"KDC" (space) message & send to 7575

اندرونی دشمن

پاکستان کی فضائوں میں دہشت گردی کے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم آج بھی اپنے اندرونی دشمنوں کو پہچان نہیں پا رہے۔ ہمیں بھارتی اور دیگر ممالک کے کارندوں نے تاریخی حقائق کے تانوں بانوں میں الجھا دیا ہے۔ 1989ء میں افغانستان سے روسی افواج کا انخلا ہوا تھا اور آج امریکی اور اس کی اتحادی افواج اسی بین الاقوامی میدان جنگ سے کوچ کر رہی ہیں۔ لیکن گزشتہ تین دہائیوں سے افغانستان میں بھڑکنے والی آگ کے شعلے نہ صرف ہمارے آنگن تک پہنچ چکے ہیں بلکہ ہمارے گھر بھسم کرنے کے در پے ہیں۔ اس خطرناک صورت حال میں ہمیں اپنے ماضی کو تنقیدی نظر سے پرکھنے کی ضرورت ہے۔
افغان مجاہدین کی جہادی تنظیموں کی بنیاد افغانستان میں صدر داؤد کی جدت پسند سوچ رکھنے والی حکومت کے خلاف رکھی گئی تھی۔ پاکستان میں ان کی مالی، تنظیمی اور تربیتی معاونت کا آغاز وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے شاہ ایران کے ایماپرکیا تھا۔ سوویت افواج کی افغانستان آمد کے بعد جنرل ضیاء الحق کے لیے یہ صورت حال بہت سود مند ثابت ہوئی۔ انہوں نے اپنے غیر مقبول مارشل لاء کی توثیق اور امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اسی کی مالی معاونت سے سر زمین پاکستان پر افغان مجاہدین کے تربیتی کیمپوں کا ایک وسیع جال بچھا دیا اور پاکستانی افواج کی زیر سرپرستی افغان اور سوویت افواج کے خلاف عسکری کارروائیوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ امریکیوں نے سابق سوویت یونین کو ایک باقاعدہ حکمت عملی کے تحت افغانستان میں فوجی 
مداخلت کے لیے غیر محسوس انداز میں ترغیب دی تاکہ اپنی سرزمین سے ہزاروں میل دور، سوویت یونین کی سرحدوں کے ساتھ، افغانستان کو ایک عالمی جنگی اکھاڑہ بنایا جا سکے۔ امریکی منصوبہ سازوں نے اس مقصد کے لیے ایک طویل حکمت عملی پر عمل کیا تھا۔ اس میں ٹیکساس سے تعلق رکھنے والی ایک بااثر اور مالدار خاتون جوان کنگ ہیرنگ (Joann King Herring)کا اہم کردار ہے جو اس وقت جنرل ضیاء الحق کے قریب ہوئی جب وہ (جنرل ضیا) بحیثیت بریگیڈیئر اردن میں فلسطین کی تحریک آزادی کو کچلنے کے سبب امریکیوں کے لیے اہم مقام حاصل کر گئے تھے۔ جوان کنگ ہیرنگ نہ صرف ٹیکساس کے ایک مالدار خاندان سے تھی بلکہ وہ امریکی حکمرانوں اور سی آئی اے کے پالیسی سازوں کی قریبی آلہ کار بھی تھی۔ وہ جنرل ضیاء الحق کی خصوصی مہمان نوازی حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوئی اور اطلاعات کے مطابق جنرل ضیاء الحق نے اس کے اپنے ہاں یعنی آرمی ہاؤس میں قیام کا ایسے اہتمام کیا جیسے کسی قریبی رشتہ دار کا کیا جاتا ہے۔ پھر اسی قربت کی بنیاد پر سی آئی اے کی اس آلہ کار خاتون کو جنرل ضیاء الحق نے نہایت فراخ دلی سے تمام سفارتی تقاضے بالائے طاق رکھتے ہوئے بوسٹن میں پاکستان کی اعزازی قونصلر جنرل نامزد کر دیا۔ جوان ہیرنگ نے ہی افغان جہاد کے حوالے سے کانگرس کے معروف کارندے چارلی ولسن کو جنرل ضیاء الحق اور ان کے رفقائے کارکی قربت میں شامل کیا جو امریکہ کے طے کردہ افغان جہاد کا اہم ستون اور سی آئی اے کا اہم کارندہ تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنی دوست جوان ہیرنگ کو پاکستان کے اعلیٰ ترین سول ایوارڈ تمغہ قائداعظم سے بھی نوازا۔ یہ ان خدمات کا اعتراف تھا جو وہ امریکہ اور پاکستان کے لیے افغانستان میں انجام دے رہی تھی۔
اس امریکی جہاد کے اہم منصوبہ سازوں میں سی آئی اے کا ایک اور اعلیٰ عہدے دار Gustav Lescans Avrakotos بھی تھا جو یونان میں کمیونسٹوں کے خلاف اور قبرص میں یونانی مذہبی انتہا پسندوں کی منصوبہ بندی اور سرپرستی کے حوالے سے امریکی پالیسی سازوں کے لیے قابل قدر شخص تھا۔گستاف نے دراصل اپنے تجربے کی بنیاد پر افغان جنگ، مصر، پاکستان ، چین ، اسرائیل اور سعودی عرب کے عہدے داروں کے مابین رابطے قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا جبکہ اردن میں ضیاء الحق نے بطور بریگیڈیر، سی آئی اے کے ساتھ روابط قائم کر لیے تھے۔ جوان ہیرنگ کی لابی نے چیف آف آرمی سٹاف کے تقررکے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا۔ جوان ہیرنگ کے علاوہ وائٹ ہاؤس کی طاقتور اور مؤثر شخصیات نے وزیر اعظم کے قابل اعتماد وزرا کے ذریعے ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل ضیاء الحق کے بارے میں سحر زدہ کر دیا تھا۔ اس میں رفیع رضا کا اہم کردار رہا جو مبینہ طور پر سی آئی اے کے پے رول پر تھے۔ ان کے مشورے سے ذوالفقار علی بھٹو نے7 جنوری1977ء کو پارلیمنٹ تحلیل کرکے ملک میں قبل از وقت عام انتخابات کرانے کا اعلان کردیا۔ انتخابی نتائج کے خلاف احتجاجی تحریک چلی۔ جولائی 1977ء میں جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگا کر بھٹو بھٹو کا اقتدار ختم کردیا اور بعد میں ایک مقدمہ قتل میں انہیں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔
بیرونی مداخلت کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ سیاست دانوں نے بیرونی امداد کے حصول کے لیے راستہ ہموارکیا۔ ادھر امداد دینے والوں کو جمہوری حکومت کی بجائے آمریت پسند تھی کیونکہ آمریت میں فرد واحد سے بات چیت کافی ہوتی ہے۔ امریکہ اور مغربی طاقتوں کے مفادات عربوں کے تیل سے وابستہ ہیں۔ اگر پاکستان میں جمہوریت پروان چڑھے تو ان ریاستوں پر اس کا اثر پڑنا لازمی ہے، لہٰذا عرب ممالک کی دلچسپی اسی میں ہے کہ پاکستان میں امن و امان اور جمہوریت متزلزل رہیں۔ اس معاملے میں ہماری مذہبی جماعتوں نے تیل سے مالا مال مسلمان ریاستوںکا ایجنڈا آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ سابق ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل پاشا نے مئی2011ء میں بلائے گئے پارلیمنٹ کے خصوصی مشترکہ اجلاس میں اہم انکشافات کرتے ہوئے کہا تھاکہ پاکستان کی بعض با اثر مذہبی جماعتوںکو مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک سے فنڈزمل رہے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کے بعض نجی اداروں نے عراق، ایران جنگ سے پیشتر عراقی صدر صدام حسین سے لاکھوں ڈالر وصول کیے تھے۔ بعض شرق اوسط کے ایک بااثر ملک کے فرنٹ مین بنے رہے اور ان کی ایجنسیوں سے ان کے ذاتی تعلقات رہے۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو چاہیے کہ وہ ایسے بااثر صحافیوں پر نظر رکھیں جو اپنے مذموم ارادوں پر پردہ ڈالنے کے لیے صدر ممنون حسین اور وفاقی وزیر خزانہ کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں۔ ان کے ان ممالک کی ایجنسیوں سے گہرے تعلقات ہیں اور اب ان کے ذاتی مفادات کا رخ جمہوریہ چین کے مقامی سفارت کاروں کی طرف ہے۔ اسلام آباد کے بعض با اثر صحافی صدر اور وزیر اعظم میںخلیج پیدا کرنے کے مذموم پروگرام کا حصہ ہیں۔ ایسے عناصر پر نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ محترم عرفان صدیقی صاحب کو اس ضمن میں اپنا اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔
پاکستان میں انتخابات ہمیشہ متنازع رہے۔ عبدالحفیظ پیرزادہ مرحوم نے عدالتی کمیشن میں تحریک انصاف کی جانب سے الیکشن 2013 ء کو انجینئرڈ ثابت کرنے کے لیے بڑی مہارت سے مقدمہ لڑا، لیکن مرحوم نے اہم نکات کو نظر انداز کردیا۔اب ملک میں حلقہ 122اور حلقہ 154 میں ضمنی انتخابات 11 اکتوبر کو ہونے والے ہیں اور بلدیاتی انتخابات کا بھی انعقاد ہو رہا ہے، سیاسی جماعتوں کوچاہیے کہ وہ اپنے ہوم ورک پر توجہ مرکوز رکھیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں