"KDC" (space) message & send to 7575

پاکستان کنفیڈریشن کی طرف جا رہا ہے؟

18 فروری 2008ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی، اس نے 18 ویں ترامیم کے حوالے سے آئین کو اپنی اصل حالت میں واپس لانے کے لئے ایک پارلیمانی کمیٹی قائم کی جس کے سربراہ سینیٹر رضا ربانی مقرر ہوئے۔ سیاسی حلقوں میں انہیں عزت کی نگا ہ سے دیکھا جاتا ہے کہ ان کے والد بزرگوار عطا ربانی قائد اعظم کے اے ڈی سی رہے تھے۔ رضا ربانی خود بھی غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ 1973ء کا دستور مرتب کرنے میں ملک جعفر اور عبدالحفیظ پیرزادہ کی معاونت کرتے رہے تھے۔ رضا ربانی صاحب نے دستور میں دس بڑی بڑی ترامیم کرنے کے بجائے دستور کی کم و بیش ایک سو سے زائد شقیں اس طرح تبدیل کر ڈالیں کہ پورا آئینی ڈھانچہ ہی ترامیم کی زد میں آگیا۔ آئینی اصلاحاتی کمیٹی نے اس امر کا سختی سے اہتمام کیا کہ اس حوالے سے جو بڑے بڑے فیصلے ہو رہے تھے ان سے میڈیا، سیاسی رہنمائوں‘ وکلا اور عوام کو بے خبر رکھا گیا۔ چھ ماہ رازداری میں گزر گئے جو بین الاقوامی مسلمہ آئینی اصولوں کی صریحاً خلاف ورزی تھی۔ آئینی اصلاحات کمیٹی نے ترامیم کا ڈرافٹ اچانک قومی اسمبلی میں پیش کر دیا۔ اس دوران راقم نے جناب اسحاق ڈار اور چوہدری نثار علی خان سے ہنگامی ملاقات کی اور ان کو آگاہ کیا کہ آئینی ترامیم کی بعض شقوں سے فیڈریشن کے اختیارات محدود ہو کر رہ جائیں گے‘ فیڈریشن کا تصور ختم ہوتا نظر آ رہا ہے‘ پاکستان شیخ مجیب الرحمن کے فارمولے کے مطابق کنفیڈریشن کی طرف جا رہا ہے اور جنرل پرویز مشرف کی مخالفت کی آڑ میں ملک کی وحدت کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ جناب اسحاق ڈار اور چوہدری نثارعلی خان کا موقف یہ تھا کہ انہوں نے آئینی اصلاحات کمیٹی کی تجاویز کی منظوری دے 
دی ہے، اب چونکہ ڈرافٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا جا چکا ہے اس لیے موقف بدلنے کا وقت گزر چکا ہے۔ میں نے تجویز پیش کی کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سرگرم ارکان عابد شیر علی اور خواجہ سعد رفیق کے ذریعے پوائنٹ آف آرڈر پیش کروادیں، لیکن مفاہمت کی پالیسی اور میثاق جمہوریت کے تحت انہوں نے ایسا کرنے سے معذوری ظاہر کردی۔ آئینی اصلاحات کمیٹی کا بل کسی با معنی بحث کے بغیر منظور کر لیا گیا۔ یہی عمل سینیٹ میں دہرایا گیا۔ لگتا ہے کہ پارلیمان کے بیشتر ارکان آئینی اصلاحات کے معاملات سے بے خبر رہے‘ وہ جان ہی نہ پائے کہ انہوں نے فیڈریشن کے حوالے سے کیسی ترامیم منظور کی ہیں۔ وفاق کے زیادہ تر اختیارات اور وسائل چشم زدن میں صوبوں کو منتقل کردیے گئے۔ اب صوبوں کے پاس وافر وسائل ہیں، مگر ان میں بروئے کار لانے کی صلاحیت موجود نہیں۔ کرپشن کا بازار گرم ہے، ملازمتیں کھلے عام نیلام ہو رہی ہیں۔ جرائم پیشہ عناصر نے سیاسی جماعتوں کے اندر پناہ لے رکھی ہے اور وفاقی ادارے ان پر ہاتھ ڈالتے ہیں تو ہنگامہ آرائی ہوتی ہے کہ صوبائی خود مختاری میں مداخلت ہو رہی ہے۔ اگر آئین کی روح کا جائز ہ لیا جائے تو محسوس ہو گا کہ پاکستان فیڈریشن سے کنفیڈریشن میں تبدیل ہو رہا ہے۔ صوبے قدم قدم پر وفاق کو چیلنج کر رہے ہیں۔ قومی ایکشن پلان پر عمل در آمد نہیں ہو رہا۔ وفاق انتہائی نامساعد حالات کے باوجود ایک طویل عمل سے گزرے بغیر گورنر راج نہیں لگا سکتا۔18ویں ترمیم سے الیکشن کمیشن کمزور ادارہ بن کر رہ گیا اور انتخابات میں بے ضابطگیوں کا دروازہ کھل گیا۔ مختصر یہ کہ اٹھارویں ترمیم سے قوم کے وجود کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ بعض رہنما وزیر اعظم نواز شریف کو اندلس کے آخری بادشاہ ابو محمد کی راہ پر پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے انکوائری کمیشن کی رپورٹ نے مئی 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ اب نواز شریف کو میثاق جمہوریت کے چُنگل سے آزاد ہونا چاہئے۔
اب سپریم کورٹ قومی احتساب بیورو کی کارگزاری کا جائزہ لے رہی ہے۔ ہمارے خیال میں اس معاملے کا دار و مدار سپریم کورٹ کے معزز ججوں کی اس صلاحیت پر ہے کہ وہ کس طرح ہماری تباہی کا باعث بننے والی بد عنوانی کا کھوج لگاتے ہوئے اس ریکارڈ کی تہہ تک جاتے ہیں‘ جو ان کے سامنے احتساب بیورو کی طرف سے پیش کیا جا رہا ہے۔ ماضی اور حال کی روش کو دیکھا جائے تو ہو سکتا ہے‘ یہ ریکارڈ جتنا ظاہر ہوا ہے، اتنا پوشیدہ بھی رکھا گیا ہو۔ اس صورت حال میں قوم کو اپنے معزز جج صاحبان کی دیانت داری ، حب الوطنی اور ذہانت پر بھروسہ کرنا چاہئے کہ وہ ملک کے کرپٹ سیاستدانوں سے درست سوالات پوچھتے ہوئے بد عنوان اور ملک کے معاشی غداروں کی دکھتی رگ پر انگلی رکھیں گے۔ اگر درست سمت کی طرف بڑھایا گیا تو قوم کو معلوم ہو جائے گا کہ بد عنوان افراد کسی کم سنگین جرم کا اعتراف کرکے زیادہ سنگین جرائم میں پکڑے جانے سے بچ جاتے ہیں۔ قرون وسطیٰ میں چرچ کے معافی ناموں سے اسی طرح استفادہ کیا جاتا تھا۔ یورپ میں کیتھولک چرچ کی طرف سے گناہوں کے معافی نامے فروخت کئے جاتے تھے۔ اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گناہ گار اپنے گناہوں کی سزامیں تخفیف کرا سکتے تھے۔ اس وقت یورپ میں سیاسی افرا تفری اور مالی بدعنوانی کا دور دورہ تھا۔ خرابی اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ بعض صورتوں میں جرم کرنے سے پہلے بھی معافی نامہ حاصل کیا جا سکتا تھا۔ اس تاریک دور کی بد عنوانی نے آج کے ''روشن‘‘ دور میں بھی ہمیں گھیرے میں لے رکھا ہے۔ بعض اوقات سرکاری طور پر اور بعض اوقات ریکارڈ سے بالا ہی بالا خفیہ طریقے سے بد عنوان افراد کو معاف کردیا جاتا ہے‘ ان کے جرائم سے دانستہ چشم پوشی کی جاتی ہے۔ بد عنوانی اور جرائم سے سمجھوتہ کرنے کی اس پالیسی نے آج پاکستان کی معیشت اور سیاست کو ناکامی کے اندھے کنویں میںدھکیل دیا ہے۔ احتساب بیورو بد عنوان افراد کے ساتھ کی جانے والی سودے بازی پر پردہ ڈالتا ہے۔ قوم کو یہ مطلق نہیں بتایا جاتا کہ کن معاملات پر سودے بازی ہوئی اور نہ ہی قوم کے علم میں یہ لایا جاتا ہے کہ احتساب بیورو کے ساتھ طے پانے والی سودے بازی کے نتیجے میں معاملات صاف کرانے والوں نے قسطیں جمع کرائی ہیں یا نہیں۔ اگر کرائی ہیں تو کتنی۔ ان وجوہ کی بنا پر احتساب بیورو‘ طاقتور اور با اثر افراد سے چشم پوشی کرنے اور انہیں رعایت دینے کا الزامات کی زد میں رہا ہے۔
نیب نے سپریم کورٹ میں ایک سو پچاس میگا کرپشن کیسز کی تفصیلات پیش کیں تو ان گروپوں میں ہلچل مچ گئی اور مختلف افراد کی جانب سے نیب پر تنقید کی جانے لگی۔ پاکستان کی معیشت کو زنگ آلود کرنے میں ان کا اہم کردار ہے۔ انہوں نے اپنے ملک کو لوٹنے اور سرمایہ دبئی میں لگانے کی روش اختیار کر رکھی ہے... لیکن اب احتساب کا عمل نیب اور سپریم کورٹ کے توسط سے قوم کی آرزو کے مطابق ہو گا۔ کرپشن زدہ سیاستدان بے شک اپنے پیشہ ور دوستوں کے ذریعے 'جمہوریت خطرے میں ہے‘ کا واویلا کرتے رہیں۔ عوام اب خونیں انقلاب کی طرف بڑھ رہے ہیں جس کا ذکر چند ماہ پیشتر شہباز شریف نے ہوا میں کورے کاغذات لہراتے ہوئے کیا تھا۔ 
پاکستان پر حکمرانی کرنے والوں کی رنگین داستانیں ہوش ربا ہیں۔ کچھ 30 ہزار کنال پر شاہی قلعہ لاہور کی مانند اپنی پناہ گاہ بنا چکے ہیں۔ کچھ دو سو کنال پر محیط 48 کروڑ روپے کے محل میں مقیم ہیں۔ وہ اس کے علاوہ پارک لین اور برکلے سٹریٹ لندن، ہائیڈ پارک کے ارد گرد اور سنٹرل لندن میں جائیدادوں کے مالک بھی ہیں۔ کھربوں روپے کا کا لا دھن بقول مظہر برلاس‘ این آر او کی واشنگ مشین میں دھل چکا ہے۔ یہاں 30 بڑے خاندان سیاہ سفید کے مالک ہیں۔ 25 ارب ڈالر پاکستان کی سولہ شخصیات کے پاس ہیں۔ قائد اعظم کے پاکستان پر حکمرانی کرنے والوں کو چاہیے کہ قائداعظم کے اصولوں کو بھی مد نظر رکھیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں