"KDC" (space) message & send to 7575

حلقہ 122 کا ضمنی الیکشن

لاہور ہائی کورٹ نے ضمنی انتخابات کے دوران سیاسی جماعتوں کے سربراہوں پر عائد انتخابی مہم چلانے کی پابندی کے ضمن میں الیکشن کمیشن کے مرتب کردہ ضابطہ اخلاق کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں اس کی اجازت دے دی ہے۔ اس حکم کی روشنی میں عمران خان نے جارحانہ انتخابی مہم شروع کر دی ہے۔ موجودہ حکومت کے حوالے سے یہ خبریںگردش کر رہی ہیں کہ جب قومی احتساب بیورو، پنجاب میں کرپشن کے حوالے سے آگے بڑھے گا تو اس صوبے کی حکومت کی بساط لپیٹ دی جائے گی اس لیے کہ پنجاب کے چند 'بڑے‘ وزراء، خاندان کے افراد سمیت اس (نیب) کی گرفت میں آنے والے ہیں۔ پنجاب میں کرپشن کے حوالے سے بات آگے تک جائے گی۔ ایسے ماحول میں بیانات کی اہمیت بڑھ جاتی ہے اور انہیںکئی معانی دیے جاسکتے ہیں۔ حلقہ 122کا ضمنی انتخاب بے حد اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ یہ انتخابی معرکہ تحریک انصاف اور حکمران مسلم لیگ نون کے درمیان ہے۔ گیلپ کے سروے پاکستان کے معصوم اور مظلوم ووٹروں کو گمراہ کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ مسلم لیگ نون کی پسندیدہ غیر سرکاری سول تنظیم ہے جس نے مئی 2013ء کے انتخابات میں رائیونڈ کے قریب پڑاؤ ڈالا ہوا تھا اور خفیہ طور پر نون لیگ کے ہم خیال ریٹرننگ افسروں سے رابطے میں تھی۔ اسی غیر سرکاری تنظیم کے ورکروں نے بعض پولنگ سٹیشنوں پر قبضہ بھی کر رکھا تھا۔ وزیر داخلہ کو اس تنظیم کی غیر ملکی فنڈنگ کا سراغ لگا نا چاہیے۔
حلقہ 122 کے لیے تحریک انصاف کے امیدوار علیم خان بظاہر متنازعہ شخصیت ہیں، لیکن رائے دہندگان پنجاب حکومت کی کارکردگی کو پیش نظر رکھیںگے۔ نندی پور پراجیکٹ میں اربوں روپے کی بے ضابطگیاں ہوئی ہیں جن پر اس حلقے کے با شعور ووٹروں کی گہری نظر ہے، یہ فیکٹر اس حلقے کے انتخاب پر گہرے اثرات مرتب کرے گا۔ اس حلقے کے 90 فیصد سے زائد ووٹر پڑھے لکھے ہیں، انہیں میٹرو بس اور اورنج لائن ٹرین پراجیکٹ میں اربوں روپے کی کرپشن کا مکمل ادراک ہے۔ سردار ایاز صادق کی انتخابی مہم حمزہ شہباز نے شروع کی ہے، لیکن قرائن بتا رہے ہیں کہ ان کی کاوشوں کے مثبت نتائج نہیں نکلیں گے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے بھی سردار ایاز صادق کے حق میں مہم چلائی تو اس کے بھی منفی اثرات مرتب ہوںگے۔ سردار ایازصادق کی شہرت ایماندار شخص کی ہے لیکن بطور سپیکر وہ قومی امنگوں کے ترجمان نہیں بن سکے اور قصورکے سانحہ کے ضمن میں ان کی رولنگ عوام کے ذہنوں سے محونہیں ہو سکی۔ ان کا آئینی کردار اس وقت صفر کے درجے پر آگیا جب انہوں نے ایم کیو ایم کے استعفوں کو قانونی طور پر منظور کرنے کے بعد لیت و لعل کا مظاہرہ کیا۔ اس سے قبل تحریک انصاف کے ارکان کے استعفوں پر رولنگ دیتے ہوئے بھی انہوں نے آئین کو مد نظر نہیں رکھا۔ 
ان دنوں جب پاکستان کے عوام ضمنی انتخابات کے معرکوں میں سرگرم ہیں، قومی احتساب بیورو کے چیئرمین قمرالزمان نے 300 اہم شخصیات اور بیوروکریٹس کے خلاف کرپشن اور بے ضابطگیوں کی تحقیقات شروع کرادی ہے۔ ذرائع کے مطابق نیب جن معاملات کی تحقیقات کر رہا ہے ان میں نندی پور، ایل این جی، ریلوے انجنوں کی خریداری، ریلوے اراضی وغیرہ میں کرپشن شامل ہے۔ اسی طرح ایک بنک کو ایک ہزار روپے کے عوض دوسری بنک میں مدغم کرنے جیسے معاملات آگے بڑھ رہے ہیں۔ ضرب معیشت کا آہنی ہاتھ اب ایف بی آر، طاقتور بنکار، صنعتکاروں اور تاجروں پر پڑنے والا ہے۔ قومی دولت لوٹنے والوں پر خفیہ اداروں نے کڑی نگاہ رکھی ہوئی ہے اور چیئر مین قومی احتساب بیوروکی کارکردگی بھی مثالی نظر آ رہی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف مبینہ طور پر میگا کرپشن کے یہ مناظر دیکھ کر دل برداشتہ نظر آ رہے ہیں جس کا کریڈٹ چیئر مین نیب کو بھی دینا چاہیے۔
قوم نے نواز شریف کے پہلے اور دوسرے نصف دورکی کارکردگی دیکھ رکھی ہے۔ عوام کو امید تھی کہ وہ سعودی حکام کی صحبت میں رہ کر پاکستان کو مثالی اسلامی مملکت بنانے کی سعی کریںگے اور آب زم زم کی لاج رکھیںگے۔ چنانچہ انہیں پہلے پنجاب اور پھر وفاق اور پنجاب میں حکومت کرنے کا مینڈیٹ دے دیا، لیکن عوام کو چند ماہ میں ہی احساس ہوگیا کہ میاں نواز شریف نے پورے ملک کے بجائے اسلام آباد سے لاہور تک کا وزیر اعظم بننے کو ترجیح دی ہے۔ عوام میں یہ تاثر بھی ابھر رہا ہے کہ میاں نواز شریف ایک خاص برادری کے وزیر اعظم بن کر رہ گئے ہیں۔ انہوں نے ہر ادارے کے ساتھ چھیڑ چھاڑکرنے کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ آصف زرداری نے افواج پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دی تو موصوف نے بظاہر ان سے ملاقات نہ کی اور عسکری قوتوں کو پیغام بھیجا کہ وہ افواج پاکستان کے ساتھ ہیں، لیکن اگلی صبح اپنے معتمد سیکرٹری فواد حسن فوادکو آصف زرداری کی بریفنگ کے لئے بھیج دیا۔
وزیر اعظم نواز شریف کے مغلیہ طرز حکومت اور ان کے حاشیہ برداروں کے رویے کی وجہ سے عوام ایسی جمہوریت سے بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس رجحان کو دیکھتے ہوئے ہمیں نظر آ رہا ہے کہ عوام لاہور میں سردار ایاز صادق کے خلاف ووٹ دے کر اپنا غم و غصہ اور ناراضگی اتارنے سے گریز نہیں کریں گے۔ وزیر اعظم کے رویے، وعدہ خلافیوں، آصف زرداری سے خفیہ معاملات کو چلانے، ایم کیو ایم اور دوسرے سیاسی اتحادیوں سے گیم کھیلنے جیسے معاملات کو یکجا کریں تو لگتا ہے عوام 11 اکتوبر کو حکمران جماعت کا حساب چکا دیں گے۔ عوام نے ہی عمران خان کے مستقبل کے بارے میں تاریخی فیصلہ کرنا ہے۔ آصف زرداری اور نواز شریف کے دور حکومت میں کرپشن اور بے ضابطگیاں جس طرح پھیلیں، ریاست کی بنیادیں ہل کر رہ گئی ہیں۔ 
سپریم کورٹ آف پاکستان نے حلقہ 154 میں صدیق بلوچ کو وقتی طور پر بیل آئوٹ کر دیا ہے۔ عدالت عظمیٰ بعد میں خواجہ سعد رفیق اور صدیق بلوچ کے بارے میں اپنا اہم فیصلہ سنا کر آئندہ انتخابات کے لئے راہ متعین کر دے گی۔ الیکشن کمیشن نے وزیر اعظم کے کسان پیکج کو ضابطہ اخلاق کی صریحاً خلاف ورزی قرار دے دیا ہے۔ وفاقی حکومت عوامی نمائندگی کے ایکٹ 76 کی دفعہ 79 کی زد میں آ سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں