"KDC" (space) message & send to 7575

نواز حکومت کرپشن کی زد میں

جمہوری دور2008 ء سے 2013ء تک قائم رہنے والی مخلوط حکومت کو ملکی تاریخ کی کرپٹ ترین حکومت قرار دیا جاتا ہے۔ موجودہ حکومت کے دور میں 84 فیصد ادارے کرپشن کی زد میں ہیں۔ نواز شریف کی مسلم لیگ انکوائری کمیشن کی رپورٹ اور تین حلقوں کے الیکشن ٹربیونلز کے اہم فیصلوں اور ایم کیوایم کے استعفوں اور آصف علی زرداری کی ضرب بھٹو کے باعث دیوار کے ساتھ لگ چکی ہے۔ حکومت سندھ نے زرداری صاحب کی شہ پر پنجاب کو گیس کی سپلائی روک دینے کی دھمکی دے دی ہے۔ پیپلز پارٹی کو سینیٹ میں برتری حاصل ہے۔ وزیراعظم کی کمزور حکمت عملی اور وژن کے فقدان کی وجہ سے حکومت چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں پسپائی اختیار کر گئی اور بقول اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ‘ وزیراعظم نواز شریف کا وژن چند قدموں تک ہی محدودہے۔ وہ دیوار کے پیچھے دیکھنے کی صلاحیتوں سے محروم ہیں۔ نواز حکومت کے تحت چلنے والے ترقیاتی منصوبے خطرے کی زد میں ہیں۔ پنجاب میں نندی پور پاور پروجیکٹ اور سوات میں منڈاڈیم بدعنوانی، نا اہلی اور اپنے پسندیدہ لاہور گروپ کے بیوروکریٹس کے روایتی حربوں کی وجہ سے تباہ ہو چکے ہیں۔دریائے نیلم کا پروجیکٹ اور بھاشا ڈیم بھی تاخیر کا شکار ہیں، ان کی وجہ سے حکومت کو بے پناہ تنقید کا سامنا ہے۔2018ء تک لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا کوئی امکان نہیں۔برطانوی طرز کی سرخ میٹرو اور ترکی کی تقلید میں اورنج ریلوے منصوبے کے بارے میں عوام وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے بلند بانگ دعووں سے مایوس ہو گئے ہیں۔ کسان، تاجر اور صنعت کار حکومت سے نالاں ہیں۔وزیر اعلیٰ پنجاب‘ وفاقی وزارت پانی و بجلی و توانائی میں بے جا مداخلت کے عادی ہو چکے ہیں‘ جس کی وجہ سے خواجہ آصف سے بھی ان کے ساتھ سرد جنگ چل رہی ہے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان بھی
نواز شریف سے فاصلہ رکھے ہوئے ہیں۔ دراصل نواز حکومت فعال، طاقتور اور وفادار میڈیا سیل کے بل بوتے پر حکمرانی کر رہی ہے۔ بیوروکریسی میں نواز شریف نے 1985ء میںپیوند کاری کرائی تھی ۔اسی طرح انہوں نے میڈیا پر بھی بہت کام کیا اور اس کا کریڈٹ حسین حقانی کو جاتا ہے۔ حسین حقانی نے 1985 ء میں میڈیا سیل کے لان میں خوبصورت پھولوں کی نرسری شروع کی تھی، آج اسی گلابی میڈیا کے سہارے نواز حکومت پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں وفادار دوستوں کی عوامی رائے عامہ تبدیل کرنے کی صلاحیت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سابق صدر پرویز مشرف کے ہاں سے جاتی امراء جانے والے پارلیمنٹ کے نقال ارکان نواز شریف کو گرہن لگانے میں مصروف ہیں، جس طرح انہوںنے پرویز مشرف کو فریب دے کر ان سے غلط فیصلے کروائے۔آج یہی نقال سیاستدان وزارتوں کے حصول کے لئے نواز شریف کو دیوارکے ساتھ لگا رہے ہیں اور ہر جگہ محاذ آرائی کا بازار گرم ہے۔ کسی نظریاتی مسلم لیگی کو ان نقالوں کی فہرست وزیر اعظم نواز شریف کو پیش کرنی چاہئے۔ قانون، قاعدے اور ضابطے ان کے گھر کی لونڈی ہیں۔ پنجاب کی شوگر ملز کا سکینڈل پنجاب کا میگا کرپشن سکینڈل ہے۔ شوگرملز کے بارے میں احتساب بیورو کو قوم کو اعتماد میں لینا چاہئے ۔قانوناً شوگر مل کسی ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں منتقل نہیں ہو سکتی، لیکن نواز خاندان کے افرادنے اس مل کی منتقلی کے بارے میں جس طرح قانون کی خلاف ورزیاں کی ہیں اگر رینجرز اور احتساب بیورو صرف اس معاملے کا نوٹس لیں‘اور آئین کے آرٹیکل 65 کی کھلم کھلا خلاف ورزی پر اگر محترمہ عاصمہ جہانگیر سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کر دیں تو نواز حکومت بحران کی زد میں آ جائے گی ۔ 
قاری خوشی محمد کے صاحبزادے کو نندی پور پروجیکٹ کا چیئرمین مقرر کیا گیا ہے اور کیپٹن محمود احمد عوام کی نظروں سے اوجھل رہنے کے لئے اپنے آپ کو قاری محمود احمد نہیں لکھتے۔انہیں جنرل ضیاء الحق نے خصوصی ہدایت پر فوج میں شمولیت دلائی تھی۔ نندی پور پراجیکٹ کے حوالے سے جتنی بھی خبریں میڈیا کے ذریعے آ رہی ہیں وہ یہی بتاتی ہیں کہ اس منصوبے میں بڑے پیمانے پر خرد برد اور بد نظمی ہوئی ہے۔ عوام کے منتخب نمائندے پارٹی کی وفاداری سے بالا دست ہو کر پروجیکٹ اور اس کے ساتھ ساتھ قائد اعظم سولر انرجی پراجیکٹ کے حوالے سے حکومت سے دریافت کریں،کہ قوم کے کھربوں روپے برباد کرنے کے باوجودعوام بجلی سے کیوں محروم ہیں؟قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف ایرانی انقلاب 1980ء کی طرز پر کارروائی کرنے میں کیا حرج ہے؟اپوزیشن ارکان کے اپنے مفادات ہیں۔ انہوں نے بھی نندی پور شوگر سکینڈل اور دیگر کے بارے میں پارلیمنٹ میں آواز اٹھانے سے گریز کیا؛ البتہ میڈیا پر گرجتے برستے نظر آرہے ہیں۔
افواج پاکستان نے پاکستان سے دہشت گردی کے خاتمے کا تہیہ کر رکھا ہے اور جنرل راحیل شریف کی 6 ستمبر کی تقریر میں رہنما اصول ہمارے سامنے ہیں، مگر معاشی دہشت گردی کے معاملے میں رفتار بہت سست ہے اور آصف علی زرداری کی جارحانہ پالیسی سے نواز حکومت لرز گئی ۔ تاہم معمر وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے مزاحمت اختیار کرنے کا جو وتیرہ اختیار کیا اس سے نواز حکومت کو ذاتی طور پر فوائد یوں حاصل ہوئے کہ پنجاب میں کارروائی ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے اور نہ ہی کرپشن کا وائرس کم ہوا۔یقین کیجئے پوری قوم میں کرپشن کا وائرس پھیل چکا ہے ۔ لاہوری بیورو کریسی 1985ء سے نواز خاندان کی سرپرستی کر رہی ہے‘ اس کرپٹ بیوروکریسی کا احتساب کئے بغیر ''آپریشن ضرب معیشت ‘‘نہیںہو سکتا۔ سیاستدانوں کے ہاتھ میں کھیلنے والے بیوروکریٹس کو اگر ضرب معیشت آپریشن کے دائرے میں لایا جائے تو بدعنوانی ختم ہو جائے گی۔ جنرل راحیل شریف کا ایک ضرب عضب اس معاشی دہشت گردی کے خلاف بھی ضروری ہے۔ قوم جنرل راحیل شریف کی طرف دیکھ رہی ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے بعد کرپشن کا خاتمہ پاکستان کی معاشی مشکلات ختم کرے گا۔ صاف ستھری اور حقیقی جمہوریت وجود میں آئے گی۔ جنرل راحیل شریف کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے لئے در پردہ ایسا لگ رہا ہے کہ گرفتاری کے خطرے سے دوچار کرپٹ سیاستدان اسمبلیوں میں اتحاد کرکے جمہوریت بچانے کی آڑ میں کرپشن آلود سیاستدانوں کو محفوظ راستہ دیئے جانے کا
منصوبہ تیار کر رہے ہیں‘ بالخصوص آصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں استعفوں کی سیاست کو ہوا دے گی۔ تحریک انصاف اور ایم کیوایم اپنی غیر موثر حکمت عملی کی وجہ سے کمزور وکٹ پر کھڑی ہیں۔ آصف علی زرداری حکومت کو آئینی بحران کی زد میں لانے کے لئے استعفوں کا کارڈ کھیل کر اسے تحلیل کرا دیں گے۔ زرداری صاحب کی ہدایت پر سید خورشید شاہ چند دنوں سے میڈیا پر حکمران جماعت کو وارننگ دے رہے ہیں اور دوسری جانب جنرل راحیل شریف کو طارق بن زیاد کا خطاب بھی دے رہے ہیں اور اسی طرح ان کی پالیسی وہی ہے جو مسٹر ذوالفقار علی بھٹو نے صدر سکندر مرزا کو قائد اعظمؒ سے بڑا مدبرسیاست دان قرار دیا تھا اور بعد ازاں جنرل محمد ایوب خان کو صلاح الدین ایوبی کے خطاب سے نوازا تھا۔ جونہی حالات تبدیل ہوئے تو فیلڈ مارشل ایوب خان کو چاروں شانے جت گرانے میں جنرل یحییٰ خان کا بھر پور ساتھ دیا ۔
پاکستان کے عوام صوبائی حکومتوں سے سخت نالاں ہیں، ہر طرف کرپشن اور معاشی تباہی نظر آتی ہے، ترقیاتی اور فلاحی منصوبے بھی کرپشن کا شکار ہیں، حکومتی نا اہلی واضح ہے۔ مہنگائی اور بے روز گاری کی وجہ سے نوجوان مایوس ہیں۔ جمہوریت اور نظام کا دفاع کرنا مگر اب اتنا آسان بھی نہیں رہا اور اس کی وجہ حکمرانوں کی حماقتیں اور مزید حماقتیں ہیں۔ رینجرز نے کرپشن میں ملوث سابق وفاقی حکومت کے وزیر ڈاکٹر عاصم حسین کو گرفتار کیا ۔ اسی طرز پر پنجاب میں بھی قد آور کرپٹ سیاستدانوں کو احتساب کے دائرے میں کھڑا کرنا ہوگا، اگر پنجاب کی چند ایسی مشہور شخصیات اور وزارت پٹرولیم کے سینئر اہل کار وں کو‘جو ڈاکٹر عاصم حسین کے کاسہ لیس تھے ‘ حراست میں لیا گیا تو اسلام آباد کی بیورو کریسی خود بخود وعدہ معاف گواہ بننے پر تیار ہو جائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں