"KDC" (space) message & send to 7575

استعفوں کا مخمصہ

قومی اسمبلی ، سینیٹ اور سند ھ اسمبلی سے متحدہ قومی موومنٹ کے اچانک استعفوں سے ملک میں سیاسی بحران کے آتش فشاں کا لاوا پھوٹ پڑا ۔ متحدہ قومی موومنٹ کراچی آپریشن کے بارے میں کئی مہینوں سے تحفظات کا اظہار کر رہی ہے۔ اب انتہائی اقدام کے طور پر احتجاجاً اسمبلیوں اور سینیٹ سے استعفے دے دیئے ہیں تو ساتھ ہی یہ گنجائش بھی رکھی ہے کہ حکومت اس کے تحفظات دور کرے اور آپریشن بلا امتیاز کیا جائے تو استعفے واپس لیے جا سکتے ہیں۔
آزادی کی برکات و ثمرات کے مقابلے میں ہمارے بیشتر حکمران بشمول میاں برادران سہل پسند اور کم ہمت ثابت ہوئے۔ گزشتہ دس سال ایسی افراتفری میں گزرے کے اعلیٰ قدریں، اعلیٰ تصورات اور اعلیٰ سماجی معیارات بری طرح متاثر ہوئے۔ بدقسمتی سے اب سیاست محض کاروبار بن کے رہ گئی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں جو مملکت کی محافظ ہوتی ہیں، مملکت کو تاراج کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔ سرکاری محکمے اور ریاست کے اثاثے حکومت کے اہم کارندوں کے ذریعے فروخت کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے منافق سیاستدانوں کارویہ مملکت کے خلاف نظر آتا ہے۔ وہ آرمی چیف کے بے لچک رویے کو دیکھ کر فوجی عدالتوں کے قیام کی منظوری دیتے ہیں اور پھر اپنے حامیوں کے ذریعے خود ہی انہیں عدالتوں میں چیلنج کرواتے ہیں۔
اگر متحدہ کے استعفے منظور کر لیے جاتے ہیں تو سندھ اسمبلی کا مستقبل بھی مخدوش ہو جائے گا اور متحدہ قومی موومنٹ سڑکوں پر عوام کے درمیان ہوگی؛ جبکہ الیکشن کمیشن 51 خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات کروانے کی پوزیشن میں نہیں ہوگا۔ متحدہ قومی موومنٹ نے اب مفاہمت کے نام پر منافقت کی آصف علی زرداری کی پالیسی کو یکسر مسترد کر دیا ہے‘ کیونکہ فوجی جرنیلوں کے خلاف ایک انتہائی غیر ذمہ دارانہ ''انقلابی‘‘ تقریر کے فوراً بعد آصف علی زرداری سیاسی منظر سے بظاہر غائب ہوگئے ہیں۔ اس میں دو رائے نہیں کہ جتنا نقصان پیپلز پارٹی کو آصف علی زرداری نے گذشتہ پانچ سالوں میں پہنچایا اس کی اپنی تاریخ میں کبھی بھی نہیں پہنچا۔ اسی پس منظر میں اب متحدہ قومی موومنٹ سندھ حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کا آغاز کراچی، حیدر آباد سے کرے گی اور سندھ کے گلی کوچے اسمبلی بن جائیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو وفاق میں بھی وفاقی حکومت کے خلاف کئی محاذ کھل سکتے ہیں۔
جب تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی نے استعفے دیئے تو مولانا فضل الرحمن اسمبلی میں اپنا موقف پیش کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ 1973ء کے آئین کے تناظر میں تحریک انصاف کے ارکان‘ قومی اسمبلی کے ممبر نہیں رہے‘ مگر آج وزیر اعظم نواز شریف کی ایک فون کال پر ایم کیو ایم کے استعفوں پر مولا نا فضل الرحمن نے اپنا موقف بدل لیا اور کہا کہ استعفے قبول کرنے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے۔ میرے خیال میں مولانا فضل الرحمن کو ملک کے وسیع تر مفاد میں یہ ذمہ داری نہیں لینی چاہئے تھی۔ ان کے بیانات سے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ ملک میں ایمرجنسی پلس II نے آئین بدل دیا ہے اور اسی لئے مولانا فضل الرحمن نے ایم کیو ایم کے استعفوں کو غیر آئینی قرار دے دیا ہے۔ قانونی نقطہ نظر سے دیکھیں تو قومی اسمبلی کے سپیکر اور چیئر مین سینیٹ کی طرف سے رضا مندی سے دئیے گئے استعفے قبول نہ کرنا آئین کے آرٹیکل 64 سے انحراف ہے۔ جب ایک ممبر اپنے ہاتھ سے استعفیٰ دے دیتا ہے تو پھر اسے قبول نہ کرنے کا کیا جواز باقی رہ جاتاہے؟ قانونی اور آئینی لحاظ سے اب استعفے منظور ہو چکے ہیں، لیکن اگر حکومت اس معاملے میں بھی تحریک انصاف کی طرح غیر قانونی طور پر استعفے واپس کرادے تو متحدہ قومی موومنٹ کے ممبران کی اخلاقی ساکھ خراب ہو گی۔ اسی طرح اگر استعفے منظور ہو گئے تو ضمنی انتخابات کی صورت میں قومی اور سندھ اسمبلی میں تو اس کے ارکان واپس آجائیں گے، لیکن سینیٹ میں 2018ء تک واپسی ممکن نہیں ہوگی؛ چنانچہ ایم کیو ایم کی جگہ پیپلز پارٹی کے سینیٹر آجائیں گے اور پیپلز پارٹی سینیٹ میں مضبوط اور فعال کردار ادا کرتے ہوئے نواز حکومت کو مفلوج کرنے کی پوزیشن میں ہوگی؛ جبکہ ایم کیو ایم ضمنی انتخابات میں قومی اسمبلی حلقہ 246 کی مانند کامیابی حاصل کر کے سندھ میں نئے صوبے کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
ایم کیو ایم نے سیاسی بنیادوں پر اور تحریک انصاف کی پیروی کرتے ہوئے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی سندھ سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے اور مولانا فضل الرحمن ان کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو غیر آئینی عمل ہے۔ ایم کیو ایم نے اگر استعفے واپس لئے تو ان کی سیاسی حیثیت متنازعہ ہوجائے گی کیونکہ حکومت کے اکابرین اور سیاسی جماعتیں ان کے ساتھ دہری چال چل رہے ہیں۔ ایم کیو ایم نے سندھ میں بڑا سیاسی بحران پیدا کرکے آصف علی زرداری کو بیک ڈور کے ذریعے فائدہ پہنچایا ہے کیونکہ آصف علی زرداری کی حکمت عملی کامیاب ہو رہی ہے جس کے ذریعے انہوں نے کراچی میں معاشی دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن کو متنازعہ بنا دیا ہے اور پاک چائنہ اقتصادی راہ داری کے عمل کو بھی زک پہنچی ہے جس کی ضمانت جنرل راحیل شریف نے قوم کے مفاد میں دی ہے۔ ایم کیو ایم کے استعفوں کے پس منظرمیں مشرق وسطیٰ کے اہم ممالک کا بھی دخل نظر آرہا ہے کیونکہ سندھ اسمبلی کے 168 کے ایوان میں ایم کیو ایم کے ارکان کی تعداد51 ہے اور اس کے 24 ارکان قومی اسمبلی کی نشستیں بھی سندھ سے ہیں۔ اس قدر زیادہ نشستوں پر ضمنی انتخابات کوئی آسان کام نہیں ہے اور اگر ایم کیو ایم نے ضمنی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تو کراچی میں انتخابی جنگ شروع ہو جائے گی۔ سپریم کورٹ کی ہدایت پر سندھ میں پہلے ہی بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں کی جارہی ہیں جو آئندہ نومبر‘ دسمبر میں ہوسکتے ہیں‘ لیکن اگر آصف علی زرداری کے مفادات پر اس طرح زد پڑی جس طرح ان دنوں ایم کیو ایم اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے تو پھر یہ امر خارج از امکان نہیں کہ آصف علی زرداری بھی اپنے ارکان قومی اسمبلی کو مستعفی ہونے کا حکم دے دیں اور سندھ میں اپنی حکومت کو برقرار رکھیں۔ دراصل ملک میں آئینی بحران پیدا کرنے میں ان ممالک کا بھی کردار ہے جنہوں نے پاکستان کے سیاستدانوں کی جائیدادوں کو اپنے ممالک میں تحفظ دے رکھا ہے اور وہ گوادر کے عظیم پروجیکٹ کو ناکام بنانا چاہتے ہیں۔ اسی لئے وہ پاکستان کی ان سیاسی جماعتوں کو اپنا آلۂ کار بنانے میں مصروف ہیں‘ جن کے مالی مفادات کی گارنٹی ان ممالک نے دے رکھی ہے۔ جنرل راحیل شریف کو ان تمام سازشوں پر کڑی نگاہ رکھتے ہوئے ان ممالک کو اعتماد میں لینا چاہیے جن کے اشارے پر ہمارے سیاسی رہنما اچھل کود کر رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں