"KDC" (space) message & send to 7575

صدرکا براہ راست انتخاب ہونا چاہیے

شمالی وزیرستان میں افواج پاکستان کے جاری آپریشن ضرب عضب سے بوکھلائے ہوئے دہشت گردوں نے بڈھ بیرایئر بیس پر حملہ کرکے قومی ایکشن پلان کو ایک مرتبہ پھر لہو لہان کر دیا۔ میرے خیال میں سکیورٹی فورسز کو قومی ایکشن پلان کے حوالے سے سیاستدانوں کی طرف سے مکمل حمایت اور تعاون حاصل نہیں ہو رہا۔ کرپشن زدہ سیاستدانوں کی مزاحمت ان کی راہ میں آڑے آ رہی ہے۔ سانحہ بڈھ بیر کے بعد حکومتی وزراء کے جو بیانات آ رہے ہیں، ان کا عمیق جائزہ لیا جائے توظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے ڈھکے چھپے انداز میں فوج کی حکمت عملی پر تنقید کی ہے۔ ان بیانات کی زبان اور لہجے کی تحقیق ماہرین نفسیات سے کروائی جانی چاہیے۔
ان حالات کے باوجود جنرل راحیل شریف نے اندرونی اور بیرونی دشمنوںکی سازشیں ناکام بنائیں اور ریاست کی رٹ کو مستحکم بنایا ۔ امید ہے پاکستان ایک بار پھر مضبوط و مستحکم ملک کے طور پر ابھرے گا۔ جنرل راحیل شریف کو آئین کے آرٹیکل 244 اور 245کو مد نظر رکھتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان کے سترہ رکنی فل کورٹ کے فیصلے کا بھی بغور جائزہ لینا ہوگا۔ میں قارئین، آئینی ماہرین، دانشوروں اور ارکان پارلیمنٹ کی رہنمائی کے لئے سپریم کورٹ کے فیصلے کا ایک مختصراقتباس پیش کر رہا ہوں:
In the light of the observations and directions of the Supreme Court in para 57,last eighteen lines of its Judgment dated 31.7.2009 in the case of Sindh High Court Bar Association,It has been observed as under: 
" And it is against the dignity and honour of each and every soldier of the Armed Forces: Pakistan Army, Pakistan Navy and Pakistan Air Force, who is oath-bound to bear true faith and allegiance to Pakistan and uphold the Constitution, which embodies the will of the people; not to engage himself in any political activities whatsoever; and to honestly and faithfully serve Pakistan in the respective services. Within such parameters, a soldier must remain committed to defending Pakistan until the last drop of his blood against external aggression or threat of war, and subject to law, acting in aid of civil power when called upon to do so under the directions of the Federal Government. In the course of the discharge of his duties, a soldier, therefore, is obligated to seeing that the Constitution is upheld, it is not abrogated, it is not subverted, it is not mutilated, and to say the least, it is not held in abeyance and it is not amended by an authority not competent to do so under the Constitution. If a member of the Armed Forces acts in aid of a person who does any of the above acts, or any other similar act, he violates his oath and renders himself liable to action under and in accordance with the Constitution and the law.
ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ سیاستدانوں میں جمہوریت کے نام پر آمرانہ ذہن موجود ہے۔ کسان کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف نے دلبرداشتہ ہوکر ایک مبہم سا اشارہ دیا کہ کچھ مفاد پرست گروہ انہیں اقتدار سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم کو اس منزل پر پہنچانے والے ان کی کچن کیبنٹ، ان کا پارلیمنٹ کی کارروائیوں سے لاتعلق ہونا اور قومی فیصلے کروانے والے اہم بیوروکریٹس ہیں۔ سرکاری اداروںکا سالانہ نقصان 400 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے جو انتظامی اور مالی بے ضابطگیوں کا نتیجہ ہے۔
ہماری سیاسی تاریخ میں ایک نازک مرحلہ آن پہنچا ہے، ہماری قوم اس سے نبرد آزما ہونے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ قومیں اور ادارے ایک مقام پر جامد نہیں ہوا کرتے، ہمارے ریاستی اداروںکی سوچ میں تبدیلیاں آنا شروع ہوگئی ہیں، جن کے اثرات چند مہینوں میں سامنے آجائیںگے۔ پاکستان میں جمہوریت نے قوم کوکیا دیا؟ درجنوں سیاستدانوں نے اربوں ڈالرز سے دبئی، برطانیہ، سپین، آسٹریلیا، امریکہ اور کینیڈا میں جائیدادیں بنا رکھی ہیں۔ ہمارے موجودہ اور سابق حکمرانوں نے کرپشن کی کھلی چھوٹ دیے رکھی اور یہ سب کچھ جمہوریت کے نام پر کیا گیا۔ زمینی صورت حال تو یہ ہے کہ کرپشن صرف سندھ یا پنجاب میں نہیں بلکہ پورے ملک میں ہو رہی ہے۔ بلوچستان میں سابق صوبائی حکومت کے وزراء اور وزیر اعلیٰ بھی اربوں روپے کی کرپشن میں ملوث رہے۔ یہی صورت حال خیبر پختون خوا میں ہے۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان بھی کرپشن کی زد میں ہیں۔ خیبر پختون خوا کی حکومت نے مالی بد عنوانیوں کی روک تھا م کے لئے سب سے پہلے فعال، موثر اور غیر جانبدار صوبائی احتساب کمیشن قائم کیا جس نے بعض اہم سیاسی شخصیات کی کرپشن کو بے نقاب کیا اور ان کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے۔ اب سندھ کے معمر وزیر اعلیٰ نے صوبائی احتساب کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن یہ نیشنل ایکشن پلان کمیٹی کی آنکھ میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ دراصل کرپشن کے معاملات قومی احتساب بیورو کو ہی دیکھنے پڑیں گے کیونکہ اس بیماری کا علاج سندھ کی حکومت نہیں ہونے دے گی۔ ایک قومی ادارے کے سروے کے مطابق ملک کے 84 فیصد سرکاری اداروں میں کرپشن بڑھ رہی ہے۔ دنیا کے کرپٹ ترین ملکوں میں پاکستان34 ویں نمبر پر ہے۔ قومی وسائل اور عوام کے ٹیکسوںسے حاصل ہونے والے کھربوں روپے ملک کی تعمیر و ترقی، خوشحالی اور شہری سہولتوں پر خرچ ہونے کے بجائے اس کا بڑا حصہ بد دیانت اور بد عنوان سیاستدانوں کے ہاں جا رہا ہے، ان میں بعض طاقتور بیوروکریٹس بھی شامل ہیں۔ یہ خائن لوگ اپنے اثر و رسوخ اور حکمران جماعت کے فرنٹ مین کی وجہ سے نیب کی کارروائی سے محفوظ رہتے ہیں ۔ 
بدقسمتی سے سابق صدر پرویز مشرف نے احتساب کا سنہری موقع اپنے چند مفاد پرست دوستوں کو بچانے کے لیے ضائع کر دیا۔ انہوں نے اپنے دور حکومت میںآصف زرداری اور ان کے ہم نوا گروپ کے مقدمات منطقی انجام تک نہیں پہنچائے۔ جب نیب کے چیئرمین جنرل شاہد عزیز نے نواز شریف اور ان کی فیملی کے خلاف تین سو سے زائدکرپشن، بد عنوانی اور منی لانڈرنگ کے کیسز پر ہاتھ ڈالنا چاہا تو صدر پرویز مشرف نے انہیں سختی سے روک دیا جس پر وہ دل برداشتہ ہوکر مستعفی ہوگئے۔ اسی طرح وہ(پرویز مشرف) ایم کیو ایم کے بھی جھانسے میں آگئے، اسے اقتدار اورگورنر شپ سے نوازا۔ انہوں نے امریکہ اور بعض عرب دوستوں کے ایما پر بینظیر بھٹو سے این آر او کرکے آصف زرداری اور نوازشریف کو جمہوریت کی آڑ میں ملک پر مسلط کیا۔ مسلم ممالک میں سب سے زیادہ مضبوط و مستحکم ملک پاکستان آج بعض عرب ممالک کے ہاتھوں میں یرغمال بنا ہوا ہے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں جب ان ممالک کا کوئی سربراہ پاکستان آتا تھا تو وزارت خارجہ کا پروٹوکول افسر ان کا استقبال کرتا تھا، مگر آج یہ پاکستان کے بد عنوان سیاستدانوں اور حکمرانوں کے لئے محفوظ ممالک کا روپ دھار چکے ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے لئے سیاسی اور عسکری قیادت نے شدت پسندوں کی مالی اعانت روکنے کے نقطہ نظر سے قومی ایکشن پلان کے تحت کرپٹ عناصر پر جو آہنی ہاتھ ڈالا ہے اس کے حیرت انگیز اور خوش آئند نتائج سامنے آرہے ہیں۔ جنرل راحیل شریف نے یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رکھنے کا عزم کر رکھا ہے جب تک آخری کرپٹ سیاستدان، بیوروکریٹ گرفت میں نہیں آ جاتا۔ اس مہم میں حکومت اور سیاسی پارٹیوں کو اپنے اور پرائے کی تمیز کیے بغیر بھر پور کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ قومی وسائل صرف اور صرف قوم کے بہتر مستقبل کے لئے استعمال کئے جا سکیں اور پاکستان عالمی برادری میں ایک ترقی یافتہ، مضبوط اور خوشحال ملک کا مقام حاصل کر سکے۔ یہ عظیم مقصد حاصل کرنے کے لئے جن سیاستدانوں نے ملک کے مستقبل سے مایوس ہوکر بیرونی ممالک میں دولت جمع کر رکھی ہے ان کی یہ دولت واپس پاکستان لانا ہوگی۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ آئین میں ترمیم کی جائے اور براہ راست بالغ رائے دہی کے ذریعے صدر مملکت کا انتخاب کیا جائے۔ راقم الحروف گزشتہ تین برسوں سے ان کالموں کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا کے توسط سے تجویز دے رہا ہے کہ جس جمہوریت کا دامن دولت اور نا اہلی سے آلودہ ہے اسے ترک کر کے آگے بڑھنے کا وقت آن پہنچا ہے۔جنرل ضیاء الحق نے پی سی او کے تحت 2 مارچ1985 ء کوغیر آئینی طور پر پاکستان کے آئین کا ڈھانچہ تبدیل کر دیا تھا۔ اس وقت کسی سیاستدان کی آنکھوں سے آنسو نہیں ٹپکے حالانکہ جنرل ضیاء الحق کا یہ قدم بد نیتی پر مبنی تھا اس لیے کہ 3 فروری1985 ء کو غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات ہو چکے تھے اور آئین میں ترامیم کا اختیار پارلیمنٹ کو ہی تھا۔ 22 مارچ1985 ء کو پارلیمنٹ نے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو اپنا پارلیمانی لیڈر منتخب کر لیا تھا۔ اس سے بیس دن پیشتر آئین میں قدغن لگانا ملک سے غداری کے مترادف تھا۔ لہٰذا اب اس آئین میں حقیقی تبدیلی کرتے ہوئے صدر کے براہ راست انتخاب کی طرف پیش رفت کی جائے تو یہ جمہوری اصولوں کی نفی نہیں ہوگی، اقتدار چند خاندانوں کی میراث نہیں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں