"KDC" (space) message & send to 7575

قرار داد مقاصد کی روح‘ مجروح

نظریہ پاکستان کے علم برداروںکی نظر میں ریاستی نظام کی بنیادیں مذہب میں پیوست ہیں اور جو اس تصور سے مختلف رائے پیش کرے‘ اسے سیکولر گردانا جاتا ہے، لیکن اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو معاملہ کچھ مختلف نظر آتا ہے۔ پاکستان کی بڑی مذہبی سیاسی جماعتیں، جیسے جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی قیام پاکستان کی مخالف تھیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح اور تحریک پاکستان کے دوسرے رہنما لبرل تھے اور تحریک علی گڑھ کے نظریات کے پیروکار۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد اس کے قیام کی مخالف مذہبی جماعتوں نے ہی پاکستان کے نظریے کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے لی۔ متحدہ ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی نے بھی پاکستان بننے کی حمایت کی تھی۔ پاکستان کی سیاست میں سب سے بڑی ترقی پسند جماعت نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما مولانا بھاشانی اور خود جمعیت علما ئے اسلام اعلانیہ متحدہ ہندوستان کی شکل میں سیکولر ریاست کے حامی تھے۔ اسی طرح مشرقی پاکستان کے اہم قومی رہنما بھی سیکولر ذہن کے حامل تھے، جن میں حسین شہید سہروردی اور شیخ مجیب الرحمن شامل تھے۔ مغربی پاکستان کے ممتاز سیاستدان میاں محمد ممتاز خان دولتانہ ایسے خیالات کے حامل تھے۔ پاکستان بننے کی مخالفت کرنے والے مولانا مودودی عظیم مذہبی سکالر تھے اور اس کی حمایت کرنے والے مولانا بھاشانی بھی۔ فرق صرف یہ ہے کہ مولانا مودودی مذہب کو جبکہ مولانا بھاشانی اور حسین شہید سہروردی وغیرہ سیکولرزم کو ریاست کی بنیاد بنانا چاہتے تھے۔ 
پاکستان میں مذہب کو ریاست کی بنیاد بنانے کا عمل تو قرارداد مقاصد سے شروع ہوا، لیکن اس کو عملی شکل دینے کا آغازذوالفقار علی بھٹو جیسی سیکولر شخصیت نے کیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی ایک عظیم المیہ تھا۔ اس سے دو قومی نظریہ اور نظریاتی سرحدوںکے حامیوںکو شدید نقصان پہنچا۔ اندرا گاندھی عملی طور پر دو قومی نظریہ کے خلاف تھیں اور دشمن ملک کی لیڈر کو نظریہ پاکستان کے بارے میں ایسے ریمارکس دینے کی سیاسی ضرورت بھی تھی۔ اسی طرح جب مشرقی پاکستان میں چھ نکات کی بنیاد پر علیحدگی کی تحریک چل رہی تھی تو نام نہاد سیکولر افراد جن میں نیشنل عوامی پارٹی بھی شامل تھی، فوجی مداخلت کے مخالف تھے۔ اس وقت اس نظریے کے رہنمائوںکو غدار وطن ثابت کرنے کے لئے پاکستان کے نام نہاد اسلام پسند اخبارات جنرل یحییٰ خان کو عظیم اسلامی سربراہ کے طور پر قوم کے سامنے پیش کر رہے تھے۔ لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے یہ ثابت ہوگیا کہ بنگالی مسلمانوں پر فوج کشی کرنے والے غلط سمت کی طرف جا رہے تھے۔
1935ء سے 1973ء تک ہمارا آئینی سفر جنوبی ایشیا کی سیاسی تاریخ کا اہم باب ہے۔ 1857ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا اقتدار ختم کرکے بر طانوی راج نافذ ہوا تو پہلا آئین معرض وجود میں آیا۔ اس کے بعد بھی برطانوی حکومت نے متعدد دساتیر تیار کئے۔ آخری دستورگورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ مجریہ1935ء کی شکل میں نافذ ہوا جسے بوجوہ کانگرس اور مسلم لیگ اور ریاستوں کے حکمرانوں نے منظور نہ کیا۔ اس ایکٹ کے تحت صوبائی خود مختاری کا تصور آئینی حیثیت میں سامنے آیا۔ پاکستان اور بھارت کا وجود انڈین انڈی پینڈنس ایکٹ1947ء کا مرہون منت تھا۔ جب پاکستان بنا تو اس وقت اس سر زمین پر1935 ء اور1947ء کے جاری کردہ پی سی او لاگو تھے۔ آزادیٔ ہند کے قانون مجریہ 1947ء کے مطابق گورنر جنرل 1949ء تک آئین میں ترامیم کرنے کا مجاز تھا، اس کے بعد ترمیم کا اختیار مقننہ کے پاس آگیا۔ اسی اختیار کے تحت قائد اعظم نے حلف کے الفاظ میں درج برطانوی بادشاہ سے وفاداری کو تبدیل کرکے آئین سے وفاداری کے الفاظ لکھ کر اسی کے مطابق حلف اٹھایا اور یہ تصور دیا کہ شخصی وفاداری کا دور ختم ہوگیا، آئندہ آئین کی بالا دستی کو یقینی بنایا جائے گا۔
جنرل ضیاء الحق نے آٹھویں آئینی ترمیم کے ذریعے پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی کی متفقہ قرارداد مقاصد میں ایک ایسی ترمیم کردی جس سے اقلیتوں کے حقوق متاثر ہوئے۔ اب ضرورت ہے کہ سپریم کورٹ ازخود نوٹس لے کر قرارداد مقاصدکو اصلی حالت میں لائے۔ قرارداد مقاصد کی اصل شق یہ تھی: ''جس میں قرار واقعی انتظام کیا جائے گا کہ اقلیتیں آزادی سے اپنے مذاہب پر عقیدہ رکھ سکیں اور ان پر عمل کرسکیں اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دے سکیں‘‘۔ آٹھویں ترمیم کے ذریعے قرارداد مقاصد سے لفظ آزادی حذف ہو گیا‘ یہ فعل تحریک پاکستان کے اغراض و مقاصد بلکہ1940 ء کی قرار داد لاہور کے بھی منافی تھا۔ یہ اقلیتوں کے حقوق میں غیر اخلاقی مداخلت تھی۔1985ء کی غیر جماعتی پارلیمنٹ نے جنرل ضیاء الحق کی ترمیم شدہ قرارداد مقاصدکی منظوری دے کر پاکستان کے مقاصدکو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ اس تبدیلی کا نتیجہ یہ نکلا کہ عالمی اقوام بھی پاکستان کے عظیم مقاصدکو شک کی نگا ہ سے دیکھتی ہیں۔ آٹھویں ترمیم کے ذریعے قرارداد مقاصد کے اصل الفاظ اقتدار عوام کے ذریعے کے بجائے مملکت لکھا گیا۔ عوام اور مملکت میں نمایاں فرق ہے۔ قرارداد مقاصد کے مطابق اللہ تعالیٰ ہی پوری کائنات کا بلا شرکت غیرے حاکم مطلق ہے اور پاکستان کے عوام کو جو اختیار واقتدار اس کی مقررکردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہوگا وہ ایک مقدس امانت ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی قرارداد میں مشاورت کے بغیر عوام کے لفظ کو حذف کرکے ریاست لکھواکر قرارداد مقاصد کی روح کو ہی ختم کر دیا۔ لہٰذا ضرورت ہے کہ قرارداد مقاصدکو 1973ء کے آئین کے مطابق بحال کیا جائے۔
پاکستان کی سیاسی جماعتیں ابھی تک منظم و مستحکم نہیں ہو سکیں۔ جماعت اسلامی واحد سیاسی مذہبی جماعت ہے جس کا اپنا مخصوص منشور اور قیادت کے چناؤ کا واضح طریقہ کار موجود ہے۔ جمہوری حکومت اور سیاسی جماعتوں کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ سیاسی جماعت ایسے افرادکا مجموعہ ہوتی ہے جو ریاستی امورکو صحیح خطوط پر چلانے کے لئے ایک منشور پر اتفاق کرتی ہے۔ ایسی جماعتیں مختلف مسائل پر غور و فکر کے بعد پالیسیاں مرتب کرتی ہیں تاکہ اقتدارحاصل ہونے کے بعد ان کو عملی شکل دی جا سکے۔ ایک نقطہ نظرکے مطابق اصل حاکم تو ووٹر ہوتا ہے۔ ووٹ کے ذریعے وہ اپنی پسندکی سیاسی جماعت کوکاروبار سلطنت چلانے کا اختیار تفویض کرتا ہے، لہٰذا ووٹر کی امنگوں اور آدرشوں کو سیاسی سطح پر ترجیح حاصل ہوتی ہے۔ انہی عوامل کے تحت سیاسی جماعتیں لائحۂ عمل تیارکرتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں انتخابی عمل میں اسی لئے حصہ لیتی ہیںکہ اقتدار حاصل کرکے اپنے منشور اور منصوبوں کو عملی شکل دے سکیں، لیکن پاکستان میں جو سیاسی جماعتیں 1970ء سے 2013ء تک اقتدار میں آئیں، انہوں نے منشور کو پس پشت ہی ڈالے رکھا اور اپنے ذاتی مفادات، کاروبار اور سرمایہ کاروں کے مفادات کا تحفظ کرتے رہے۔
پاکستان کا خطہ جمہوری دور میں اصولوں اور نظریات سے وابستہ سیاسی جماعتوں کی نعمت سے محروم ہے۔ قائد اعظم کو صرف اتنی فرصت ملی کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے پاکستان کے حق میں ایک تحریک منظم کرکے کامیابی حاصل کر لی، لیکن ان کی رحلت کے بعد مسلم لیگ ارتقائی منازل طے نہ کر سکی۔ آج مسلم لیگ مختلف گروہوں میں تقسیم ہے اور الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق درجن کے قریب دھڑوں میں بٹ چکی ہے۔ اس کا ایک حصہ مسلم لیگ (ن) کا غلام ہے، وفاقی سطح پر منظم پیپلز پارٹی بھٹو خاندان کی لونڈی ہے، خیبر پختون خوا کی عوامی نیشنل پارٹی اگرچہ داخلی انتخابات کراتی ہے لیکن اس پر باچہ خان کی چھاپ واضح ہے۔ جمعیت علمائے اسلام پر مفتی محمود کے وارثوںکا قبضہ ہے جبکہ متحدہ قومی موومنٹ کی روح الطاف حسین کے پاس ہے۔ سرحد پار کانگرس پر نہروخاندان مسلط ہے اور بنگلہ دیش میں عوامی لیگ پر شیخ مجیب الرحمن کے گھرانے کی گرفت ہے۔ زندہ سیاسی جماعتیں اور شفاف انتخابی عمل صحیح جمہوریت کی بقا اور ارتقا کے اہم عناصر شمار ہوتے ہیں۔ فعال پارلیمنٹ کا وجود انہی عوامل کا نتیجہ ہوتا ہے۔ الیکشن کمیشن کو پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء کے آرٹیکل11 اور 12 کے مطابق پارٹی انتخابات کرا کے پاکستان میں موروثی سیاست کی حوصلہ شکنی کے لئے عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں