"KDC" (space) message & send to 7575

عوام کی نگاہیں انکوائری کمیشن پر

یکم اپریل 2015ء کو پاکستان مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے مابین مفاہمتی یاد داشت کے تحت طے پایا تھا کہ اگر انکوائری کمیشن یہ قرار دیتا ہے کہ مئی 2013ء کے عام انتخابات کے نتائج انتخاب کنند گان کے مینڈیٹ کی صحیح عکاسی نہیں کرتے تو وزیر اعظم آئین کے آرٹیکل 58 (1) کے تحت قومی اسمبلی تحلیل کر دیں گے جس کے بعد نگران کابینہ آئین کے آرٹیکل 224 اور 224-A کے تحت تشکیل دی جائے گی‘ اسی طرح چاروں صوبائی اسمبلیاں بھی تحلیل کی جائیں گی اور نگران حکومتیں قائم کی جائیں گی‘ لیکن اگر کمیشن یہ طے کرتا ہے کہ انتخابات کے نتائج میں عمومی طور پر انتخاب کنندگان کے مینڈیٹ کی درست عکاسی ہوئی تو اسمبلیاں معمول کے مطابق کام کرتی رہیں گی اور تحریک انصاف کے تمام الزامات کو واپس لیا جانا تصور کیا جائے گا۔ بادی النظر میں نادرا کی غیر جانبداری رپورٹ اور اضافی بیلٹ پیپرز کی چھپوائی کے حوالے سے بارہ حلقوں کے ریٹرننگ افسران کے جزوی اعترافی بیانات کی روشنی میں انکوائری کمیشن دوراہے پر کھڑا نظر آرہا ہے۔ متنازع ریٹرننگ افسران کا یہ موقف کہ انہوں نے اضافی بیلٹ پیپر ز چھپوا کر اپنے ریکارڈ میں محفوظ رکھے ہوئے تھے‘ سوالیہ نشان کے زمرے میں آتا ہے۔ ریٹرننگ افسران نے اتنی تعداد میں بیلٹ پیپرز چھپوانے کی ضرورت کیوں محسوس کی؟ راقم اپنے 32 سالہ تجربے کی روشنی میں اس نتیجہ پر پہنچنے میں عار محسوس نہیں کرتا کہ ریٹرننگ افسران بد نیتی یا کسی پراسرار خفیہ سیل کی ایماء پر کرپٹ پریکٹس کرتے رہے۔ ان حقائق کی روشنی میں انکوائری کمیشن صدارتی آرڈیننس کے تحت تحقیقات کے لئے ایک یا ایک سے زائد تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دینے کا فیصلہ کرے اور آئی ایس آئی، ایم آئی، ایف آئی اے اور آئی بی کے افسران سے تحقیقات کرائے اور اضافی بیلٹ پیپرز کے سیریل نمبر اور استعمال نہ ہونے کی صورت میں ان کی کاپیوں کا مکمل ریکارڈ جس قومی خزانے میں جمع کرایا گیا ہے، وہاں اس کا جائزہ لیا جائے۔
عبدالحفیظ پیرزادہ 21 دسمبر 1971ء سے ذوالفقار علی بھٹو کی ٹیم کا حصہ رہے اور انہوں نے 7 مارچ 1977 ء کے انتخابات میں منظم دھاندلی کا بھی بہت ہی قریب سے جائزہ لیا تھا کیونکہ مارچ 1977ء کے انتخابات سے چھ ماہ پیشتر ہی غالباً اکتوبر 1976ء میں وزیر اعظم ہائوس میں خفیہ طور پر الیکشن سیل کا قیام عمل میں آچکا تھا، اس خفیہ سیل میں مولانا کوثر نیازی، سردار حیات تمن اور دیگر بیوروکریٹس جن کا جھکاؤ پیپلز پارٹی کی طرف تھا‘ اہم ذمہ داریاں پوری کر رہے تھے اور وزیر اعظم بھٹو کے دست راست راؤ عبدالرشید خان وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری فضل (نام شاید درست نہ ہو، وہ مولانا مودودی کے ہم زلف تھے)‘ فیڈرل سکیورٹی فورسز کے مسعود محمود‘ وزارت داخلہ کے سیکرٹری چوہدری فضل حق اس الیکشن سیل کی معاونت کر رہے تھے۔ میرا جناب راؤ عبدالرشید خان سے برادری کا تعلق تھا اور میں نے ان سے اس خفیہ سیل کے بارے میں دریافت کیا تھا تو ان کا کہنا تھا کہ الیکشن سیل آئندہ انتخابات کے لئے پارٹی ٹکٹ حاصل کرنے والے کی حیثیت‘ اس کا علاقہ میں اثرورسوخ اور مالی حیثیت کا اندازہ لگانے کے لئے تشکیل دیا گیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالنے کے بعد 7 مارچ 1977ء کے انتخابات کی حقیقت جانچنے کے لئے جو انتخابی انکوائری کمیشن بنایا تھا‘ اس کی رپورٹ میں اس سیل کے بارے میں تعصب اور منفی انداز سے ذکر کیا گیا تھا جو حقائق کے برعکس ہے۔جناب پرویز رشید بھی میری رائے سے اتفاق کریں گے کیونکہ مارچ 1977 ء کے انتخابات کے نتیجہ میں قومی اتحاد کی احتجاجی تحریک میں وزیر اعظم ہائوس کے الیکشن سیل کو اسی انداز میں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا جس طرح نجم سیٹھی کے 35 پنکچرز کے بارے میں عمران خان مسلسل شکایت کرتے رہے ہیں، حالانکہ عمران خان نے حامد میر کے پروگرام میں اعتراف کر لیا تھا کہ یہ صرف ایک سیاسی چال تھی اور یہ کہ اس الزام کی تہہ میں کوئی صداقت نہ تھی۔
عبدالحفیظ پیرزادہ وزیر اعظم بھٹو کی اس مذاکراتی ٹیم کے اہم رکن تھے جنہوں نے قومی اتحاد کے رہنمائوں سے مارچ 1977 ء کی مبینہ دھاندلی کے نتیجہ میں احتجاجی تحریک کے دوران مذاکرات کئے تھے۔ اسی طرح 11 مئی 2013ء کے انتخابات کو دھاندلی زدہ الیکشن قرار دیا جا رہا تھا اور تحریک انصاف کی جانب سے عبدالحفیظ پیرزادہ نے اپنا مضبوط موقف جوڈیشل کمیشن کے رو برو پیش کیا۔ اب تمام نگاہیں چیف جسٹس آف پاکستان کی سر براہی میں اعلیٰ اختیاراتی انکوائری کمیشن پر لگی ہیں اور اس کا فیصلہ جولائی کے آخری ہفتے میں آنے کی توقع ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ 18جولائی کے قریب ترہی آجائے تاکہ اس کے فیصلے کی روشنی میں جو گرد و غبار اٹھے وہ عید کی تعطیلات میں ہی تھم جائے۔
حکمران جماعت اور پاکستان تحریک انصاف میں معاہدے کے مطابق اگر انکوائری کمیشن نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ انتخابات میں منظم دھاندلی الیکشن کمیشن کی کمزور قیادت کی وجہ سے ہوئی ہے اور الیکشن کمیشن، ریٹرننگ افسران اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حامی بیوروکریٹس اس میں ملوث تھے تو وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت مستعفی ہو جائے گی، پارلیمنٹ کے چاروں الیکٹورل کالجز تحلیل ہو جائیں گے اور نئے انتخابات کا انعقاد کیا جائے گا، اس کے بر عکس اگر انکوائری کمیشن نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ اس بات کا ثبوت ناکافی ہے کہ الیکشن میں منظم طریقے سے دھاندلی کی گئی ہے تو تحریک انصاف الیکشن 2013 ء کو تسلیم کر لے گی اور اس کے ساتھ ساتھ انکوائری کمیشن آئندہ الیکشن کے لئے سفارشات بھی دے گا۔ واضح رہے کہ راقم نے بطور سابق وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان اور اپنے وسیع تجربہ کی روشنی میں انکوائری کمیشن کو آئندہ کے انتخابات کو صاف شفاف بنانے کے لئے پروگریسو تجاویز بھجوائی تھیں اور مجھے یقین ہے کہ عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان اور فاضل ارکان کمیشن نے ان تجاویز کا جائزہ لیا ہو گا۔
الیکشن اور ووٹ کا معاملہ مارچ 1977ء میں وجہ تنازع تھا اور یہی 2013ء کے الیکشن میں ہے۔ 2013 ء کے الیکشن ایک کمزور‘ سیاست زدہ اور بین الاقوامی ایجنڈے کے تحت ہوئے اور نگران حکومت نے پنجاب اور سندھ کے مراعات یافتہ، سیاست زدہ اور اپنے ان حامی بیوروکریٹس کے ذریعے انتخابات کرائے جن کی وہ 1985ء سے سرپرستی کرتے آرہے ہیں‘ اس کے علاوہ نگران حکومت نے انتخابات کے نتائج اپنی خواہش و منشا کے مطابق حاصل کرنے کے لئے ایسی این جی اوز اور گیلپ سروے کروانے والی تنظیموں سے معاونت حاصل کی جن کا الیکشن کمیشن سے گہرا تعلق تھا اور ان این جی اوز کو ایک سکینڈے نیوین ملک سے لاکھوں ڈالرز کی فنڈنگ ملتی رہی۔ ایسی ہی این جی او کی مشاورت سے پنجاب کے الیکشن میں گھنائونا کھیل کھیلا گیا اور اپنے مذموم عزائم پر پردہ ڈالنے کے لئے محترم جسٹس خلیل الرحمن رمدے کی شخصیت کو متنازع بنانے کی کوشش کی گئی اور اسی این جی او کے ذریعے ریٹرننگ افسران اور پولنگ کا عملہ اپنی مرضی و منشا کے مطابق مقرر کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ جسٹس رمدے کو متنازع بنانے میں بھی اسی این جی او کا اہم کردار رہا ہے جو رائے ونڈ سے مسلسل رابطے میں رہی۔
انکوائری کمیشن کے فیصلے سے آئندہ انتخابات کی راہ کا تعین ہو جائے گا‘ خواہ اس کے فیصلے سے کسی جماعت کو بے شک مایوسی ہو۔ 1977ء میں انتخابی نتائج اس لئے متنازع ہوئے کہ وزیر اعظم بھٹو اور ان کے صوبائی وزراء اعلیٰ بلا مقابلہ (نام نہاد) منتخب ہو گئے حالانکہ چاروں صوبائی وزراء اعلیٰ عوام کی نظروں سے گر چکے تھے اور ان کی شہرت اچھی نہیں تھی۔ مسٹر بھٹو کی اس انتخابی پالیسی اور حکمت عملی کی وجہ سے ان کو اقتدار اور جان سے ہاتھ دھونے پڑے اور ان کے چاروں وزراء اعلیٰ جنرل ضیاء الحق کی محفل میں شریک ہو گئے، حالانکہ 7 مارچ 1977 ء کے انتخابات کا غیر جانبدارانہ طور پر جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت ہے کہ مسٹر بھٹو کو اس کے باوجود واضح برتری حاصل تھی۔ انکوائری کمیشن ہماری انتخابی تاریخ میں ایک بے مثال واقعہ ہے۔ تمام جماعتوں نے انکوائری کمیشن کو تسلیم کیا، تاہم اس کی ٹرمز آف ریفرنس پر دو جماعتوں یعنی حکمران مسلم لیگ (ن) اور مرکزی اپوزیشن تحریک انصاف نے دستخط کئے اور بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک نے بطور گواہ دستخط کئے، حالانکہ ایسی اہم دستاویزات کے لئے قانونی طور پر دو گواہوں کے دستخط ہونے چاہئیں تھے‘ چیف جسٹس آف پاکستان نے یقینا اس اہم پہلو کو سامنے رکھا ہوگا۔
انکوائری کمیشن کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ثبوت کی ذمہ داری کمیشن پر نہیں بلکہ ان جماعتوں پر تھی جنہوں نے بڑے پیمانے پر دھاندلی کاالزام لگایا۔ یہاں پر تحریک انصاف کو چاہئے تھا کہ معاہدہ کے مطابق جوائنٹ انکوائری کمیٹی جن میں آئی ایس آئی، ایم آئی، آئی بی اور ایف آئی اے شامل تھی‘ سے معاونت حاصل کرتی‘ مگر تحریک انصاف نے اس رخ کو نظر انداز کر دیا۔ وزیر اعظم بھٹو کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک میں سینکڑوں لوگ جاں بحق ہوئے اور کروڑوں روپے کی جائیداد نذر آتش کر دی گئی تھی‘ پھر وزیر اعظم بھٹو کی پارٹی اور اپوزیشن میں مذاکرات ہوئے لیکن بالآخر معاملہ 5 جولائی 1977ء تک آن پہنچا۔ اس کے برعکس 2014ء کی عمران خان کی زیر قیادت تحریک پُرامن اور مثبت رہی کیونکہ اس نے حکومت کو انکوائری کمیشن کی تشکیل پر مجبور کیا اور اسی طرح 28 اگست 2014 ء کو جنرل راحیل شریف نے وزیر اعظم نواز شریف کے مشورے سے عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری سے ملاقات کی۔ اگر عمران خان جنرل راحیل شریف کے اس مشورے پر عمل کرتے کہ عمران خان اپنے چھ نکاتی ایجنڈے میں سے وزیر اعظم نواز شریف کے مستعفی ہو نے کی شق نکال دیں تو دیگر پانچ نکات پر عمل در آمد کرانے کی ضمانت انہوں نے دے دی تھی۔ لیکن عمران خان ورلڈ کپ جیتنے میں مگن تھے اور بازی ہار گئے۔ جنرل راحیل شریف کی ضمانت کے نتیجے میں تشکیل پانے والا انکوائری کمیشن اور بعدازاں قائم کردہ انکوائری کمیشن میں نمایاں فرق موجود ہے۔ بہر حال اب حالات یہ رُخ اختیار کریں گے کہ انکوائری کمیشن کے فیصلے کو دونوں فریق اپنی اپنی کامیابی قرار دیں گے اور حکمران جماعت کا میڈیا سیل عمران خان کے خلاف بھر پور مہم چلائے گا جس سے عمران خان کی جماعت میں مایوسی کے اثرات سامنے آنے شروع ہو جائیں گے اور عمران خان اپنی جماعت کی ساکھ کو بچانے کے لئے 14 اگست 2014ء کی پوزیشن پر آن کھڑے ہوں گے۔ اس وقت ہمارے پاس سوچنے کا وقت ہے کہ ہماری مشکلات کس قدر بڑھیں گی۔ المیہ یہ ہے کہ حکمران جماعت اپنی انا کی خاطر عمران خان سے ٹکرا جائے گی‘ جبکہ وزیر اعظم ایسے حساس معاملات کو اپنی ترجیحات میں شامل ہی نہیں کرتے اور نہ ان کی نا اہل کابینہ کی ٹیم کے پاس اس کے تدارک کا کوئی حل موجود ہے۔ لہٰذا انکوائری کمیشن کے فیصلے کے نتائج یوں سامنے آئیں گے کہ قیام پاکستان کا مقصد جو ابھی تک ادھورا ہے‘ کی تکمیل کا وقت آ گیا ہے اور انکوائری کمیشن ہمیں ایک فیصلہ کن لمحے کے قریب لا رہا ہے کیونکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے ریمارکس کے مطابق قومی ایکشن پلان پر عمل در آمد میں حکومت سنجیدہ نہیں۔ محسوس یوں ہو رہا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے تمام مرحلے مکمل ہونے پر وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کے مابین تصادم بڑھنے کے امکانات پیدا ہو رہے ہیں اور ایم کیو ایم، تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اپنی بقا کی خاطر 2016ء میں نئے انتخابات کے لئے احتجاجی تحریک شروع کر دیں گے اور حکومت آئینی مد ت پوری نہیں کرے گی ۔ الیکشن 2013ء میں جو قومی سطح کی بے ضابطگیاں ہوئی تھیں‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ اصولی طور پر نگران وزیر اعلیٰ اپنی آئینی و قانونی ذمہ داریوں کو آئین کے آرٹیکل 224 کے مطابق پورا کرنے میں ناکام رہے اور الیکشن کمیشن بھی انتظامی طور پر مفلوج ہی رہا اور ان کا رابطہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے آئین کے آرٹیکل 218, 220 کے مطابق نہیں تھا۔ جو نہی سیاسی منظر نامہ تبدیل ہوا اور ضرب عضب کا رخ پنجاب کی طرف مڑا۔ نگران وفاقی حکومت کے دو سابق وزراء ایسی دستاویزات لے کر سامنے آئیں گے‘ ممکنہ طور پر جناب نجم سیٹھی اور سابق چیف جسٹس آف پاکستان جن کی زد میں آ جائیں گے اور فرار کے راستے ہی مسدود ہو جائیں گے۔ ان وزراء نے مجھ سے ایسی دستاویزات شیئر کر رکھی ہیں۔ وہ وقت و حالات کے منتظرہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں