"KDC" (space) message & send to 7575

انکوائری کمیشن کی تشکیل اور آئین

انکوائری جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ میں بادی النظر نظریہ ضرورت کی فلاسفی کا پیرا گراف 534 کے تناظر میں بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے جس میں پاک چین راہداری منصوبے کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ نتائج نکالے گئے کہ اگر رپورٹ کے نتائج حکومت کے خلاف چلے تو مملکت پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوں گے! نظر بظاہر میں انکوائری کمیشن نے فیصلے میں جسٹس منیر کے فلسفہ کو مد نظر رکھا۔ جسٹس منیر نے آئین ساز اسمبلی کے تحلیل ہونے کے فیصلے کو پاکستان کے وسیع تر مفاد میں درست قرار دیا تھا۔
تاہم انکوائری کمیشن نے 237 صفحات پر مشتمل دستاویز میں جن بے قاعدگیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کی اور جن اقدامات کی ضرورت اجاگر کی ہے، ان کے حوالے سے چیف الیکشن کمشنر سردار محمد رضا نے انتہائی ایماندار اور اچھی شہرت کے حامل بیوروکریٹ سیکرٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب کی سر براہی میں تین ایڈیشنل سیکرٹریوں کو مختلف ونگز کا ہیڈ مقرر کر کے انہیں اہم ذمہ داریاں تفویض کر دی ہیں۔ الیکشن کمیشن میں پہلی مرتبہ ارکان الیکشن کمیشن کی سربراہی میں نیشنل رابطہ کمیٹی کی تشکیل بھی خوش آئند ہے۔ اس سے الیکشن کمیشن کی کارکردگی بہتر ہو جائے گی اور بے قاعدگیوں اور کوتاہیوں کا ازالہ ہو جائے گا۔چیف الیکشن کمشنر نے ارکان الیکشن کمیشن سے انتظامی امور کے متعلق اختیارات واپس لے لئے ہیں، جس سے یونٹی آف کمانڈ فعال ہو جائے گی۔ ویسے بھی پارلیمنٹ ایکٹ کی عدم موجودگی میں چیف الیکشن کمشنر انتظامی اور مالیاتی فیصلوں پر ارکان الیکشن کمیشن سے مشاورت کے پابند نہیں۔
انکوائری کمیشن کی رپورٹ کے بعد حکمران جماعت کو مستقبل قریب میں کوئی چیلنج درپیش نظر نہیں آتا ، اب آئندہ انتخابات کو ہر قسم کے شکوک سے بالاتر اور شفاف بنانے کے لئے آئین اور متعلقہ قوانین میں ترامیم لانا ہیں۔ اس ضمن میں تمام پارلیمانی پارٹیوں کو متفقہ فیصلہ کرتے ہوئے انتخابی نظام میں جامع اصلاحات کرنا ہوں گی۔ وفاقی وزیر خزانہ و اقتصادی امور اسحاق ڈار اور زاہد حامد نے پارلیمانی کمیٹی کی 13 آئینی اور 6 انتخابی قوانین میں ترامیم کی سفارشات سے اتفاق کیا ہے جن کے تحت انتخابی کمیٹی چھ انتخابی قوانین کو ضم کرکے ایک جامع قانون بنا رہی ہے۔ جن آئینی ترامیم پر اتفاق کیا گیا ہے ان میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد 120 دن میں کرانے ، الیکشن کمیشن کو مزید با اختیار بنانے، انضباطی کارروائی کا اختیار دینے، حلقہ بندیوں ، نادرا کی دستاویزات کے مطابق ووٹرز کے اندراج، پولنگ سٹیشن ایک کلو میٹر کے اندر قائم کرنے، انتخابی عذرواریوں کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت جیسے نکات شامل ہیں۔ اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ جن پولنگ سٹیشنوں پر خواتین ووٹروں کی شرح دس فیصد سے کم ہو گی الیکشن کمیشن کو ان کا نتیجہ کالعدم کرنے کا اختیارہو گا۔ بقول اسحاق ڈار انتخابی اصلاحات کا 80 فیصد کام کیا جا چکا ہے، ذیلی کمیٹی حتمی تجاویز ایک ماہ میں مکمل کرکے مرکزی کمیٹی کے حوالے کر دے گی۔ سینیٹ کے انتخابات براہ راست کرانے اور خواتین کی مخصوص نشستوں پر براہ راست الیکشن کرانے سمیت کئی امور پر تاحال اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ پارلیمانی کمیٹی نے تقریباً ایک سال کی مدت میں جس کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے وہ غیر معمولی حالات کے پس منظر میں بڑی حد تک تسلی بخش ہے۔ سیاسی جماعتوں، دانشوروں، تجزیہ نگاروں اور سول سوسائٹی کی حکومتی کارکردگی پر تنقید جمہوری نظام کا حصہ ہے۔ پارلیمانی کمیٹی کو بیلٹ پیپر پر ناپسندیدہ کا کالم None for above کی تجویز پر بھی غور کرنا چاہئے، اس کال کو بیلیٹ پیپر میں شامل کرنے سے آئین کے آرٹیکل 62-63 کی جانچ پڑتال کا کام عوام کی عدالت کے پاس آ جائے گا۔ ووٹر کو امیدوار کی اہلیت یا نااہلیت کا فیصلہ کرنے کا اختیار مل جائے گا۔ ووٹر بد عنوان ، مافیا گروپس اور عوام کا خون نچوڑنے والوں ،اپنی دولت بیرون ممالک میں منتقل کرنے والوں اور گھروں میں اربوں روپے دبا دینے والے نام نہاد سیاسی رہنمائوں کاخود محاسبہ کر سکے گا۔ جو قومی فریضہ احتساب بیورو ادا نہ کرسکا اسے ووٹرایک لمحے میں پولنگ سٹیشن پر کر دے گا۔ راقم نے انتخابی اصلاحات کمیٹی کو اپنے ملکی اور بین الاقوامی انتخابی تجربے کی روشنی میں کئی تجاویز دیں۔ اسحاق ڈار اور زاہد حامد کی بھی توجہ مبذول کرائی لیکن میری تجاویز کو خاطر خواہ پزیرائی نہیں ملی۔ اگر بیلٹ پیپرزمیں ناپسندیدہ کا خانہ شامل کر دیا گیا تو اگلے انتخابات میں حکمران جماعتیں ووٹر کے سیلاب میں ڈوب جائیں گی۔
مستقبل میں دھاندلی کے دروازے‘ انکوائری کمیشن کی رپورٹ نے کھول دئیے ہیں کیونکہ اس میںمئی 2013ء کے انتخابات میں بے ضابطگیوں اور بے قاعدگیوں کے مرتکب افراد کے بارے میں کسی کارروائی کی سفارش نہیں کی گئی۔ ایسے افراد کی بدنیتیوںاور ان کی سیاسی وابستگیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے محض ان کی کوتاہیاں کا ذکر کرکے انہیں محفوظ راستہ دے دیا گیا۔
گذشتہ ہفتے 26جولائی کو قومی سطح کے ایک نجی ٹیلی وژن پر انکوائری کمیشن کی آئینی حیثیت کے بارے میں اہم پروگرام ہوا جس میں سابق چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی، ایس ایم ظفر، سینیٹر فروغ نسیم اور سپریم کورٹ کے سینئر وکیل غلام محی الدین نے اپنی آرا ء میں انکوائری کمیشن کی تشکیل کو آئین کے آرٹیکل 225 کو سبوتاژ کرنے کے مترادف قرار دیا۔ غلام محی الدین ایڈووکیٹ نے اپنے انٹر ویو مکالمہ میں جن خدشات کا اظہار کیا۔ انہیں قارئین اور آئینی ماہرین کی رہنمائی کے لئے جو ں کا توں دیا جا رہا ہے:
1. Art. 225 of the Constitution of Pakistan relates to Election Disputes. 
3. The said act of the Prime Minister of Pakistan Mian Muhammad Nawaz Sharif and Pakistan Tehreek-e-Insaf through its Chairman Imran Khan, of forming Judicial Commission by way of unconstitutional means, amounts to abrogation, subversion, suspension and holding in abeyance the Provision of Art 225 of the Constitution of Pakistan which prima facie falls u/a. 6 of the Constitution of Pakistan. 
غلام محی الدین ایڈووکیٹ نے اپنے خیالات کے اظہار میں سپریم کورٹ کے 31 جولائی 2009 ء کے ایک اہم فیصلے آرمی چیف کی آئینی ذمہ داریوں کے حوالہ سے اہم انکشاف کیا ہے جو درج ذیل ہے:
9. It is also the responsibility of the Armed Forces to discharge their obligatory duty under the Constitution in the light of the observations and directions of the Supreme Court in para 57 last eighteen lines, of its Judgment dated. 31.7.2009 in the case of Sindh High Court Bar Association 
It has observed as under:-
"And it is against the dignity and honour of each and every soldier of the Armed Forces: Pakistan Navy and Pakistan Air Force, who is oath-bound to bear true faith and allegiance to Pakistan and uphold the constitution, which embodies the will of the people; not to engage himself in any political activities whatsoever; and to honestly and faithfully serve Pakistan in the respective services. Within such parameters, a soldier must remain committed to defending Pakistan until the last drop of his blood against external aggression or threat at war, and subject to law, acting in aid of civil power when called upon to do so under the directions of the Federal Government. In the course of the discharge of his duties, a soldier, therefore, is obligated to seeing that the constitution is upheld, it is not abrogated, it is not subverted, it is not mutilated, and to say the least, it is not held in abeyance and it is not amended by an authority not competent to do so under the constitution. If a member of the Armed Forces acts in aid of a person who does any of the above acts, or any other similar act, he violates his oath and render himself liable to action under and in accordance with the constitution and the law."
10. The Hon. Supreme Court has already assigned the abligatory duty on the Pakistan Armed forces and now they are under the constitutional obligation to discharge their duties.
انکوائری کمیشن کی تشکیل سے پیشتر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر مرتضیٰ کامران، عاصمہ جہانگیر، جسٹس (ر) طارق محمود اور دیگر ممتاز آئینی ماہرین نے اپنے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا لیکن حکومت نے انکوائری کمیشن کی تشکیل میں آئین کو سبوتاژ کرنے کے دعوئوں کو تسلیم نہیں کیا۔
نجی ٹیلی وژن نے اپنے پروگرام میں جو اہم نکات اٹھائے ہیں اور جن پر سابق چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی اور ایس ایم ظفر نے بھی یہی رائے دی ہے کہ آئین کے آرٹیکل کو آرڈیننس کے ذریعے تبدیل کرنا آئین کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے اور آرٹیکل 6 کی زد میں آنے کے امکانات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ راقم نے ملک کے وسیع تر مفادات میں یہ دستاویزات چیف الیکشن کمشنر، سپیکر قومی اسمبلی اور چیئر مین سینیٹ کو بھجوا دی ہیں تاکہ وہ ان آراء کے بارے میں آئین کے تناظر میں فیصلہ کر سکیں۔ اگر ضرورت محسوس کریں تو سپریم کورٹ کو نظر ثانی کے لئے ریفرنس بھی بھجوایا جا سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں