"KDC" (space) message & send to 7575

موجودہ تناظر میں مردم شماری ناممکن

1998 ء کے بعدآئینی و قانونی طور پر مردم شماری 2009 ء میں کرانا طے پائی تھی لیکن سابق صدر آصف علی زرداری اور ایم کیوایم کے تحفظات کی وجہ سے نہ ہو سکی۔ زرداری صاحب کو ان کے ناداں دوستوں نے باور کرایا کہ ہو سکتا ہے کہ مردم شماری کے نتیجہ میں دیہی سندھی علاقوں کی قومی اسمبلی کی نشستیں کم اور شہری علاقوں کی نشستوں میں اضافہ ہو جائے۔ ایم کیوایم کو خطرہ ہوا کہ مردم شماری کے لئے از سر نو حلقہ بندیوں سے ان کا بھرم کھل جائے گا۔ پنجاب کی حکومت صدر زرداری سے بے زاری کا مظاہرہ کر رہی تھی۔ حبیب جالب کے اشعار سنا کر قوم کوان سے نجات دلانے پر اُکسایا جا رہا تھا۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی پوسٹنگ اور تبادلوں کی آڑ میں کرپٹ بیوروکریٹس کے ہاتھوں میں کھیل رہے تھے؛ یوں سازشی عناصر نے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بھی ناممکن بنا دیا۔ اب حکومت نے فوج کی مشاورت سے چھٹی مردم وخانہ شماری کا آغاز مارچ 2016 ء کے آخری ہفتے میں کرنے کا نیم دلانہ فیصلہ کیا ہے۔فیصلے کی رو سے یہ کام سول و فوجی حکام کی نگرانی میں اسی طرح کرایا جائے گا جس طرح 1998 ء میں افواج پاکستان کی سرپرستی میں اس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری شجاعت حسین نے کرایا تھا۔ اسی مردم شماری کے نتیجے میں نادرا کی بنیاد رکھی گئی جس کے پہلے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل زاہد حسین تھے، 1998 ء کی مردم شماری کے فارم میں عوام کو ون ونڈو سہولت فراہم کرنے کے وعدے کئے گئے ۔ گھر بیٹھے پاسپورٹ، اسلحہ لائسنس، یا ووٹ کا اندراج، طبی سہولتوں کے لئے ہیلتھ سرٹیفکیٹ اور دیگر سہولتوں پر مبنی جامع فارم بنایا گیا تھا، اب چونکہ 15 سال کی غیر آئینی تاخیر کے بعد مردم شماری کا آغاز ہو رہا ہے تو حکومت کو 1998 ء کی مردم شماری کے فارم میں درج سہولتوں کا از سر نو جائزہ لینا چاہئے۔
فوج‘ فیلڈ میں آبادی کے اعداد و شمار اور سوالوں کا جواب حاصل کرنے کے دوران امن و امان برقرار رکھنے اور جمع ہونے والا ڈیٹا حفاظت سے اسلام آباد پہنچانے کی ذمہ دار ہوگی۔1998ء میں بلوچستان کے کئی اضلاع کا اہم ڈیٹا امن و امان کی وجہ سے اور بعض جگہوں پر آتش زدگی کی بناء پر ایک سال کی تاخیر سے پہنچایا گیا تھا۔ جناب اسحاق ڈار نے مردم شماری کا شیڈول مرتب کرنے کے لئے تعلیم کے صوبائی محکموں کو بھی اعتماد میں لیا ہے تاکہ صوبوں میں امتحانات کے شیڈول اور تعلیمی سرگرمیاں متاثر نہ ہوں، حکومت کو اب احساس ہو رہاہے کہ ملک کی آبادی کی خامیوں اور خوبیوں کو جانچنے کے لئے مردم شماری انتہائی اہم ہے، حالانکہ 2013 ء کے انتخابات 1998 ء کی مردم شماری کے مطابق کرائے گئے جس کی وجہ سے بدانتظامی، بے قاعدگیاں اور بد عنوانیوں کا اس طرح سامنا کرنا پڑا کہ نا تجربہ کار ریٹرننگ افسروں نے عملی طور پر سوجھ بوجھ سے کام نہیں لیا، اور نادرا کے ڈیٹا سے فائدہ اٹھانے کی بجائے ریونیو کے عملہ کی ملی بھگت کا شکار ہو گئے اس طرح کسی جگہ پر آبادی سے زیادہ ووٹروں کا اندراج کر دیا گیا اور کسی جگہ پر ووٹروں کا اندراج مطلوبہ آبادی سے کم دکھایا گیا جس کی وجہ سے الیکشن میں ناکام سیاسی جماعتوں کو دھاندلی کے الزامات لگا نے کا موقع مل گیا۔ اس بد نظمی کی اہم وجوہات کا الیکشن ٹربیونل کے بعض ججوں نے نمایاں طور پر اپنے فیصلوں میں ذکر کیا ہے‘ کیونکہ 2013ء کے انتخابات درست ہوتے ہوئے نظر نہیں آئے ۔ 2002ء کی حلقہ بندیاں 1998ء کی مردم شماری کے مطابق کرائی گئی تھیں۔ 2013ء میں ان حلقہ بندیوں کو بنیاد بنا کر پولنگ سٹیشن اور پولنگ بوتھ بنائے گئے‘ لیکن ایکشن پلان کے مطابق بیلٹ پیپرز شائع نہیں کئے گئے اور ریٹرننگ آفیسران نے آبادی اور ووٹروں کا تناسب دیکھے بغیر من پسند طریقوں سے بیلٹ پیپرز شائع کروا دیئے اور الیکشن کمیشن میں یونٹی آف کمانڈ نہ ہونے کی وجہ سے چیف الیکشن کمشنر، ارکان الیکشن کمیشن اور صوبائی الیکشن کمشنران کے مابین رابطوں کا فقدان رہا اور الیکشن کی پوری مشینری تناؤ کا شکار ہو گئی جس کا ذکر عدالتی انکوائری کمیشن کے فاضل جج صاحبان نے بھی کیا ہے۔
آئین کے آرٹیکل 218 اور 221 میں چیف الیکشن کمشنر اور چاروں ارکان کے اختیارات کی وضاحت نہیں کی گئی‘ تاہم انتخابی قوانین کے تناظر میں الیکشن کمیشن کی ذمہ داریوں کے تعین کا بغور جائزہ لیا جائے تو شفاف، غیر جانبدارانہ انتخابات کا انعقاد سب سے اہم ذمہ داری ہے، اس لحاظ سے الیکشن کمیشن کے مندرجہ ذیل اہم نوعیت کے اختیارات ہیں: کمیشن کے ملازمین کی ترقی و تبادلوں سمیت انتخابات کے دوران مختلف انتظامی احکامات کا اجراء انتخابی عملے کی تعیناتی‘ امن و امان کے لئے سکیورٹی، حکومتی مشینری اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مشاورت جب کہ بیلٹ پیپرز کی چھپائی، انتخابی میٹریل کی ترسیل وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح مالی نوعیت کے اختیارات میں انتخابی اخراجات بھی شامل ہیں۔ عدالتی نوعیت کے اختیارات میں الیکشن کمیشن کے ارکان اور ریٹرننگ آفیسران کا تقرر، الیکشن اپیلیٹ اور الیکشن ٹربیونلز کا تقرر شامل ہیں۔ 2013 ء کے انتخابات میں الیکشن کمیشن کی کمزور انتظامی اور مالیاتی مشینری‘ فرائض کی ادائیگی میں چیف الیکشن کمشنر سے رہنمائی حاصل کرنے میں ناکام نظر آئی۔ انتظامی اور مالیاتی امور کی فائلیںکمیشن کے ارکان کے درمیان گھومتی رہیں؛ یوں وقت پر اہم فیصلے صادر نہ ہو سکے۔
انتخابی حلقہ بندیوں اور صوبوں کے لئے مخصوص قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کی خاطر بھی مردم شماری کا ہونا آئینی پابندی ہے۔ اگرہر دس سال بعد باقاعدگی سے مردم شماری ہوتی رہے تو انتخابی صورت حال بہتر اور خوشگوار ہو سکتی ہے، مقامی حکومتوں کا قیام بھی آئینی ضرورت ہے، جہاں یہ عوام کو اقتدار میں براہ راست شریک کرتی ہیں، وہیں ان کے ذریعے اضلاع میں ترقیاتی اخراجات بھی منصفانہ طور پر ہو سکتے ہیں اور شہری علاقوں میں تقسیم، ضروریات کا تعین اور ترجیحات اور ترغیبات کا بھی تعین ہو سکتا ہے۔
مردم شماری کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ قبل مسیح میں سلطنت روم میں باقاعدہ مردم شماری ہوئی جس کا مقصد آبادی میں یکساں وسائل کی تقسیم تھا۔ قدیم تہذیبوں میں ایران اور چین میں مردم شماری کے آثار ملتے ہیں، اس کے بعد مسلمانوں میں سب سے پہلے 2ھ میں مدینہ شہر میں مردم شماری کرائی گئی اور کوفہ میں بھی مردم شماری کے کوائف دستیاب ہیں۔ مدینہ منورہ میں زکوٰۃ، صدقات، مال غنیمت، جائیداد وغیرہ کی تقسیم کے لئے 2 ھ میں مردم شماری کی گئی تھی۔حضرت عمر فاروق ؓ نے 15 ہجری (640 ء ) میں باقاعدہ مردم شماری کرائی۔
غیر منقسم ہندوستان میں 1931,1921,1911 اور1941ء میں مردم شماری کرائی گئی، پاکستان میں مردم شماری کے لئے متعلقہ ادارہ کی بنیاد 1950ء میں رکھی گئی۔ اس ادارے نے وزارت داخلہ کے تحت 1972,1961,1951 اور1982 ء کے بعد1998 ء میں مردم شماریاں کرائیں، اب پاکستان میں چھٹی مردم شماری2016 ء کو ہونے جا رہی ہے، تیسری مردم شماری1971ء میں ہونا تھی لیکن بھارت سے جنگ کی وجہ سے ایک سال تاخیر ہوئی۔ چوتھی مردم شماری اپنے وقت پر یعنی 1982ء میں ہوئی، اس کے بعد 1992ء میں ہونا تھی لیکن اعداد و شمار غلط جمع کرانے کے باعث ملتوی ہوگئی۔ سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماوں کے ذاتی مفادات و اختلافات‘ بلوچستان اور سندھ کے علاقائی مسائل ‘ 17 سال تک مردم شماری کی راہ میں رکاوٹ رہے۔ آخر 1998ء میں پانچویں مردم شماری ہوئی، اس کے بعد اپریل 2009-2010 ء میں مردم شماری کا آغاز ہونا تھا، لیکن کراچی میں لسانی گروہوں کے مابین چپقلش کے باعث مردم شماری کے شمار کنندگان قتل ہونے لگے۔
گزشتہ انتخابات میں 1998ء کی مردم شماری کو سامنے رکھ کر قومی و صوبائی حلقہ بندیاں ترتیب دی گئی تھیں۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ حلقہ بندیاں پاکستان کی آبادی کی درست عکاسی نہیں کرتیں، اس دوران نہ جانے کتنی آبادی ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کر چکی ہے۔ بے شمار نئی بستیاں آباد ہو گئی ہیں، آبادی بڑھ چکی ہے۔ ریونیو کی از سر نو حلقہ بندیاں نہ ہونے سے موجودہ حلقہ بندیوں میں دیہی علاقوں کو زیادہ جب کہ شہری علاقوں کو کم نمائندگی حاصل ہے‘ حالانکہ اب شہروں کی طرف نقل مکانی نے اس صورت حال کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ الیکشن کمیشن اگست 2009 ء سے مردم شماری کی آئینی حیثیت اور ضرورت پر زور دیتا رہا مگر حکمرانوں کے ذاتی مفادات آڑے آتے رہے۔ اب مردم شماری پاک فوج کی نگرانی میں ہو رہی ہے‘ تو ترکی کی طرز پراسے ایک ہی دن کرفیو کے ذریعے کرایا جائے۔ ملک بھر میں کرفیو نافذ کرکے24 گھنٹوں کے اندر یہ عمل مکمل کر لیا جائے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں