"KDC" (space) message & send to 7575

جنرل راحیل شریف کی تقریرمیں رہنما اصول

قائد اعظم کے انتقال کے اگلے روز سے ہماری صفوں میں تقسیم شروع ہوگئی اور ساتھ ہی گویا قائد اعظم کے تصور ریاست ، آئین کی بالا دستی ، قانون کی پابندی، قومی دیانتداری‘ ریاستی ذمہ داریوں کے احساس اور دیگر تمام اصولوں کی تدفین کا بھی آغاز ہوگیا۔ آج ہم اس تدفین کو قریب قریب مکمل کر چکے ہیں۔ بانیٔ پاکستان نے 11 اگست 1947ء کو آئین ساز اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے مستقبل کے آئین کے خدوخال کے بارے میںقوم کو رہنما اصول دے دئیے تھے۔ مگر راقم الحروف نے اس تاریخی تقریر کو آئین کے دیباچہ میں شامل کرنے کے لئے صدر مملکت ‘ وزیراعظم‘ چیئر مین سینیٹ، سپیکر قومی اسمبلی، چیف الیکشن کمشنراور لیڈر آف دی اپوزیشن کو ریفرنس بھجوا دئیے ہیں۔
نظریۂ پاکستان کی تاریخ کے بارے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس منیر احمد‘ جو بائونڈری کمیشن کے رکن اور 1953 ء کی اینٹی قادیانی تحریک کی تحقیقاتی ٹیم کے چیئر مین بھی رہے تھے، اپنی کتاب '' جناح سے ضیاء تک‘‘ میں لکھتے ہیںکہ ہم نے برسوں قائد اعظم محمد علی جناح کی زیر قیادت کام کیا، لیکن ہم نے کبھی ان کی زبان سے نظریۂ پاکستان کا لفظ نہیں سنا۔ نظریۂ پاکستان کا لفظ سب سے پہلے لائل پور سے ممبر قومی اسمبلی میاں عبدالباری نے اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے بولا۔ یہ صدر ایوب خان کا زمانہ تھا،جو اس وقت بیرونی دورے پر تھے۔ میاں عبدالباری نے کہا کہ پاکستان کو نظریۂ پاکستان کے مطابق چلانا ہوگا۔ سابق صدر مملکت چوہدری فضل الٰہی بھی اس اسمبلی کے ممبر تھے۔ انہوں نے میاں عبدالباری سے پوچھا کہ نظریۂ پاکستان کیا ہے ؟تو وہ بولے ''نظریۂ اسلام‘‘۔ چنانچہ یہاں سے نظریۂ پاکستان کی اصطلاح کا آغاز ہوگیا اور وہ مذہبی جماعتیں جو قیامِ پاکستان کے فوراً بعد اسلامی نظامِ حکومت کا احیاء چاہتی تھیں، انہوں نے نظریہ پاکستان کو اپنا نصب العین بنا لیا جس سے بطور خاص فائدہ جنرل یحییٰ خان اور جنرل ضیاء الحق نے اٹھایا اور نظریہ پاکستان کے نام پر اپنے اقتدار کو طول دیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ نظریۂ پاکستان ہمارے ملک کو 23 سال سے زیادہ متحد نہ رکھ سکا۔
آئین کے آرٹیکل 64 اور قومی اسمبلی کے رولز آف بزنس 43 کے تحت سپیکر یا چیئر مین سینیٹ کو کسی رکن کے استعفیٰ کی صحت پر شک ہو یا ان کے پاس ایسی اطلاع ہو جس کے مطابق استعفیٰ اسمبلی کے مرتب کردہ ضابطۂ کارکی شرائط پر پورا نہ اترتا ہو تو ایسی صورت میں وہ مستعفی رکن یا ارکان سے ذاتی طور پر یا قومی اسمبلی کے سیکرٹری کے ذریعے استعفیٰ کی تصدیق کر سکتے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے سید ظفر اللہ شاہ کی جانب سے دائر کی گئی ایک آئینی درخواست‘ جس کے ذریعے سپیکر قومی اسمبلی کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کے ممبران کے استعفے منظور نہ کرنے اور مستعفی اراکین سے استعفوں کی تصدیق کے عمل کو خلاف آئین گردانتے ہوئے سوالات اٹھائے تھے، کو نمٹاتے ہوئے قرار دیا کہ سپیکر قومی اسمبلی آئین کے آرٹیکل 64 کے تحت استعفوں کی آزادانہ اور انفرادی طور پر تصدیق کرنے کے پابند ہیں۔ یہاں پر آئین کے آرٹیکل 64 میں آزادانہ اور انفرادی طور پر تصدیق کرنے کوئی ذکر نہیں ہے۔ آئین کا آرٹیکل 64‘ 1935ء‘ 1950ء 1956,ء اور1962 ء کا ہی تسلسل ہے۔ یم کیوایم اور تحریک انصاف کے اراکین کے استعفوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ تحریک انصاف کے اراکین نے اپنے استعفے بالواسطہ طور پر قومی اسمبلی میں اپنے پارلیمانی لیڈر شاہ محمود قریشی کے توسط سے جمع کروائے تھے، جس پر سپیکر کو ارکان اسمبلی سے تصدیق کا ایک نام نہاد اصولی جواز حاصل ہو گیا تھا، حالانکہ عمران خان بار بار ان ارکان کے استعفے منظور کرنے کا مطالبہ کرتے رہے‘ مگر سابق سپیکر قومی اسمبلی آئین سے انحراف کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کے اشارے کے منتظر رہے، جب کہ متحدہ قومی موومنٹ کے ارکان کی جانب سے اپنے اپنے استعفے سپیکر کے پاس اجتماعی حاضری میں بہ نفس نفیس جمع کرائے گئے تھے اور سردار ایاز صادق نے ضابطہ کے مطابق ان انفرادی استعفوں پر قانون کے مطابق 'Pl. Process ‘لکھ کر سیکرٹری قومی اسمبلی کو مارک کر دیئے تھے۔ قانونی طور پر سپیکر قومی
اسمبلی Approved لکھنے کا مجاز نہیں ہے کیونکہ ارکان قومی اسمبلی سپیکر کے PayRoll پر نہیں ہیں اور نہ ہی سپیکر ان کا ایڈمنسٹریٹو چیئرمین ہے، لہٰذا ضابطہ کے مطابق Pl. Process لکھنے کا مطلب یہی ہے کہ ان کے استعفے منظور ہو چکے ہیں۔ یہاں پر وزیر اعظم نواز شریف نے غیر آئینی طور پر مداخلت کی اور مولانا فضل الرحمن کی سرپرستی میں مذاکراتی ٹیم تشکیل دے کر آئین کے آرٹیکل 64 کی روح سے انحراف کے مرتکب ہوئے، لہٰذا سپیکر قومی اسمبلی کے پاس متحدہ قومی موومنٹ کے ارکان کے استعفے فی الفور منظور نہ کرنے کا کوئی اصولی‘ آئینی اور قانونی جواز نہیں تھا۔ اس بنیادی اور واضح فرق کے باوجود تحریک انصاف کے بھی استعفے اصولی طور پر منظور ہو چکے ہیں۔ اب معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اگر معاملہ مملکت کے تیسرے طاقتور ترین فریق اور آئین کے محافظوں یعنی عدلیہ کے سامنے آتا ہے تو کیا وہ آئین کی حفاظت کے لئے ایک سخت فیصلہ کرے گی۔
قومی ایکشن پلان کمیٹی کے اہم اجلاس میں وزیر اعظم نواز شریف نے قومی ایکشن پلان کی سول قیادت پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے اور سندھ کے مرد بیمار وزیر اعلیٰ آصف علی زرداری کے مفادات کا تحفظ کرتے نظر آرہے ہیں، مگر احتساب کا سلسلہ جو سندھ سے شروع ہوا ہے، وہ سکھر کے راستے بہاولپور میں داخل ہوگا اور پھر ملتان سے ہوتا ہوا لاہور میں چند روز کی کارروائی کے بعد فیصل آباد سے ہوتا ہوا اسلام آباد میں داخل ہو جائے گا، جس کے بعد بعض با اثر شخصیات اور بااثر گھرانے کے فرنٹ مین کی گرفتاریوں سے معاملے کا آغاز ہو گا۔ ان دنوں لاہور میں پُراسرار سرگوشیوں کا بازار گرم ہے کہ قومی احتساب بیورو‘ ڈاکٹر عاصم حسین کا حساب برابر کرنے کے لئے ملک کی ممتاز شخصیت کے فرزند کو حراست میں لینے کی حکمت عملی تیار کر رہا ہے۔
اس وقت افواج پاکستان ضربِ عضب کے تحت قبائلی علاقوں سے جنگجوؤں کا صفایا کر چکی ہیں اور افواج پاکستان نے اچھے اور بُرے جہادیوں کے درمیان فرق کو بھی مٹا دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر غیر ریاستی مسلح گروہ آخر میں ریاست کے لئے چیلنج بن کر سامنے آتا ہے اور اس سلسلہ میں کسی لشکر کو مستثنیٰ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ جنرل راحیل شریف کی 6 ستمبر کی پالیسی ساز تقریر کے بعد حالات بتا رہے ہیں کہ بھارت پاکستان کے اندرونی معاملات میں میڈیا کے ذریعے مداخلت کی کوشش کر رہا ہے اور ایسی تنظیموں کی مالی امداد کر رہا ہے جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے در پے ہیں۔ بھارتی حکومت پر ہندو مذہبی رجعت پرست قابض ہو چکے ہیں۔ بھارت اپنے مخصوص میڈیا پرسنز کے ذریعے پاکستانی عوام میں مذہبی انتشار کے بیج بونے کے لئے لاکھوں ڈالر تقسیم کرا رہا ہے‘ لہٰذا پاکستان کی عسکری قیادت کو ان پر نگاہ رکھنی ہو گی۔ سیاسی جماعتوں کو جنرل راحیل شریف کی 6 ستمبر 2015ء کی 11 منٹ کی تقریر کو اپنے منشور کا حصہ بنا لینا چاہئے، اسی حکمت عملی میں پاکستان کی بقاء اور سا لمیت پوشیدہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں