"KDC" (space) message & send to 7575

انکوائری کمیشن رپورٹ پر ایک نظر

وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ عام انتخابات منصفانہ، شفاف اور آزاد تھے۔ مبینہ دھاندلی کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آچکی جس نے حکومتی موقف کی تصدیق کردی ہے۔اب الزامات اور بہتان تراشی کا باب ہمیشہ کے لئے بند ہونا چاہئے۔
انکوائری کمیشن کی رپورٹ میںکہاگیا ہے کہ جن ووٹوں کی تصدیق نہیں ہوئی انہیں چیئرمین نادرا نے جعلی نہیں کہا، لیکن ووٹوںکوجائز بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔کمیشن نے نادرا کی رپورٹس اورانمٹ سیاہی کے بارے میں کہا ہے کہ کمیشن کی ہدایت پر نادرا نے 15قومی اور23 صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں پر رپوٹس جمع کرائیں۔ نادرا، پی سی ایس آئی آر اور الیکشن کمیشن نے انگوٹھوں کی تصدیق کے لئے جو مقناطیسی سیاہی تیارکرائی وہ یا تو غیر موثر تھی یا نادرا کے پاس سیاہی ٹیسٹ کرنے کے آلات نہیں تھے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نادرا اور الیکشن کمیشن ایسی سیاہی تیار کرنے میں ناکام رہے جو اصل ووٹرکی شناخت کر سکے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مقناطیسی سیاہی کی افادیت کے حوالے سے نادرا اور الیکشن کمیشن کے موقف میں فرق ہے۔ الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری اشتیاق خان کا کہنا ہے کہ مقناطیسی سیاہی تیارکرنے کا مقصد انتخابی فہرستوں پر انگوٹھوںکی تصدیق کرنا تھا نہ کہ بیلٹ پیپرزکی کائونٹر فوائلز کی۔ الیکشن کمیشن کے ایڈیشنل سیکرٹری شیرافگن نے اس امرکی تصدیق کی کہ پی سی ایس آئی آر نے جو سیاہی تیارکی اس میں مقناطیسیت کا عنصر شامل تھا؛ تاہم چیئرمین نادرا عثمان مبین نے انکشاف کیا کہ انگوٹھوں کی تصدیق کے لئے فرق نہیں پڑتاکہ سیاہی مقناطیسی ہے یا نہیں، نادرا کے پاس مقناطیسی سیاہی یا غیر مقناطیسی سیاہی کی تمیز کرنے کے لئے مہارت یا آلات نہیں ہیں۔ انکوائری کمیشن نے قرار دیا کہ یہ ایک اہم معاملہ ہے جسے حل کیا جانا چاہئے۔
بحث طلب معاملہ یہ ہے کہ منظم دھاندلی کی بحث کا آغاز تو مقناطیسی سیاہی کی تیاری سے ہوا۔ مقناطیسی سیاہی کی میعاد چھ گھنٹے تھی جبکہ پولنگ کے اوقات نوگھنٹے اور بعض مقامات پر دس سے بارہ گھنٹے تھے۔ انکوائری کمیشن کو نادرا کا موقف بھی بین الاقوامی اداروں سے تصدیق کرانا چاہئے تھا، بالخصوص جب نادرا نے انگوٹھوں کی جانچ پڑتال میں پر اسراریت برقرار رکھی۔ الیکشن کمیشن کو دوراہے پرکھڑا کرنے کی ذمہ داری نادرا پر عائد ہوتی ہے کیونکہ الیکشن کمیشن کے پاس انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وہ سہولتیں نہیں جو نادرا کے پاس موجود ہیں۔ الیکشن کمیشن نادرا سے ہی مقناطیسی سیاہی اور بیلیٹ پیپرکے کاغذ کے بارے میں ماہرانہ رائے طلب کرتا رہا۔ انتخابی ریکارڈ کے مطابق ووٹنگ کا ٹرن آؤٹ55 فیصد کے لگ بھگ رہا۔ اس صورت میں لاکھوںکے حساب سے اضافی بیلٹ پیپرز چھاپنے کی وجہ سامنے آنی چائیے تھی۔ الیکشن کمیشن میں زائد بیلٹ پیپرز چھاپنے کا فارمولہ طے کرنے کی حکمت عملی کا فقدان تھا۔ الیکشن کمیشن کو 1985ء سے 2008 ء تک کے انتخابات کا فارمولہ مدنظر رکھنا چاہئے تھا۔
انکوائری کمیشن کی رپورٹ تحریک انصاف کی اخلاقی اور انتخابی شکست ہے۔ عمران خان کو ادراک ہی نہ ہوسکاکہ ان کی قانونی ٹیم بے شمار شواہدکو نظر اندازکرتی رہی۔کمیشن کی رپورٹ کے نتیجے میں حکومت کو ازسر نو مینڈیٹ مل گیا اوریہ عوام میں بھی مقبول ہو گئی۔ اس کا فوری اثر بلدیاتی انتخابات پر پڑے گا جن میں عمران خان کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ عوام اپنے حلقوں میں کام کروانا چاہتے ہیں اور وہ موجودہ حکومت کی طرف ہی دیکھیں گے۔ عوام یہ بھی محسوس کر سکتے ہیں کہ تحریک انصاف دو سال سے انتخابی دھاندلی پر سیاست کر رہی تھی، انکوائری کمیشن کی رپورٹ سے اس سیاست کو شدید جھٹکا لگا۔ دراصل عمران خان کو قانونی دستاویزات تیار کرنے کے تجربے سے نا آشنا اسد عمرکی سربراہی میں حکومتی مذاکراتی ٹیم سے مل کر انکوائری کمیشن کی ٹرمز آف ریفرنس تیار کرنے کے فرائض سپرد نہیں کرنے چاہیے تھے۔ عمران خان کی لیگل ٹیم بھی ٹرمز آف ریفرنس کے مضمرات کی تہہ تک نہ پہنچ سکی جبکہ حکومتی ٹیم نے بڑی مہارت سے ٹرمز آف ریفرنس میں انکوائری کمیشن کے اختیارات کی طاقت نکال دی۔ عمران خان کو تواسی دن شکست ہوگئی تھی جس دن انہوں نے ٹرمز آف ریفرنس پر دستخط کر دیے تھے۔
وزیر اعظم نواز شریف کو اپنی نشری تقریر میں نگران حکومتوں کی کارکردگی کا بھی ذکر کرنا چاہئے تھا۔ بہرحال ، اب انکوائری کمیشن نے انہیں2018 ء تک حکومت کرنے کا مکمل قانونی جواز فراہم کر دیا ہے۔ اس کا کریڈٹ نگران حکومتوں کو بھی جانا چاہئے کیونکہ مئی 2013ء کے انتخابات نواز شریف کی نگرانی میں نہیں ہوئے تھے بلکہ ان کی جماعت ان انتخاب میں حصہ لے رہی تھی۔ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے وزرا کو احتیاط کا دامن تھامے رکھنا چاہیے اور قانونی جوازکی آڑ میں اپنے مخالفین کو تضحیک کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔ 
ملک میں میگاکرپشن کے معاملات نیب اور سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔ کراچی میں ایم کیو ایم کا معاملہ بہت حساس نوعیت کا ہے۔ ملک سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے اور اس کے ساتھ وزیر اعظم نواز شریف اور شہباز شریف کے علاوہ چند اہم وزرا کے خلاف سانحہ ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ درج ہو چکا ہے۔ بلا شبہ انکوائری کمیشن کے فیصلے کے بعد نوازشریف زیادہ طاقتور بن کر سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے قوم سے خطاب کر کے سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ نہیں کیا، انہیں یہ خطاب پارلیمنٹ میںکرنا چاہئے تھا۔ انہیں چاہیے کہ وہ اپنی پارٹی اور سیاسی حامیوں کو عمران خان کے خلاف تضحیک آمیز رویہ اختیارکرنے سے روکیں، ایسا نہ ہو کہ عمران خان کے نوجوان حامی مایوس ہوکر سڑکوں پہ نکل آئیں اور حکومت کو مفلوج کرکے رکھ دیں۔ اب رانا ثناء اللہ کی فیصل آباد قسم کی حکمت عملی کام نہیں آئے گی اور نہ ہی ماڈل ٹائون جیسا سانحہ دوبارہ برپا کرنے کی گنجائش ہے۔
انکوائری کمیشن نے ایک صفحہ اور دو سطروں پر محیط تاریخی فیصلہ سنا دیا۔ اب انتخابی نتائج پر شکوک کا اظہارکرنے والی جماعتوںکو الزامات کی سیاست سے نکل کر ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے کام کرنا چاہئے۔ عمران خان کو بھی پارلیمنٹ میں اپوزیشن رہنماکی حیثیت سے حکومت کی خامیوں، کرپشن اور پاک چائنا اقتصادی راہ داری اور ملک میں بگڑتی ہوئی امن و امان کی صورت حال پر اپنا پارلیمانی کردار ادا کرنا چاہیے۔ انکوائری کمیشن نے سب کو کشیدگی سے نکلنے کا راستہ دے دیا ہے جس سے فائدہ اٹھایا جانا چاہئے۔
انکوائری کمیشن نے فارم15 کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں تسلیم کیا ہے کہ 35 فیصد فارم تھیلوں سے غائب تھے۔ اس کے علاوہ بہت سے فارم15 موزوں طریقے اور قانون کے مطابق پر نہیں کئے گئے تھے، فارم15 پاکستان بھر میں تھیلوں سے غائب تھے۔ انکوائری کمیشن نے اپنے ریمارکس میں جو کچھ کہا وہ بظاہر قانون سے مطابقت نہیں رکھتا کیونکہ عوامی نمائندگی ایکٹ76 کی دفعہ38 کے تحت یہ اہم دستاویزات تصورکی جاتی ہیں اور ان کا 35 فیصد تھیلوں سے غائب ہونا اہم واقعہ ہے جسے سرسری انداز میں لینا مناسب نہیں تھا۔
2013 ء کے الیکشن میں انتخابی بد نظمی اور بے قاعدگیوں کی ذمہ داری وزارت قانون و پالیمانی امور پر عائد ہوتی ہے۔ اگر صدر آصف علی زرداری کی حکومت 2013 ء کے انتخابات سے پیشتر الیکشن کمیشن کی نشاندہی پر انتخابی کمزوریاں دورکر دیتی توانتخابات میں بدنظمی روکی جا سکتی تھی۔ الیکشن کمیشن کی بار بار یاد دہانیوں کے باوجود زرداری حکومت نے الیکشن کمیشن کی سفارشات کو نظر اندازکیا۔ اب انتخابی اصلاحات کمیٹی کو چاہیے کہ ملک میں جامع، فعال اور مؤثر انتخابی اصلاحات کے لئے کام کرے۔ 
انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں ابہام پائے جاتے ہیں۔ انکوائری کمیشن نے تسلیم کیا ہے کہ اضافی بیلٹ پیپرزکی نمبرنگ اور بائنڈنگ کے ضمن میں پیش کئے گئے ثبوت موزوں معیار کے ہیں نہ تحقیقات فوجداری ٹرائل تھی۔ انکوائری کمیشن نے الزامات کے ثبوتوں کی ذمہ داری تحریک انصاف پر ڈال دی جو درست نہیں کیونکہ ٹرم آف ریفرنس کے تحت انکوائری کمیشن کو بے پناہ اختیارات حاصل تھے، وہ اگر چاہتے تو آئی ایس آئی، ایم آئی، آئی بی اور ایف آئی اے سے تحقیقات کروانے کا حکم دے سکتی تھی۔ 17 اگست کے بعد انکوائری کمیشن کے بارے میں بڑے بڑے حقائق سامنے آئیںگے۔ حکومتی وزرا جس انداز سے سرگوشیاںکر رہے ہیں وہ وزیر اعظم نواز شریف کے نادان خیر خواہ ہیں۔ انکوائری کمیشن کی رپورٹ بادی النظر میں ساڑھے آٹھ کروڑ ووٹرز اور تقریباً اٹھارہ کروڑ عوام کے جذبات کی عکاسی نہیں کرتی۔ انکوائری کمیشن کو ان حلقوں میں از سر نو انتخابات کی سفارش کرنی چاہیے تھی جن میں فارم15نہیں تھے، جن میں اضافی بیلیٹ پیپرز استعمال کئے گئے اور جن حلقوں میں راتوں رات پولنگ سٹیشن تبدیل کر دیے گئے۔ عمران خان نے انکوائری کمیشن کی رپورٹ کو من و عن تسلیم کر کے مئی2013 ء کے انتخابات کے جواز پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں