"KDC" (space) message & send to 7575

ارکانِ پارلیمنٹ کے اثاثہ جات کی تحقیقات

قومی احتساب بیورو نے 150 میگا کرپشن کیسز سے متعلق فہرست سپریم کورٹ میں پیش کر دی ہے جس میں وزیر اعظم نواز شریف ، وزیر اعلیٰ شہباز شریف، ہارون اختر خان، آصف علی زرداری ، چوہدری شجاعت اور دیگر نامور شخصیات کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ اس رپورٹ کے آنے کے بعد ہر کوئی اپنے آپ کو بچانے کے چکر میں ہے۔ اندازہ ہو رہا ہے کہ بڑے بڑے تن آور درخت بھی جڑ سے اکھڑ جائیں گے اور موروثی سیاست کا صفایا ہو جائے گا۔ میگا کرپشن کیسز میں مالیات، اختیارات اور زمینوں کی خورد برد کے کیسز موجود ہیں۔ پری بار گیننگ کا پوشیدہ حصہ سامنے آگیا تو اربوں روپے کی کرپشن سامنے آئے گی۔ ان کیسز کی ابھی تحقیقات چل رہی ہے لیکن بعض سیاسی وجوہ اور میثاق جمہوریت کے تحت بہت سی اہم شخصیات پر اب بھی پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے پری بار گیننگ کا معاملہ اٹھایا تو اربوں روپے کے گھپلے سامنے آجائیں گے۔ احتساب بیورو کے سابق تجربہ کار چیئرمین کا کہنا ہے کہ اگر واقعی نیب کی کمزوریوں کو دیکھنا ہے تو پری بار گیننگ سے فائدہ اٹھانے والوں کی تفصیلات عوام کے سامنے پیش کی جائیں۔ پوری قوم سپریم کورٹ سے اس کی توقع کر تی ہے۔ 
جنرل شاہد عزیز سابق چیئر مین قومی احتساب بیورو نے ایک بار بتایا تھا کہ انہوں نے جب چیئرمین کا منصب سنبھالا تو ان کے علم میں لایا گیا کہ نواز شریف اور ان کی فیملی کے تقریباً تین سو سے زائد کیسز پرانی فلموں کے ڈبوں کی مانند خفیہ الماریوں میں بند ہیں۔ انہوں نے ان کیسز کو کھولنے کے لئے جنرل پرویز مشرف کی منظوری حاصل کرنے کے لئے ان سے ملاقات کی تو انہوں نے یہ کیسز بند رکھنے کا سختی سے حکم دیا۔ اسی بناء پر جنرل شاہد عزیز اور جنرل پرویز مشرف کے اختلافات شروع ہو گئے اور انہوں نے چند ماہ انتظار کرنے کے بعد اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ اسی طرح جنرل منیر حفیظ چیئر مین قومی احتساب بیورو نے 2006ء کے اوائل میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف اثاثہ جات میں گھپلوں کے بارے ایک مضبوط کیس تیار کروایا، اور ان پر عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 42-A اور 25-A کے تحت حقائق چھپانے کے جرم میں ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوا یا گیا۔ اس پر ان کی تا حیات نااہلی کے ساتھ ساتھ عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 82 کے تحت تین سال کی سزا ہونے کے امکانات تھے۔ نیب کی اس وقت کی انتظامیہ ہر صورت میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو سزا دلوانا چاہتی تھی، لہٰذا اس وقت کے قائم مقام چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) عبدالحمید ڈوگر نے جب نیب کے ریفرنس کا مطالعہ کیا تو مضطرب ہو گئے۔ نیب کے ڈپٹی چیئرمین حسن وسیم افضل جو نواز شریف کے دوسرے دور حکومت کے چیئرمین نیب سیف الرحمن کے ساتھ بطور ڈائریکٹر جنرل نیب کام کر چکے تھے، نے بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف کرپشن اور جائیدادیں چھپانے کے جرم کا بہت مضبوط کیس تیار کیا تھا۔ اسی دوران نیب کے چیئر مین جنرل منیر حفیظ بھی اس ریفرنس کے حوالہ سے الیکشن کمیشن پر دباؤ ڈال رہے تھے، لہٰذا میں نے چیف الیکشن کمشنر کے مشورے سے اس اہم ریفرنس کو فوری طور پر صدر پرویز مشرف کے نوٹس میں لانے کا فیصلہ کیا اور جب انہیں اس ریفرنس کے مضمرات سے آگاہ کیا تو اتفاق سے نیب کی قیادت تبدیل ہو گئی اور جنرل شاہد عزیز چیئرمین نیب مقرر ہو گئے، لہٰذا راقم نے جنرل شاہد عزیز کو بھی اعتماد میں لیا کہ اگر بے نظیر ریفرنس میں الیکشن کمیشن فریق بن گیا تو آئندہ انتخابات کے انعقاد کے لئے ملک کی سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کا اعتماد الیکشن کمشن پر سے اٹھ جائے گا۔ میں نے جنرل شاہد عزیز کی توجہ عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 82 کی طرف مبذول کراتے ہوئے ان کو بریف کیا کہ اس شق کی رو سے الیکشن کمیشن عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی شق 42-A اور 25-A کے مطابق مقدمہ درج کرانے کا مجاز نہیں ہے اور یہ حق عام شہری کو دیا گیا ہے کہ وہ اپنے طور پر عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی شق82 کے تحت متعلقہ ضلع کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت میں مقدمہ درج کرانے کا مجاز ہے۔ جنرل شاہد عزیز نے میرا موقف جاننے کے بعد بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف نیب کے تیار کردہ ریفرنس کو الیکشن کمیشن سے واپس منگوا لیا اور پھر نیب کی طرف سے ان کے خلاف اسلام آباد کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت میں مقدمہ درج کرا دیا گیا، جو بعد ازاں این آر او کی وجہ سے خارج ہو گیا۔ 
ممتاز صحافی رؤف کلاسرا نے اپنے کالم میں بینکوں سے قرضے معاف کرانے کے بارے میں نواز شریف اور میاں محمد شریف صاحب کے بارے میں لکھا ہے کہ انہوں نے صدر فاروق لغاری سے گلہ کیا کہ نگران حکومت نے ایک ایسی شق رکھ دی ہے جس کے تحت وہ سیاستدان الیکشن نہیں لڑ سکتے جنہوں نے بینکوں سے قرض معاف کرا رکھے ہیں، براہ کرم یہ شق حذف کرا دیں۔ میں قارئین کو اس کا پس منظر مختصراً بتاتا چلوں، دراصل ملک معراج خالد نگران وزیر اعظم میاں برادران کی خواہش پر مقرر کئے گئے تھے۔ ملک معراج خالد کا نام عابدہ حسین نے دیا تھا جب کہ سردار فاروق خان لغاری میر ظفر اللہ جمالی کو نگران وزیراعظم بنانے کے خواہش مند تھے اور سردار فاروق لغاری نے 6 نومبر 1996ء کو بے نظیر بھٹو کی حکومت کو آئین کے آرٹیکل 58/2/B کے تحت تحلیل کرنے کے فوراً بعد قوم سے خطاب کے دوران وعدہ کیا تھا کہ جن سیاستدانوں نے 1985ء کے بعد قرضے معاف کرائے، ان کو 3 فروری 1997ء کے انتخابات میں حصہ لینے کی قانونی طور پر ممانعت کر دی جائے گی۔ اپنی نشری تقریر کے چند روز بعد انہوں نے پہلی مرتبہ کاغذات نامزگی کے فارموں میں ترمیم کرنے کا آرڈیننس جاری کر دیا جس کے مطابق عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 12 میں ترمیم کرتے ہوئے یہ شق رکھی گئی کہ جو 1985ء سے بینکوں اور مالیاتی اداروں کے نادہندگان ہیں اور انہوں نے قرضے معاف کرائے ہیں ان کو نااہل قرار دیا جائے گا۔ صدر فاروق خان لغاری کے آرڈیننس کی روشنی میں اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر سردار فخر عالم نے تمام ریٹرننگ افسران کو ایسی شخصیات کی فہرست بھجوا دی جن میں میاں برادران ، چوہدری برادران اور پیپلز پارٹی کی اہم شخصیات شامل تھیں۔ اس صدارتی حکم نامہ کے تحت میاں برادران اور دیگر اہم شخصیات 3 فروری 1997ء کے الیکشن سے باہر ہوتے نظر آرہے تھے۔
لیکشن کمیشن میں بعض ایسی اہم شخصیات اہم عہدوں پر فائز تھیں جن کا میاں نواز شریف اور شہباز شریف سے گہرا تعلق تھا۔ انہوں نے میاں برادران کو خوف میں مبتلا کر دیا کہ صدارتی آرڈیننس کی روشنی میں میاں برادران ہمیشہ کے لئے نا اہل ہو جائیں گے، لہٰذا میاں برادران نے ملک معراج خالد کے ذریعے سردار فاروق لغاری پر دباؤ ڈالا جس کا تفصیل سے رؤف کلاسرا نے ذکر کیا ہے! جب صدر فاروق خان لغاری نے الیکشن لاء میں تبدیلی کا بل کابینہ سے منظور کروانے کے لئے سمری بھجوائی تو کابینہ میں بعض لوگوں نے جن میں ارشاد احمد حقانی مرحوم ، نجم سیٹھی اور شاہد حامد شامل تھے، خاموشی اختیار کر لی لیکن وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم نے شدید مخالفت کی اور کابینہ کے پہلے اجلاس میں اس کی منظوری التواء میں پڑ گئی۔ ادھر الیکشن کمیشن کے شیڈول کے مطابق کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا وقت قریب آن پہنچا تھا اور صدارتی آرڈیننس کے مطابق میاں برادران کاغذات نامزگی داخل کرانے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ اسی دوران جسٹس فخر الدین جی ابراہیم نے چیف الیکشن کمشنر سردار فخر عالم سے رابطہ کیا اور صدارتی آرڈیننس میں ترامیم نہ کرنے پر زور دیا۔ سردار فخر عالم کا موقف تھا کہ الیکشن کمیشن زمینی قانون کے مطابق عمل درآمد کرانے کا پابند ہے۔ بعد ازاں جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم نے صدر فاروق خان لغاری سے آخری ملاقات کی اور احتجاجاً مستعفی ہو گئے اور اس طرح ملک معراج خالد نے صدارتی آرڈیننس میں ترامیم کرائیں۔ اسی وجہ سے آج پاکستان سے کھربوں روپے غیر ممالک میں بھجوائے جا چکے ہیں اور سیاست میں کرپشن کے دروازے کھل گئے ہیں۔ بدقسمتی سے جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم 11 مئی 2013ء کے انتخابات کے موقع پر اپنی اصول پسندی کو برقرار نہ رکھ سکے۔ اب وہ بستر علالت پر ہیں؛ تاہم کسی طرح اگر پریس کانفرنس کے ذریعے صحیح حقائق قوم کو بتا دیں تو قوم ان کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔ 
قومی احتساب بیورو کے چیئر مین لیفٹینٹ جنرل منیر حفیظ کی خواہش تھی کہ پارلیمنٹ کے ارکان کے اثاثہ جات کی جانچ پڑتال کے اختیارات قانونی طور پر نیب کو تفویض کئے جائیں۔ اس مقصد کے لئے میرے جنرل منیر حفیظ اور ان کی ٹیم سے مذاکرات بھی ہوئے۔ نیب نے قانون سازی کے لئے جو ڈرافٹ الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا،اس کے بارے میں الیکشن کمیشن کا موقف تھا کہ نیب براہ راست وزارت پارلیمانی امور کے ذریعے قانون سازی کرالے، الیکشن کمیشن سے جب حکومت رائے مانگے گی تو الیکشن کمیشن نیب کے موقف کی تائید کر دے گا۔ نیب کے سابق چیئر مین ایڈ مرل فصیح بخاری نے بھی اس طرح کے اختیارات حاصل کرنے کے لئے جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم کو قائل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے اور الیکشن کمیشن نے اس میں فریق بننے سے معذوری کا اظہار کر دیا۔ میں نے گذشتہ ماہ ایک ریفرنس نیب کے چیئر مین قمر الزمان چوہدری کو بھجوایا تھا کہ ملک کے موجودہ تناظر کے حوالے سے پارلیمنٹ کے ارکان کے اثاثہ جات کے گوشواروں کی جانچ پڑتال کے اختیارات نیب کو ملنے چاہئیں۔ اگر پارلیمنٹ ارکان کے گوشواروں کی جانچ پڑتال کے اختیارات نیب کے سپرد کر دیئے جائیں تو پاکستان میں کرپٹ سیاستدانوں کا تصور معدوم ہو جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں