"KDC" (space) message & send to 7575

دوست ممالک کے نام سے این جی اوز کی رجسٹریشن

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے امریکی غیر سرکاری آرگنائزیشن کے پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا انکشاف کیا تھا۔ امریکہ نے پاکستان کے اس فیصلے پر شدید رد عمل ظاہر کیا اور امریکی وزارت خارجہ نے سیو دی چلڈرن پر پابندی لگانے پر پاکستان کو وارننگ دیتے ہوئے اسے پاکستان کا ہی نقصان قرار دیا۔ بعض یورپی ممالک اور کچھ بین الاقوامی اداروں نے بھی تحفظات کا اظہار کیا۔ پاکستان میں اس وقت سٹرٹیجک معاملات سمیت، سیاسی ، معاشی اور سماجی شعبوں میں ایک اندازے کے مطابق ہزاروں ملکی و غیر ملکی این جی اوز اور خیراتی ادارے کام کر رہے ہیں۔امریکہ میں نائن الیون کے واقعے سے پہلے پاکستان میں ایسی تنظیموں اور اداروں کی تعداد محدود تھی لیکن سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں ان کے پھیلاؤ میں زبردست اضافہ ہوا۔ خیال ہے کہ اس وقت ان کی تعداد ایک لاکھ سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ اقتصادی امور ڈویژن نے انکشاف کیا ہے کہ اس وقت 127 غیر ملکی این جی اوز غیر قانونی طور پر کام کر رہی ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی اور بعض غیر ملکی طاقتوں خصوصاً بھارت کی سازشوں کے ماحول میں یہ انکشاف چونکا دینے والا ہے۔ اس پس منظر میں ''سیو دی چلڈرن‘‘ کو کام سے روکنا اور پھر عجلت میں اجازت دے دینا او ر اس تنظیم کی طرف سے مشروط طور پر اپنی سرگرمیوں کی بحالی ایک ایسا معاملہ ہے جو گہرے غور و فکر کا متقاضی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر داخلہ نے صورت حال کا جائزہ لینے کے لئے اعلیٰ سطح کا اجلاس طلب کیا جس میں داخلہ، خارجہ اور اقتصادی امور کی وزارتوں اور حساس اداروں کے حکام شریک ہوئے اور مشکوک کردار کی حامل این جی اوز کے مستقبل کے بارے میں اہم فیصلے کئے گئے اور فیصلہ یہی ہو ا کہ ملک بھر میں کام کرنے والی تمام ملکی و غیر ملکی این جی اوز اور خیراتی اداروں کے کام کو منضبط کرنے کے لئے نیا قانون بنایا جائے۔ ان کی آمدنی اور اخراجات کا آڈٹ کرنے کا بھی فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ ان تنظیموں 
کے مقاصد اور حدود کا تعین کیا جائے گا اور مرکزی سطح پر ان کی رجسٹریشن کا نیا میکانزم بنایا جائے گا۔ این جی اوز ملک کے پسماندہ طبقات کی بالعموم قابل قدر خدمت کر رہی ہیں مگر سرکاری رپورٹس ظاہر کرتی ہیں کہ بعض غیر ملکی این جی اوز حکومت پاکستان کے ساتھ کئے جانے والے معاہدوں اور مفاہمت کی یاد داشتوں کی پابندی نہیں کرتیں اور بعض مقامی کرپٹ افسران کے ساتھ مل کر کئی قسم کی مالی بے قاعدگیوں کا ارتکاب کرتی ہیں۔ یہ صورت حال نہ صرف غیر ملکی بلکہ ملکی این جی اوز کے معاملات کی بھی کڑی نگرانی کا تقاضا کرتی ہے۔ انہیں اس امر کا پابند بنایا جانا چاہیے کہ وہ ڈونرز کی رقوم کو صرف انہی مقاصد کے لئے استعمال کریں جن کے لئے وہ مخصوص ہیں۔ انہیں پاکستان کی سکیورٹی کے تقاضوں اور سماجی روایات کا بھی لازماً احترام کرنا ہو گا۔ اس امر کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ ان کے معاملات میں ملک دشمن عناصر اور تخریبی قوتوں کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔ ایسی کسی این جی او کو کام کی اجازت نہ دی جائے جو اپنے مینڈیٹ سے کسی بھی نوعیت کا تجاوز کرے۔
پاکستان میں بعض این جی او ز نے ملک میں انتشار اور ذہنی طور پر ملک سے بے تعلقی کی مہم چلائی ان این جی او ز نے ملک کے ہر ادارے کو متنازعہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا اور ان کو کروڑوں روپے کی غیر ملکی امداد عدلیہ بحالی کی تحریک کے دوران مختلف ذرائع سے پہنچائی گئی ۔جنرل پرویز مشرف انتظامی طور پر مارچ 2007 ء میں ہی حکومتی رٹ سے محروم ہو چکے تھے اور ان کو امریکی سفیر اور یورپی یونین کے ممالک کے سفراء نے خوف زدہ کر رکھا تھا ۔ملک کی بد قسمتی دیکھئے کہ برطانوی ہائی کمشنر مسٹر لائل جنرل پرویز مشرف کو خواتین کی مخصوص نشستوں کے ابہام زدہ قوانین میں ترمیم کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ بطور وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن راقم نے جنرل پرویز مشرف کو تجویز بھجوائی تھی۔ الیکشن کمیشن کا نقطہ نظر یہ تھا کہ خواتین کی مخصوص نشستوں کو منتخب ارکان اسمبلی قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ان کی پارٹی تحت نامزدگیاں کی جاتی ہیں ، اس لئے ان کو Election کی بجائے Selection کہنا زیادہ مناسب ہوگا ۔ہماری تجویز یہ بھی تھی کہ پارٹی کے سربراہوں کو الیکشن کے بعد اپنی ترجیحی فہرستوں میں تبدیلی کا بھی حق دیا جائے۔جنرل پرویز مشرف کی آئینی و قانونی ٹیم کو 3 نومبر 2007 کی پلس ایمرجنسی میں اختیارات تفویض کر دئیے گئے تھے اور انہوں نے ترمیم پر آمادگی کا اظہار بھی کر دیا تھا کہ برطانوی ہائی کمشنر کو اس کی بھنک پڑ گئی۔ انہوں نے فوری طور پر مجھ سے ملاقات کی اور اس ترمیم کی مخالفت کی ۔بعد ازاں وہ صدر جنرل پرویز مشرف سے ملے اور یہ تجویز سرد خانے میں منتقل کرا دی گئی۔ برطانوی ہائی کمشنر کا پاکستان کی کم و بیش تمام سیاسی پارٹیوں سے رابطہ تھا اور ان کے آفس میں بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہ اور سول سوسائٹی کے عہدیداران کا تانتا بندھا رہتا تھا ۔
اسی پس منظر میں 8 جنوری 2008 ء کو الیکشن کی تاریخ مقرر ہو چکی تھی اور جنرل پرویز مشرف دس محرم الحرام سے پیشتر ملک میں قومی انتخابات کا انعقاد کرانا چاہتے تھے ۔ان دنوں شنید یہی تھی کہ سابق صدر پرویز مشرف نے بے نظیر بھٹو کی مشاورت سے 8 جنوری 2008ء کے انتخابات کی تاریخ مقرر کی تھی کیونکہ عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی شق 11 کے تحت قومی انتخابات کرانے کی تاریخ کے اختیارات صدر مملکت کو حاصل ہیں۔ ان ہی دنوں میں پاکستان کی بعض این جی اوز نے ملک کے الیکشن قوانین ، طریقہ کار، انتظامات اور دیگر امور میں مداخلت کرنی شروع کردی ۔ان کا مطمح نظر یہی تھا کہ پاکستان کے انتخابات کو متنازعہ بنا کر ملک میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کرا دی جائے۔ اسی دوران الیکشن کمیشن کو فیکس کے ذریعے ایک اہم دستاویز، Crisis Management جو وزارت داخلہ کا ذیلی ادارہ ہے، نے بھجوائی۔ اس میں تقریباً ایک درجن کے لگ بھگ این جی اوز کے کوائف بھجوائے جو ملک دشمنی میں پیش پیش تھیں ۔الیکشن کمیشن کو مشورہ دیا گیا کہ ان این جی اوز کی کارکردگی پر گہری نظر رکھی جائے۔ 
خفیہ رپورٹ کے مطابق کچھ سینئر حاضر سروس سویلین اور غیر سویلین افسران این جی اوز کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ اسلام آباد میں کئی وفاقی سیکرٹریز کے اہل خانہ این جی اوز سے ماہانہ خطیر مشاہرے وصول کر رہے ہیں اور انہیں پر تعیش غیر ملکی دورے بھی کرائے جاتے ہیں۔ بڑی بڑی این جی اوز کے پروگراموں کے لئے USAID، برطانیہ کا DFID اور جاپان کا JAICA وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مشاورت سے فنڈز دیتے ہیں۔ یہ سلسلہ تو سالوں سے جاری ہے اور حکومت کو بعض این جی اوز کی سر گرمیوں کے حوالے سے تحفظات بھی تھے۔ مختار مائی کا معاملہ بھی این جی اوز نے اپنے مفاد میں پاکستان کے خلاف کھڑا کیا تھا اور مختار مائی کو بھی ملالہ یوسف زئی کی طرح یورپی یونین کے بعض ممالک میں پہنچا کر اس کے فوٹو سیشن ان ممالک کے سربراہ مملکت سے کروائے گئے اور پاکستان کو ناکام ریاست بنانے کے لئے مختار مائی کو پاکستان کی فسٹ لیڈی کا پروٹوکول دیا گیا۔ یہ این جی اوز اور مافیا غیر ملکی سرمائے پر اتنا طاقتور ہو چکا ہے کہ ملکی آئین اور ضابطوں کا کوئی احترام ہی نہیں کرتا۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس ،جو 2 مئی کے ایبٹ آباد سانحہ پر طلب کیا تھا، آئی ایس آئی کے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل احمد شجاع پاشا نے رپورٹس دی تھیں کہ بیرون ملک اور خاص طور پر چار خلیجی ملکوں سے موصول ہونے والی خیراتی رقوم کاایک قابل ذکر حصہ دہشت گردی کے فروغ کے لئے استعمال ہو رہا ہے ۔
جنرل راحیل شریف نے دہشت گردی کے خلاف بھر پور مزاحمتی تحریک کا آغاز کیا ،تو ساتھ ہی اسلام آباد ، لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ میں ملکی اور غیر ملکی ایجنسیاں متحرک ہوگئیں۔ اسی طرح ایک امریکی این جی او پاکستان میں بیس سال سے کام کر رہی ہے لیکن پانچ سال قبل اس کی سرگرمیاں اس وقت مشکوک قرار پائیں جب امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اس تنظیم کے ذریعے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی رہائش گا ہ تک رسائی حاصل کی اور اس مقصد کے لئے ڈاکٹر شکیل آفریدی کے ذریعے ایبٹ آباد میں بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کی غداری پر مبنی جعلی مہم چلائی گئی۔ صدر آصف علی زرداری کی کمزور اور لنگڑاتی ہوئی حکومت کے منع کرنے کے باوجود اس کی مشکوک سرگرمیاں ختم نہ ہو سکیں۔ ملک کی انٹیلی جنس رپورٹوں کے مطابق بعض این جی اوز ملک کی وحدت کے خلاف کام کر رہی ہیں اور یہ مشکوک این جی اوز بلوچستان ، گلگت بلتستان اور حساس قبائلی علاقوں میں بھی کام کر رہی ہیں۔ اب چونکہ پاکستان عظیم تر چائنہ کے ساتھ پاک چائنہ اقتصادی کوریڈور شروع ہو چکا ہے تو چائنہ کے نام پر درجنوں این جی اوز کی رجسٹریشن ایوارڈ کرتے ہوئے ان کے پس منظر سے آگاہی ضرور ہونی چاہئے ۔ پاکستان میں امریکہ اور بھارت کی حامل تنظیمیں چائنہ کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کر رہی ہیں اور بعض نام نہاد پاکستانی دانشوروں نے بھی چائنہ کے بارے حکمت عملی تیار کر رکھی ہے۔سُویت یونین کے سقوط کے لئے یواین ڈی پی اور دیگر تنظیموں نے اہم کردار ادا کیا تھا، لہٰذا پاکستان میں دوست ممالک کے نام پر این جی اوز کی رجسٹریشن کی ممانعت ہونی چاہئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں