"KDC" (space) message & send to 7575

تین حلقوں کے انتخابات کالعدم :نئے الیکشن کی طرف پیش قدمی

الیکشن ٹربیونل ملتان کے جج رانا زاہد محمود نے جہانگیر ترین کیطرف سے حلقہ این۔اے 154 لودھراں کے الیکشن میں کی جانے والی بد عنوانیوں اور بے قاعدگیوں کے بارے میں دائر کردہ پیٹیشن پر اپنا فیصلہ سناتے ہوئے نہ صرف اس حلقے میں ہونے والے الیکشن کو کالعدم قرار دیا ہے، بلکہ جعلی ڈگری کی بناء پر صدیق بلوچ کو تاحیات انتخابات میں حصہ لینے کے لئے نا اہل بھی قرار دے دیا ہے۔ حکمران جماعت کے تیسرے ایم این اے کی اپنی نشست سے محرومی نے حکمران پارٹی پر اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے کے لئے دباؤ بڑھا دیا ہے اور وزیر اعظم نواز شریف نے الیکشن ٹربیونلز کے فیصلوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کے بجائے عوام سے رجوع کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ حکمران جماعت سپریم کورٹ سے ریلیف لینے کے روائتی طریقے سے، جو اس کا آئینی اور قانونی حق ہے، ہٹ کر عوام سے دوبارہ اپنا حق نمائندگی لینے کا فیصلہ کرتی ہے تو اس سے نہ صرف اس کی ساکھ بحال ہو گی، بلکہ انتخابی نظام کے اعتماد میں بھی اضافہ ہو گا۔ حکمران جماعت کو انتخابی عذرداریوں کے منظور یا مسترد ہونے پر ججوں کے خلاف تضحیک آمیز اور دھمکی نما بیانات سے گریز کرنا چاہئے۔ اگر کوئی انڈین جماعت ایسے رد عمل کا اظہار کرتی تو انڈین الیکشن کمیشن نے اس جماعت کی رجسٹریشن ہی منسوخ کر دینی تھی اور وہ ریاست بہار کے وزیر اعلیٰ لالو پرشاد کی پارٹی کے بارے میں ایسا ہی کرنا چاہتی تھی لیکن لالو پرشاد نے معافی مانگ کر اپنی جماعت کو رجسٹریشن منسوخ ہونے سے بچا لیا۔ اسی طرح سنجے گاندھی اور مانیکا گاندھی کے بیٹے روبن سنگھ نے مسلمانان ہند کے جذبات کو مجروح کرنے پر مبنی پالیسی بیان دیاتو الیکشن کمیشن آف انڈیا نے بی جے پی پارٹی کی رجسٹریشن منسوخ کرنے کے نوٹس جاری کر دئیے تھے جس پر واجپائی اور جسونت سنگھ نے معافی مانگی۔ الیکشن ٹربیونل قانون کی رو سے فیصلہ کرتا ہے اور اس کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کیا جا سکتا ہے، چنانچہ ٹربیونلز کو ہدف تنقید بنانا یا سیاسی جماعتوں میں غیر ضروری محاذ آرائی کو ہوا دینا مناسب رویہ نہیں ہے۔ الیکشن ٹربیونلز کے ججوں کا تقرر متعلقہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کی مشاورت سے کیا جاتا ہے لہذا حکمران جماعت کے رانا ثناء اللہ اور پرویز رشید کے بیانات کی روشنی میں لاہور ہائی کورٹ کے معزز چیف جسٹس کو ان کے خلاف از خود نوٹس لینا چاہئے۔ ویسے الیکشن کمیشن بھی الیکشن آرڈر 2002 ء کے آرٹیکل 6 کے تحت ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا مجاز ہے۔
حکمران جماعت کو احساس ہی نہیں ہے کہ سردار ایاز صادق پاکستان کے سپیکر تھے اور ان کو بے ضابطگیوں‘ بے قاعدگیوں اور الیکشن قوانین کی خلاف ورزی کے ضمن میں قومی اسمبلی کی نشست سے محروم ہونا پڑا تو فرسٹ ورلڈ ڈیموکریسی کے ممالک پر پاکستان کے انتخابی نظام کے نقائص سامنے آگئے ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی ریاست کی وحدت کی علامت ہوتا ہے اور صدر مملکت کے بعد ان کی آئینی اور قانونی حیثیت بین الاقوامی طور پر صدر مملکت کے بعد ہی تصور کی جاتی ہے۔ الیکشن ٹرابیونل کے فیصلہ کے بعد جمہوری ممالک کو ان کے بارے میںاچھاتاثر نہیں ملا۔ جون 1995ء میں وزیر اعظم بھارت اندرا گاندھی کو بھی الیکشن قوانین کی خلاف ورزی ، ضابطہ اخلاق سے انحراف اور اپنی انتخابی مہم میں سرکاری وسائل یعنی ہیلی کاپٹر استعمال کرنے پر الہ آباد کے جج سنہا نے ان کو نااہل قرار دے دیا تھا اور موصوفہ اپنی مٹھی کی نشست سے بھی محروم ہو گئی تھی۔ بہرحال سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی نشست سے محرومی سے الیکشن 2013 ء متنازعہ ترین الیکشن قرار دئیے جا رہے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی جمہوریت کو سوالیہ نشان بنا دیا گیا ہے۔ یورپی ممالک کو اس فیصلہ سے پاکستان میں جمہوری نظام پر مایوسی ہوئی ہے۔
حکمران جماعت کے صدیق بلوچ نے حلقہ 154 سے اگرچہ آزاد رکن کی حیثیت سے انتخاب میں حصہ لیا تھا، نادرا کی مفصل رپورٹ کی روشنی میں اس حلقے میں 20 ہزار سے زائد ووٹوں کی کاونٹر فائل پر شناختی کارڈ نمبر نہیں تھے یا غلط درج تھے۔ این اے 154 قومی اسمبلی کا تیسرا حلقہ ہے، جس میں 11 مئی 2013 ء کے الیکشن میں ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی اور دیگر معاملات کی تحقیق کے بعد الیکشن ٹربیونل نے انتخاب اور نتائج کو کالعدم قرار دے دیا۔
الیکشن میں قانون کی خلاف ورزی ہی دھاندلی کہلاتی ہے۔ یہ انتخابی نظام کی خوبی ہے یا خرابی کہ ریٹرننگ افسران اور الیکشن عملہ کی غلطیوں کی سزا منتخب نمائندے کو ملتی ہے۔ انتخابی عذرداری میں اگر کوئی امیدوار دھاندلی یا کسی مجرمانہ فعل کا مرتکب ثابت ہو جائے تو اسے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے نا اہل قرار دے دیا جاتا ہے۔ اس صورت میں کامیاب قرار پائے گئے امید وار کے مد مقابل کو رکن اسمبلی قرار دے بھی دیا جاتا ہے۔ یہ صورت حال سردار ایاز صادق کے معاملہ میں نہیں ہوئی۔ ایاز صادق نے الیکشن ٹربیونل کے سربراہ کاظم علی ملک کے فیصلے کو آئین اور قانو ن کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلے میں تعصب نظر آرہا ہے۔ قوم کو احساس ہونا چاہئے کہ سابق سپیکرجو جعل سازی سے سپیکر کی نشست پر قابض رہے‘ جج کے فیصلے کو آئین اور قانون کے خلاف قرار دے کر عوام کو گمراہ کر رہے ہیں اور اپنے ذاتی مفادات کے پیش نظر انصاف مہیا کرنے والوں کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ انہی سپیکر صاحب نے تحریک انصاف کے قومی اسمبلی کے ارکان کے استعفیٰ منظور نہ کر کے آئین کے آرٹیکل 64 کی خلاف ورزی کی اور اسی طرح ایم کیو ایم کے حقیقی استعفوں کو وزیر اعظم کا اشارہ آنے پر منظور نہ کرکے دوبارہ آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ایاز صادق آئین کے آرٹیکل 6 کی زد میں آتے آتے بچ گئے ہیں۔ اگر تحریک انصاف کے استعفیٰ واپس نہ ہوتے تو و ہ آئین کے آرٹیکل 6 کی زد میںآ سکتے تھے۔ اب جب کہ متحدہ قومی موومنٹ نے 12 اگست کو قومی اسمبلی کے سپیکر کے رو برو آئین کے آرٹیکل 64 کی روح کے عین مطابق پیش کر دئیے تھے اور متحدہ کے قائد جناب الطاف حسین نے ایک نجی ٹیلی وژن کے پروگرام میں برملا کہہ دیا تھا کہ استعفوں کا اصولی فیصلہ کیا ہے‘ نظرثانی کی گنجائش نہیں ہے تو سپیکر قومی اسمبلی نے وزیر اعظم نواز شریف سے کلیرنس لینے کی ضرورت کیوں محسوس کی؟ اسی طرح سابق سپیکر نے قصور کے معصوم بچوںکے سانحے پر اسے صوبائی مسئلہ قرار دے کر قومی اسمبلی کے وقار کو مجروح کیا، جبکہ نواز شریف اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف متاثرین قصور کے ساتھ کھڑے نظر آ رہے ہیں۔
جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ بھی متنازعہ ہونے سے بچ گئی کیونکہ صورت حال بڑی مضحکہ خیز تھی جب رپورٹ سب سے پہلے وزیر اعظم کو ارسال کر دی گئی اور وزیر اعظم کے میڈیا سیل نے رپورٹ میں اپنے حق میں آنے والے مندرجات وفاقی وزراء کے ذریعے اپنے پسندیدہ میڈیا ہائوسز کو پہنچا دے۔ اصولی طور پر جوڈیشل کمیشن کے سربراہ کو انکوائری کمیشن کی رپورٹ وزارت جسٹس و پارلیمانی امور کو بھجوانے کے ساتھ ساتھ اس کی کاپیاں تمام پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو براہ راست بھجوانی چاہئے تھیں۔ الیکشن ٹربیونل کے فاضل جج کاظم علی ملک کویہ بھی چاہئے تھا کہ خواجہ سعد رفیق کے فیصلے کے تناظر میں سپیکر قومی اسمبلی کی دو سال کی تنخواہ کا حساب کرتے، مراعات کا جائزہ لیتے، بیرونی دوروں پر اٹھنے والے اخراجات کا تخمینہ لگاتے اور پھر ان تمام رقوم کو قومی خزانے میں جمع کروانے کا حکم دیتے ، یہاں فاضل جج نے ان کو ریلیف دیتے ہوئے خواجہ سعد رفیق کے کیس کو سننے والے فاضل جج کی پیروی نہیں کی۔
ایا ز صادق اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے بعض دوستوں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ کاؤنٹر فائلوں پر دستخط یا مہر کا نہ ہونا یا انگوٹھوں کے نشانات کے لئے ناقص سیاہی کا استعمال ، بے ضابطگی، بے قاعدگی یا پولنگ سٹاف کی نا اہلی اور کوتاہی تو ہے، دھاندلی کیسے ہو گئی اور اس کی سزا ووٹر اور اس کے امید وار کو کیوں دی جائے؟ الیکشن ٹربیونل کے فاضل جج کاظم علی ملک نے اسی بناء پر حلقہ 122 کے الیکشن کو کالعدم قرار دے دیا ہے کہ 183500 ووٹوں میں سے 93582 ووٹوں کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ ٹربیونل کے فیصلے کے مطابق تصدیق اس لئے نہیں ہو سکی کہ انگوٹھے لگانے کے لئے استعمال ہونے والی سیاہی ناقص تھی اور انگوٹھوں کو لگے کافی دیر بھی ہو چکی تھی دراصل یہاں پر الیکشن کمیشن پرذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس کی انتظامیہ نے ایسی ناقص سیاہی کی روک تھام کے لئے ضروری اقدامات کیوں نہیں کیے اور ناقص سیاہی کی تیاری میں کس ادارے کی کو تاہی شامل تھی۔ 6862 کاؤنٹر فائلوں پر درج شناختی کارڈ نمبروں کے ہندسوں کی تعداد نادرا کی ٹیکنالوجی کے معیار سے کم تھی۔ 23525 ووٹوں کی کاؤنٹر فائلوں پر متعلقہ پریزائڈننگ افسر کے دستخط اور مہر موجود نہیں تھی، 750 ووٹ ایسے نکلے جن پر پریزائڈننگ افسر کی مہر نہیں تھی۔ حکمران جماعت کے دانشور وزراء یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کاونٹر فائلوں پر شناختی کارڈوں کے نمبروں کی کمی بیشی یا ان پر پریزائڈننگ افسران کے دستخط اور مہر کی عدم موجودگی کے ذمہ دار ووٹر یا ان کے پسندیدہ امیدوار کیسے ہو گیا اور یہ بھی کہ غیر شناخت شدہ یا مہر اور دستخطوں کے بغیر کاؤنٹر فائلوں والے بیلٹ پیپر ز کیا سارے کے سارے ایاز صادق کے تھے؟۔ ظاہر ہے کہ ان میں بڑی تعداد عمران خان کے ووٹوں کی بھی ہوگی۔ اس سلسلہ میں قارئین اور سیاسی جماعتوں کی رہنمائی کے لئے میں ان کی توجہ عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 68(d) کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں جس میں واضح طور پر یہ قانونی نکتہ ہے کہ ایسی تمام بد عنوانیوں کی ذمہ داری کامیاب امیدوار پرآتی ہے۔ اگر الیکشن ٹربیونل کے فاضل جج کے فیصلے کا عمیق نگاہوں سے جائزہ لیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ پولنگ سٹاف دباؤ کے تحت اس مجرمانہ قانون شکنی کا مرتکب ہو ا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں