں منتقل ہوئیں۔ اگر یہ الزامات درست ثابت ہوئے تو پھر الطاف حسین اورپارٹی کے سرکردہ رہنمائوں پر غداری کے مقدمات درج ہو سکتے ہیں۔ وفاقی حکومت آئین کے آرٹیکل 17 اور پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء کے آرٹیکل 15اور16 کے تحت جماعت کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ آئین کی رو سے وفاقی حکومت کو جماعت پر پابندی لگانے کے بعد 15 روز کے اندر سپریم کورٹ کو ریفرنس بھجوانا ہوگا اورسپریم کورٹ کو بھی 15 روز کے اندر اندر اپنا فیصلہ سنانا ہوگا۔ اگر سپریم کورٹ وفاقی حکومت کے فیصلے کی توثیق کر دیتی ہے تو پھر آرٹیکل 16کے تحت الیکشن کمیشن اس جماعت کے ارکان پارلیمنٹ کی رکنیت کالعدم قرار دینے کا نوٹیفیکیشن جاری کرے گا اور وفاقی حکومت پارٹی کے تمام اثاثہ جات اور دفاتر پر قبضہ کرنے کی مجاز ہوگی۔
افواج پاکستان کی کارروائی کے نتیجے میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے پائوں کے تلے زمین سرکنے لگی ہے۔ اگر موجودہ پلان کسی خوف یا تھکاوٹ کا شکار ہوگیا اور اس میں تعطل آ گیا تو پھر پاکستان کا مستقبل تاریک ہو جائے گا۔ اگر ماضی کے ناقابل تسخیرقلعوں کی فصیل کو سرنگوں نہ کیا گیا تو پھر یہ وقت ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اور اگر افواج پاکستان ثابت قدم رہیں، دھونس دھمکیوں سے خائف نہ ہوئیں تو پھر پاکستان کو نئی زندگی مل جائے گی۔ قوموں کی زندگی میں ایسے مواقع بار بار نہیں آتے۔ افواج پاکستان اور جنرل راحیل شریف کی مقبولیت انتہائی حدود کو چھو رہی ہے، پوری قوم ان کی پشت پر کھڑی ہے۔ ایگزیکٹ کے خلاف نیو یارک ٹائمز میں حقائق پر مبنی رپورٹ شائع ہوتے ہی وفاقی حکومت حرکت میں آگئی اور چودھری نثار علی خان نے ہنگامی پریس کانفرنس میں اس کے خلاف فوری طور پر کارروائی کا حکم دے دیا تھا۔ نواز حکومت نے راست قدم اٹھایا، لیکن جب بی بی سی نے ایم کیو ایم کے بارے میں انتہائی اہم رپورٹ نشر کی تو نواز حکومت نے سرد مہری کا مظاہرہ کیا؛ حالانکہ یہ الزام پاکستانی میڈیا میں سامنے نہیں آیا اور الزام لگانے والا کسی مخالف پارٹی کا عہدیدار یا کسی پاکستانی ایجنسی کا اہل کار نہیں تھا بلکہ بی بی سی کے اون بینٹ جونز نے دعوے کے ساتھ ثبوت پیش کیے۔ بھارت کی 'را‘ ایجنسی کے ملوث ہونے کے شواہد موجود تھے۔ بھارت کے بارے میں ہماری وفاقی حکومت کے بعض طاقتور وزرا مبینہ طور پر نرم گوشہ رکھتے ہیں، لہذا رسمی کارروائی کے لیے برطانوی حکومت کو خط لکھ دیا گیا، حکومت نے بھارتی ہائی کمشنرکو طلب کرنا گوارا نہ کیا۔ افواج پاکستان یہ سارے مناظر بغور دیکھ رہی ہے۔
روزنامہ دنیا اسلام آباد کے ایڈیٹر ارشد رحیم لون نے جنوبی افریقہ میں حساس ادارے کے کے حوالے سے خصوصی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ ایم کیو ایم کے خلاف جنوبی افریقہ میں خفیہ کارروائی شروع ہو چکی ہے، اس جماعت کے ارکان کے خلاف منشیات کی سمگلنگ اور بھتہ خوری کے بارے میں حساس اداروں نے رپورٹس تیار کر لی ہے۔ ایم کیو ایم کے کارکن جنوبی افریقہ سے کارروائی کے لیے کراچی آتے تھے اور دو گھنٹے میں کام مکمل کر کے واپس روانہ ہو جانا ان کا معمول تھا۔ جنوبی افریقہ پارٹی کا دوسرا بڑا سیکرٹریٹ ہے جہاں اس کے35 ہزار کارکن ہیں اور ان کے سربراہ انیس قائم خانی ہیں۔
اس صورت حال کا تقاضا ہے کہ ایم کیو ایم اپنے قائد الطاف حسین کی سربراہی سے دست بردار ہو جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں