"KDC" (space) message & send to 7575

زرداری، الطاف حسین اور خواجہ آصف ایک صفحہ پر

متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کے بیانات اور تقریریں ان دنوں ریاست اور قومی اداروں کے علاوہ خود ان کی اپنی شخصیت، پارٹی اور ان کے پیروکاروں کے لئے فکر مندی کا باعث بن رہی ہیں۔ الطاف حسین کے گرد گھیرا تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل، منی لانڈرنگ کیس میں ان سے برطانوی پولیس تحقیقات کر ہی رہی تھی کہ ان کے قریبی ساتھیوں نے الطاف حسین پر الزامات لگا نے شروع کر دیئے کہ ''را‘‘ کے ذریعے الطاف حسین کو فنڈنگ ہو رہی ہے۔ 
بد قسمتی سے الطاف حسین کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے خواجہ آصف بھی جنرل راحیل شریف کی ہر دلعزیزی اور مقبولیت کی وجہ سے حسد کا شکار ہوتے جا رہے ہیں اور حکومت کے بعض حلقوں بشمول خواجہ آصف کو افواج پاکستان کی عوام کی نظروں میں قدرو منزلت برداشت نہیں ہو رہی۔ کارگل معرکہ کے دوران افواج پاکستان کے خلاف روگ آرمی کے نام پر نیو یارک ٹائمز اور فنانشل ٹائمز میں اشتہارات شائع کرائے گئے اور لاہور کے ایک ماہنامہ ڈائجسٹ میں کارگل جنگ کے بارے میں منفی مضامین لکھوائے گئے تھے۔ اپریل 2000ء میں جب راقم کی ملاقات ڈیرہ بگٹی میں نواب اکبر بگٹی سے ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ جنرل پرویز مشرف کے حاضر سروس دو کور کمانڈر اور کابینہ کے ایک ریٹائرڈ جنرل کا مختلف ذرائع سے نواز شریف کے ساتھ تعلق ہونے کی وجہ سے کابینہ کے اہم فیصلے ان تک پہنچائے جاتے تھے اور جنرل پرویز مشرف کے قریبی ساتھی جنرل محمود نے غالباً روگ آرمی کے اشتہارات کی اشاعت کی مکمل انکوائری کرائی تھی۔
خواجہ آصف نے دھرنے کو دو سابق جرنیلوںکی سازش کا نتیجہ قرار دیا۔ خواجہ آصف نے لیفٹیننٹ جنرل (ر) ظہیر الاسلام پر ان کی مدت ملازمت کے اس عرصے میں نواز حکومت کو گرانے کی منصوبہ بندی کا الزام لگایا ہے جس وقت وہ نہ صرف حاضر سروس سینئر جنرل تھے بلکہ آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ خواجہ آصف نے وزیر دفاع ہوتے ہوئے بین السطور میں جنرل راحیل شریف کی طرف انگلی اٹھا دی ہے اور وفاقی وزیر دفاع کے انٹرویو کے بعد معاملات ایک نیا رخ اختیار کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اس پس منظر میں ایک طے شدہ منصوبے کے مطابق آصف علی زرداری نے سب سے پہلے افواج پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دی اور اسی سازشی گروپ نے الطاف حسین کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا اور اس کی آخری کڑی یہ ہے کہ خواجہ آصف 12 اکتوبر 1999ء کی کارروائی کے حوالے سے منتقم مزاجی کے تحت فوج کی دشمنی کے پرانے خواب کو سامنے لے آئے ہیں۔ جن سیاستدانوں کے بھارت سے کاروباری روابط ہیں وہ بھارت کی خوشنودی کی خاطر فوج کو بدنام کرنے پر تلے ہیں۔ اب احتساب یقینی ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے اور وہ سیاستدانوں ہی نہیں بیوروکریٹس، آرمی افسران، ججوں، میڈیا ہاؤسز کے مالکان ، اینکر پرسنز اور کاروباری افراد کا بھی ہوگا۔ 
وزیر اعظم نواز شریف کو چاہئے کہ وزراء کو آئین ، قانون، ملکی سلامتی اور قومی مفاد کے منافی بیانات دینے سے منع کریں چونکہ خواجہ آصف وزیر دفاع کی حیثیت سے گذشتہ دو سال سے افواج پاکستان کے بارے میں الطاف حسین کی طرز پر نازیباگفتگو کر رہے ہیں، اس لئے ان کی باز پرسی کرتے ہوئے ان کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے محروم کرنے کے لئے آئین کے آرٹیکل 63 G(1) کے تحت ریفرنس سپیکر قومی اسمبلی کو بھجوائیں اور افواج پاکستان سے یک جہتی کا عملی ثبوت پیش کریں تاکہ یہ حقیقت کھل کر سامنے آجائے کہ حکومت اور دفاعی ادارے عملی طور پر ایک ہی صفحہ پر ہیں۔
پاکستان کے سیاستدان عوام کی نظروں میں توقعات پر پورا نہیں اترے۔ عوام کی اکثریت نے موجودہ حکمرانوں سے تمام توقعات چھوڑ دی ہیں، 11 مئی 2013 کے انتخابات کو اگرچہ انکوائری کمیشن نے بیل آوٹ کر دیا ہے اس کے باوجود حکمران جماعت کی خارجہ امور اور داخلہ کے متعلق جو پالیسیاں سامنے آرہی ہیں اس سے فیڈریشن خطرے میں پڑ جائے گی، آئین اور الیکشن قوانین صرف شخصیات کے تحفظ کے لئے بنے ہیں اس میں ملک اور عوام کے لئے کچھ نہیں۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی یہ منطق کہ آئین میں ہر مسلہ کا حل موجود ہے صرف ذاتی مفادات پر مبنی ہے، آئین کے آرٹیکل 184 کے تحت انہوں نے ملکی مفاد کے حق میں کوئی تعمیری فیصلہ اپنے دور میں نہیں دیا۔ پاکستان کی فیڈریشن کو بچانے کے لئے انتخابی نظام تبدیل کرنا ہوگا، جس کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ملک میں صدارتی نظام رائج کیا جائے ، صدر کا انتخاب بالغ رائے دہی کی بنیاد پر کروایا جائے اور پارلیمانی نظام حکومت کو برقرار رکھا جائے اور فرانس کی پانچویں جمہوریت 1958 جو صدر ڈیگال نے ریفرنڈم کے ذریعے نافذ کیا تھا اس طرز پر پاکستان میں ریفرنڈم کے ذریعے انتخابی سسٹم کو نافذ کیا جائے۔ سینیٹ کا الیکشن براہ راست بالغ رائے دہی کی بنیاد پر کروایا جائے، اس سے سینیٹ اور قومی اسمبلی مضبوط ہو گئی۔ موجودہ سینیٹ سسٹم غیر جمہوری ہے اور اس کا عوام سے کوئی تعلق نہیں ہے، سینیٹ کی نشستیں سٹاک ایکسچینج کی طرز پر فروخت ہوئی ہیں۔ محترم اسحاق ڈار جن انتخابی قوانین کے لئے اصلاحات پیش کر رہے ہیں اور آئین کے تقریباً چھ یا سات آرٹیکلز میں ترامیم کی جا رہی ہے، اس سے الیکشن میں شفافیت آنے کا امکان نہیں ہے، ان سے صرف سیاسی جماعتوں کے مفادات کو تحفظ حاصل ہو گا۔
کراچی میں حکومتی رویہ فوج اور رینجرز کی مکمل سرپرستی کی بجائے ایسی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہے کہ فوج ایم۔کیو۔ایم اور پیپلز پارٹی کے ساتھ محاز آرائی میں رہے۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے احتجاجی تحریکوں کی تحقیقات اور آئی۔ایس۔آئی کے دو سابق سربراہوں کو ذمہ دار قرار دینے کی صورت حال میں خواجہ آصف اور محمد زبیر نے جو لائین اختیار کر رکھی ہوئی ہے اپنی پارٹی کے سربراہ کے اشارے کے بغیر ایسا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، لیفٹنٹ جنرل (ر) ظہیر الاسلام کا نام خواجہ آصف اور محمد زبیر نے باقاعدہ مشاورت اور اجازت سے لینے کے بعد ہی جسارت کی ہوگی۔ اب دنیا ٹیلی وژن کے ممتاز سینئر اینکر پرسن کامران خان کے پروگرام میں خواجہ آصف نے جس انداز میں آئی۔ایس۔آئی کی دو بڑی ممتاز شخصیات کے بارے میں زبان استعمال کی ہے وہ وزیر دفاع کے شایان شان نہیں تھی، اس تناظر میں دیکھا جائے تو سول اور عسکری ہم آہنگی کے دعووں کے باوجود یہ خطرہ ہمہ وقت موجود ہے کہ کسی وقت تناؤ، تصادم کا روپ اختیار کرلے اور دونوں فریقوں میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے خواجہ آصف اور محمد زبیر کو کابینہ سے فارغ کر دیا جائے اور ان کی قومی اسمبلی کی رکنیت بھی ختم کر دی جائے، نواز حکومت کے لئے 17 اگست سے 27 دن بڑے بھاری ثابت ہونے کے امکانات ہے جب امکان ہے کہ پاکستان کے چیف جسٹس اپنے 27 دنوں میں کرپشن کے تمام کیسز کا فیصلہ سنا دیں گے اور ہمارے حکمرانوں اور کرپٹ سیاستدانوں کے لئے بیرون ممالک کے دروازے بند ہو جائیں گے ااور ان کو ایک کال پر ملک واپس کر دیا جائے کیونکہ یہ ممالک اب پاکستان کو تعمیر و ترقی میں ایک مضبوط ملک دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ اگر ملک کے یہی حالات رہے تو پھر مایوس گھروں میں جنات ہی داعش کی صورت میں قبضہ کر لیتی ہیں جیسا کہ عراق، شام اور اب افغانستان میں ہو رہا ہے۔
سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کو تحریک انصاف کے معاملات پر الطاف حسین سے مشاورت نہیں کرنی چاہیئے تھی، سردار ایاز صادق نے الطاف حسین سے رابطہ کرکے ان کو تنہائی سے نکال لیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں