"KDC" (space) message & send to 7575

پاکستانی اور بھارتی قرارداد مقاصد میں مماثلت

عدالت عظمیٰ کے 5 اگست کو دئیے گئے فیصلے کی آئینی اہمیت کے تناظر میں پاکستان کے دستورکے بنیادی ڈھانچے پر سوالات اٹھنے شروع ہوگئے ہیں۔ قرارداد مقاصد کے بارے میں جو آئین کی روح ہے، جناب جسٹس ثاقب نثار نے نشاندہی کی ہے کہ پاکستانی قرارداد مقاصد اور بھارتی قرارداد مقاصد میں مماثلت ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کی قرارداد مقاصد میں بھارتی قرارداد مقاصد کی پیروی کی گئی جو جنوری1947ء میں منظور ہوئی تھی۔جسٹس ثاقب نثار کے بقول نقل کرنے والوں نے بھارتی قرارداد مقاصدکی کئی شقوں کی الف اور بے بھی تبدیل نہیں کی۔
قرارداد مقاصدکے تصورکی جڑیں اورمواد جو قائد اعظم کے انتقال کے کئی ماہ بعد 2 مارچ 1949ء کو منظور ہوئی، پاکستان کے لئے انوکھی نہ تھی، یہ در حقیقت ملک کے اندر تیار ہوئی۔ اس کا مزید جائزہ لینے کے لئے سرحد پار دیکھنا ضروری ہے۔ اگر دونوں قراردادوں کا جائزہ لیں تو ہندوستان کی قرارداد مقاصد در اصل جنوری 1946ء میں منظور ہو چکی تھی۔ پاکستانی قرارداد دو سال بعد منظور ہوئی، لیکن یہ پہلی(بھارتی) دستاویز پر ہی مبنی تھی۔ پاکستانی قرارداد مقاصدکا ڈھانچہ حتیٰ کہ بعض جگہ زبان من و عن بھارتی قرار داد پر مبنی ہے اوراہم حصے حرف بحرف نقل کیے گئے ہیں۔
عدالت عظمیٰ کے 17 رکنی بنچ کے فیصلے میں اٹھارویں اور اکیسویں آئینی ترامیم کے بارے میں آئینی درخواستیں مستردکر دی گئیں۔ 6کے مقابلے میں 11 ججوں کا اکثریتی فیصلہ ہمارے جمہوری اور آئینی ارتقا میں ایک سنگ میل ثابت ہوگا۔ 17 ججوں کی مختلف آراء سے پاکستان کے دستورکے بعض بنیادی اصولوں پر از سرنو نظرثانی کرنے کے لئے پنڈورا بکس کھلنے کا امکان ہے۔ اٹھارویں اور اکیسویں آئینی ترامیم کے خلاف درخواست گزار وکلا نے دراصل پارلیمنٹ کے آئین میں ترمیم کرنے کے اختیار کو چیلنج کیا تھا اوران کا موقف تھا کہ پارلیمنٹ کا آئین میں ترمیم کا حق غیر مشروط نہیں ہے، نیز یہ کہ ہمارے آئین کے کچھ حصے ایسے ہیں جنہیں کوئی پارلیمنٹ دو تہائی اکثریت سے بھی نہیں بدل سکتی۔ بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی اور آئینی اصطلاح میںکسی دستورکے ایسے حصوںکو بنیادی ڈھانچے کا نام دیا جاتا ہے جنہیں پارلیمنٹ تبدیل کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں دستور پاکستان کے آرٹیکل 239 کی ذیلی دفعہ 6کی توثیق کی ہے اور11 معزز ججوں نے تفصیل سے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ پارلیمنٹ کا آئین میں ترمیم کا حق غیر مشروط ہے۔ گویا انہوں نے پاکستان کے آئین میں بنیادی ڈھانچے کے تصورکو رد کر دیا ہے۔دوسرے لفظوں میں یہ طے کر دیاگیا ہے کہ ہماری پارلیمنٹ ہرعہد میں پاکستان کا نصب العین طے کرنے کا غیر مشروط اختیار رکھتی ہے۔ ہوسکتا ہے، اسی بصیرت کی روشنی میں ایک دن پارلیمنٹ کا غیر مشروط حق قانون سازی بھی تسلیم کرلیا جائے۔
اس فیصلے کی آڑ میں میاں نواز شریف اپنے آپ کو وزیر اعظم کے بجائے پاکستان کا امیرالمومنین قرار دلوانے کی ترمیم بھی منظور کرا سکتے ہیں۔ انہوں نے1997-98 ء میں پاکستان میں امارت اسلامی کے قیام کے لئے غالباً آئین میں14 ویں ترامیم پارلیمنٹ میں پیش کی تھیں لیکن اس پر ان کی پارٹی میں اندرونی خلفشار پیدا ہونا شروع ہوگیا تھا۔ میاں خورشید محمود قصوری اور ان کے کئی ہم نوائوں نے بغاوت کرتے ہوئے قومی اسمبلی سے مستعفیٰ ہونے کی دھمکیاں بھی دی تھیں۔
پاکستان کا دستور 1973ء میں غیرمعمولی حالت جنگ ،ایمرجنسی اور سقوط مشرقی پاکستان کے تناظر میں نظریہ ضرورت کے تحت تشکیل دیا گیا تھا۔ قوم سقوط ڈھاکہ کی وجہ سے غم، اور مایوسی سے دو چار تھی۔ بین الاقوامی مسلمہ آئینی اورانتخابی اصولوں کے تناظر میں جائزہ لیا جائے تو مغربی پاکستان کے ارکان قومی اسمبلی کے آئین سازی کے اختیارات 16دسمبر 1971ء کو تحلیل ہو گئے تھے۔ بہرحال یہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔ ہمارے 17جج صاحبان جب قرارداد مقاصد اور بنیادی ڈھانچے پر رائے زنی کر رہے تھے تو وہ قوم کو اس اضطراب سے بھی نکالنے میں اپنا آئینی فریضہ اداکرتے کہ 14 اگست 1973 ء کا آئین نظریہ ضرورت کی بنیاد پر 1935ء کے ایکٹ کی عمارت پر کھڑا کیاگیا تھا۔ جب قرارداد مقاصد، بھارتی قرارداد مقاصد کی ہو بہو نقل تھی تو باقی ماندہ آئین کے آرٹیکلز بھی تو 1935کے ایکٹ کا ہی چربہ تھے۔اس وقت کی آئین ساز اسمبلی کے ارکان نے کونسی قومی خدمات سرانجام دی تھیں جس کا سہرا ذوالفقار علی بھٹو کے سر باندھا جاتا ہے؛ حالانکہ 1973 ء کا آئین 1935 ء کے ایکٹ کی نقل کے ساتھ ساتھ 1956 ء اور 1962ء کے دساتیرکا بھی چربہ ہے۔
ایک ممتازصحافی اور تجزیہ کارکے بقول دنیا میں تقریباً 180 ممالک میں دستور کی روشنی میں کاروبار مملکت چلایا جاتا ہے، ان میں سے صرف ایک ملک کا دستور ایسا ہے جس میں بنیادی آئینی ڈھانچے کا تصور موجود ہے اور وہ ملک بھارت ہے جہاں اعلیٰ عدالتوں نے آئین کی تشریح میں بنیادی ڈھانچے کا تصور متعارف کرا دیا ہے۔ واضح رہے کہ 1960ء کے اوائل میں بھارتی وزیر اعظم نہرو 1951ء کے دستور میں ایسی تبدیلیاں لانا چاہتے تھے جس سے بھارتی قرارداد مقاصد متاثر ہو رہی تھی۔ اسی فکری رجحان کی حوصلہ شکنی کے لئے بھارتی سپریم کورٹ نے اہم فیصلہ دیا کہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ، پارلیمنٹ دو تہائی اکثریت سے بھی تبدیل کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ اگر آئین کے دیباچے کی روح میں تبدیلی مقصود ہے تو پارلیمنٹ تحلیل کرکے آئین ساز اسمبلی کے لئے از سر نو انتخابات کرائے جائیں اور از سر نو آئین مرتب کیا جائے۔ ماہرین آئین و قانون اور علم سیاسیات کے امورکے ماہرین‘ عظیم دستور ساز تھامسن جیفرسن کے اس بنیادی اصول کا حوالہ دیتے ہیں جو انہوں نے اٹھارویں صدی کی نویں دہائی میں بیان کیا تھا۔ تھامسن نے کہاتھا : ''کوئی پارلیمنٹ اپنی کسی آئندہ پارلیمنٹ کے ان اختیارات کو محدود نہیں کر سکتی جو موجودہ پارلیمنٹ کو حاصل ہیں‘‘۔
بھارت کا آئین1951 ء میں نافذ ہوا تو 1953ء میں سجن سنگھ بنام ریاست راجستھان کے فیصلے میں جسٹس مدھولکر نے ایک اختلافی نوٹ لکھتے ہوئے بنیادی ڈھانچے کا تصور بیان کیا اور کہاکہ بھارت کے آئین کی شق 368 میں دیا گیا پارلیمنٹ کا حق ترمیم غیر مشروط نہیں ہے۔اسی طرح1967 ء میں بھارت کی سپریم کورٹ نے گولک ناتھ بنام ریاست پنجاب نامی مقدمے میں فیصلہ دیا کہ بھارتی آئین میں بنیادی حقوق کا حصہ دستورکے بنیادی ڈھانچے کی حیثیت رکھتا ہے اور پارلیمنٹ اس میں ترمیم نہیں کر سکتی۔ بھارتی سپریم کورٹ نے عوام کو انتظامیہ کی ممکنہ زور آوری سے محفوظ رکھنے کے لئے بنیادی ڈھانچے کا تصور پیش کیا، لیکن ہماری سپریم کورٹ نے انتظامیہ کے بے رحمانہ مظالم سے نجات دلانے کے لئے کوئی کارآمد نسخہ دینے کے بجائے قوم کو قرارداد مقاصد کی تشریح میں الجھا دیا اور معزز ججوں نے قرارداد مقاصد کی اپنے اپنے انداز میں تشریح کرکے اس کے تانے بانے بھارتی آئین سے ملا دیے۔سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے میں جسٹس سرور جلال عثمانی نے آئین کی تشریح کرتے ہوئے مثالی ریمارکس دیئے۔ وہ لکھتے ہیں کہ بنیادی ڈھانچے کا آئین کے اندر خصوصی ذکر نہیں، لیکن قرارداد مقاصدکو جب آئین کی دیگر شقوں سے ملا کر پڑھیں تو آئین کے بنیادی خد وخال سامنے آتے ہیں اور حکومت کے لئے اسلامی شقوںکے ساتھ وفاقی اور پارلیمانی نظام کی نشاندہی ہوتی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ آئین کا دیباچہ قرارداد مقاصد سے لیا گیا ہے مگر انتہائی اہم فرق ہے۔ قرارداد مقاصدکے آغاز میںکہا گیا ہے کہ تمام کائنات کا مالک و مختار صرف اللہ تعالیٰ ہے اور اس نے ریاست پاکستان کو اس کے عوام کے ذریعے اتھارٹی دی ہے‘ جبکہ دیباچہ کہتا ہے کہ تمام کائنات کا مالک و مختار اللہ تعالی ہے اور اتھارٹی کا استعمال پاکستانی عوام کے ذریعے ہوگا۔ آئین کے آرٹیکل 2-A اور آئین کے دیباچہ میں اہم تبدیلی کس حکومت کے ایما پر کی گئی جس کی روشنی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تشریح کی۔میری نظر میں یہ پیوند کاری آٹھویں ترمیم کے ذریعے شریف الدین پیرزادہ کی ذہن کی پیداوار تھی کیونکہ ریاست اورعوام میں بڑا فرق ہے۔ریاست کا نقطہ سموکر عوام کے اختیارات سلب کرکے قرارداد مقاصدکی روح کے منافی فیصلہ کیا گیا اوراب جسٹس ثاقب نثار نے قرارداد مقاصدکو بھارتی قرارداد مقاصد سے مماثل قرار دے کر اس کی روح ہی سلب کر دی ہے۔ جسٹس ثاقب نثارکی اس دلیل کے بعد کہ آئینی ترمیم منتخب نمائندوںکا اختیار ہے نہ کہ غیر منتخب عدلیہ کا، پاکستان میں اس امکان کا دروازہ کھل گیا ہے کہ قائد اعظم کے 11اگست 1947کو آئین ساز اسمبلی سے خطاب کو آئین کے دیباچے میں شامل کرکے آرٹیکل 2-A کو آرٹیکل 2-B میں سمو دیا جائے اور اس طرح پاکستان کو آئینی طور پر سیکولر سٹیٹ قرار دے دیا جائے۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے نے اس پارلیمنٹ کو لامحدود اختیارات تفویض کر دیئے ہیں جو اپنی پارٹی کے سربراہ کو دیوتا کا درجہ دینے میں بھی قباحت محسوس نہیں کرتے۔
میری دانست میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے حالیہ فیصلے سے پاکستان کے آئین کی اسلامی شقوں کی روح کو زک پہنچی ہے، لہٰذا نامزد چیف جسٹس جواد خواجہ کو اس فیصلے پر نظر ثانی کے دوران فیصلے کے بعض مبہم پیراگرافس کی تشریح کرنی چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں