"KDC" (space) message & send to 7575

نیپرا رپورٹ: حکومت کی اہلیت پر سوالیہ نشان

جنرل راحیل شریف نے ملک کو دہشت گردی، کرپشن اور امن و امان کے لئے بد امنی سے پاک کرنے کا عزم کر رکھا ہے اور اب وہ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھیں گے۔ وہ اپنے مقصد کے حصول کے لئے اتحاد و تنظیم کی گاڑی پر سوار ہیں۔ ملک میں کرپشن کی وجہ خراب طرزِ حکمرانی رہی ہے،لیکن اب چوروں، لٹیروں‘ کرپٹ سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور بعض دوسرے اداروں کے احتساب کا وقت آن پہنچا ہے۔ ان کے فرار کے راستے مسدود ہو رہے ہیں۔ جنرل راحیل شریف درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں اور ان کی ملکی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنے کی سوچ مثبت ہے۔
دوسری جانب نیپرا اور وزارت پانی و بجلی میں کشمکش انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ نیپرا کی سالانہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ حکومت نے نہ صرف 20 کروڑ عوام کو بجلی کی جعلی بندش کا نشانہ بنایا بلکہ 70 فیصد بلوں میں بے جا اضافے کا بھی شکار کیا۔ نیپرا کے جرأت مند چیئر مین بریگیڈیئرطارق سدوزئی نے وفاقی وزارت پانی و بجلی کی دھمکیوں میں آنے کے بجائے نیپرا کی رپورٹ کو حقائق پر مبنی قرار دیا اور یہ قومی مسئلہ مشترکہ مفادات کی کونسل میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ نیپرا کے قومی مفادات پر اپنے سخت موقف کی وجہ سے موجودہ حکومت کی گورننس کو سخت سیاسی دھچکا لگا ہے اور وفاقی حکومت نیپرا کی حقیقت پر مبنی
رپورٹ سے سخت پریشان ہے۔ یہ رپورٹ ایسے وقت میں آئی ہے‘ جب لاہور میں 11 اکتوبر کو ضمنی الیکشن ہو رہا ہے اور پنجاب و سندھ میں بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ دھوکہ دہی اور 20 کروڑ عوام سے زائد بلوں کے نام پر اربوں روپے بٹورنے پرایک سلگتا ہوا موضوع اپوزیشن جماعتوں کے ہاتھ لگ گیا ہے۔ وزیر اعظم بھی اس عجیب و غریب صورتحال کی وجہ سے پریشان نظر آتے ہیں کہ وزارت پانی و بجلی کو نیپرا کی رپورٹ پر خط لکھنے کے لئے کیوںمجبور ہونا پڑا۔ 
رپورٹ بتاتی ہے کہ ملک بھر کی سات تقسیم کار کمپنیوںکے 70 فیصد ٹائم آف یوز میٹرز فرسودہ یا ناقص ہیں جس کے نتیجہ میں آف پیک بلنگ میں ہیرا پھیری اور غلطیاں ہوئیں ۔ راقم الحروف نے بجلی کے بلوں میں اچانک ہوشربا اوور بلنگ پر اس وقت کی سیکرٹری پانی و بجلی نرگس سیٹھی کو 2014 ء میں احتجاجی خط بھی لکھا تھا۔ نیپرا کی مبنی بر حقیقت رپورٹ نے اب میرے اس مؤقف کی تائید کردی تھی کہ وفاقی حکومت نے 20 کروڑ عوام کے ساتھ فراڈ کیا لہٰذا سپریم کورٹ بار کو چاہیے کہ وہ اس نا اہلی ، اور دھوکہ دہی پر وفاقی حکومت کے خلاف سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرے ۔
ایک اور انکشاف ! سینیٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ کی ایک اور ہوشربا رپورٹ منظر پر آئی ہے کہ عید الاضحی پر ملک بھر میں جعلی نوٹ استعمال ہوئے حتیٰ کہ بنکوں نے صارفین کو جعلی نوٹ جاری کئے، قربانی کے جانوروں کی خریداری جعلی نوٹوں پر کی گئی۔ قائمہ کمیٹی میں سٹیٹ بنک کے ڈپٹی گورنر نے بتایا کہ جعلی نوٹوں کی روک تھام، جعلی کرنسی کی گردش روکنے کی بنیادی ذمہ داری تعزیرات پاکستان کی دفعہ 489 کے تحت حکومتی اداروں کی ہے۔ حکومت کے کئی دیگر اداروں میں کرپشن اور احتساب کے فقدان کی وجہ سے جعلی نوٹوں کی گردش ملک میں بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ملک کی بد قسمتی دیکھئے! بینک دولت پاکستان کے ڈپٹی گورنر نے بے بسی اور مایوسی کے عالم میں یہ پریشان کن بیان دیا ہے کہ سٹیٹ بنک نے جعلی نوٹوں کی گردش کی روک تھام کے لئے تمام بینکوں سے کہہ دیا ہے۔ کہ وہ جنوری 2017ء سے صرف تصدیق شدہ کیش کی ترسیل کر سکیں گے۔ گویا اسی دوران وزیر خزانہ نے جعل سازوں کو کھلی چھٹی دے دی ہے۔ حکومتی نااہلی کی انتہا ہے کہ ہر ادارے میں جعل سازی کے لئے راستے کھلے ہیں۔ بجلی اور گیس کے بلوں میں جعل سازی کے انکشافات ہو چکے ہیں۔ اب جعلی نوٹوں کی گردش کے بارے میں سٹیٹ بنک نے بھی اعتراف کر لیا ہے۔
پانی و بجلی کی وزارت کی ناقص کارکردگی، نندی پور پاور پروجیکٹ اور قائد اعظم سولر پارک منصوبوں کے میگا سکینڈل سامنے آنے کے بعد نیپرا کی سالانہ رپورٹ نے ن لیگ کی حکومت کی نا اہلیت اور بد انتظامی کے پول کھول دئیے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں 2013 ء کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے انتخابی منشور میں عوام سے کئے گئے وعدوں کی پاسداری نہ ہونے سے وفاقی حکومت کی ناکامیاں ظاہر ہوگئی ہیں‘ نیپرا نے بر ملا اعتراف کر لیا ہے کہ بجلی کمپنیاں ناقص میٹرز کے ذریعے صارفین سے زائد وصولی کر کے اپنی نا اہلیت اور لائن لاسز کو چھپا رہی ہیں۔ سپریم کورٹ سے درخواست ہے کہ وہ اس اہم قومی فراڈ کے خلاف از خود نوٹس لے۔ عوام کو دھوکہ دینے پر متعلقہ وزارت کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ صدر مملکت ریاست کے محافظ ہیں‘ اُنہیںبھی‘ عوام سے ہونے والی زیادتی کا ازخود نوٹس لینا چاہیے اور وزارت پانی اور بجلی نے عوام سے جو ناجائز رقوم وصول کی ہیں۔ اُنہیں مع ہرجانہ صارفین کو واپس دلایا جائے۔
چیئر مین سینیٹ رضا ربانی کے بھرپور احتجاج، آصف علی زرداری اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے سخت دباؤ کے بعد قومی احتساب بیورو اور عدالت کا پھندا حکومت کی گردن کے گرد تنگ ہو رہا ہے۔اسی طرح قومی احتساب بیورو کے چیئرمین نے ایل این جی کیس بھی دیکھنا شروع کر دیا ہے۔ اس کیس میں ایم ڈی عارف حمید کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔ وفاقی وزیرپیٹرولیم شاہد خاقان عباسی کی بار بار تردید کے باوجود‘ قیمت کے تعین کے بغیر ایل این جی بھرے بحری جہاز کراچی پہنچ چکے ہیں۔ اسی ابہام کی روشنی میں شیخ رشید نے سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ حال ہی میں جاری کئے گئے ‘ پچاس کروڑ روپے کے یورو بانڈز بھی تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں جنہیں بہت زیادہ شرح سود پر جاری کیا گیا۔ 100 میگا واٹ کے سولر پاور پلانٹ کا معاملہ بھی بلاول زرداری نے اُٹھادیا ہے‘ جو صرف 18 میگا واٹ روزانہ کی شرح سے پیدوار دینے کے بھی قابل نہیں ۔ پنجاب میں سندھ کی طرز پر جب معاملات آگے بڑھیں گے تو بلدیاتی انتخابات کے نتائج مختلف ہوں گے اور اُمید ہے کہ آئین کے آرٹیکل 140-A کی روح کے مطابق عوام کو حقیقی اقتدار حاصل ہو جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں