"KDC" (space) message & send to 7575

چیئر مین سینیٹ کی رولنگ میں سقم اور تضاد

چیئر مین سینیٹ میاں رضا ربانی نے متحدہ قومی مومنٹ کے ارکان سینیٹ کے اجتماعی استعفوں کے بارے میں اپنی رولنگ میں آئین اور قانون کی مختلف شقوں کے حوالے سے وضاحت کی ہے کہ اجتماعی استعفے انفرادی استعفوں سے مختلف ہوتے ہیں اور ان میں یہ تصدیق ضروری ہوتی ہے کہ یہ استعفے واقعی نشست خالی کرانے کے لئے دیے گئے ہیں یا ان کے پیچھے کوئی سیاسی مقصد یا احتجاج ریکارڈ کرانے کی نیت کار فرما ہے، لہٰذا آئین انہیں فوری طور پر منظور کرنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ چیئر مین سینیٹ کے مطابق اجتماعی استعفوں کے معاملے میں تصدیق کا عمل سینیٹ کی چالیس نشستوں میں متعلقہ ارکان کی غیر حاضری کے بعد شروع کیا جاتا ہے، بالخصوص جب استعفے ایک پوری پارٹی کی طرف سے دیئے جائیں تو ارکان کی رضا مندی کا جائزہ لینا مزید ضروری ہو جاتاہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان کی یہ رولنگ استعفوں کی منظوری یا نامنظوری سے نہیں ، بلکہ اس معاملے کو زیر التواء کھے جانے سے متعلق ہے۔ میاں رضا ربانی نے اس امر کی صراحت بھی کی ہے کہ اس طریقہ کار کا اطلاق صرف ارکان سینیٹ پر ہوتا ہے‘ تاہم قومی و صوبائی اسمبلیوں کے لئے اس رولنگ سے رہنمائی لی جا سکتی ہے۔ تحریک انصاف کے ارکان کے استعفوں کے مہینوں زیر التوا رکھے جانے اور بالآخر ان کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں واپسی کی مثال کی موجودگی میں ایم،کیو،ایم کے ارکان کے استعفوں کے رضاکارانہ ہونے کی مکمل تحقیقات کے بغیر منظوری کا یوں بھی کوئی جواز نظر نہیں آتا۔
چیئر مین سینیٹ کے فیصلہ میں سقم اور تضاد ہے، جب کہ سیاسی دباؤ کی خاطر اجتماعی استعفوں کی روایت ماضی میں رہی ہے،جب اپریل 1993ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے 45 کے لگ بھگ ارکان قومی اسمبلی اور پاکستان مسلم لیگ سے منحرف 40 ارکان کے اجتماعی استعفے صدر غلام اسحاق کو بھجوائے گئے تھے اور اسی طرح جون 1992ء میں متحدہ قومی موومنٹ کے 14 کے لگ بھگ قومی اور 28 صوبائی ارکان اسمبلی سندھ نے اجتماعی طور پر استعفے پیش کر دیئے گئے اور اسی حوالے سے 80 کے لگ بھگ اجتماعی استعفے ارکان قومی اسمبلی نے اکتوبر 2007ء میں صدر پرویز مشرف کے صدارتی انتخاب کے موقعہ پر بطور احتجاج پیش کر دیئے تھے جسے سپیکر قومی اسمبلی چوہدری امیر حسین نے فوری طور پر قبول کر کے نوٹیفیکیشن جاری کر دیا تھا۔چنانچہ بعض ماہرینِ آئین اور دانشوروں کا یہ کہنا کہ اجتماعی استعفوں کی روایت جمہوریت کی روح کے منافی ہے، درست نہیں ہے۔ ارکان اسمبلی بطور احتجاج ہی اپنی نشستوں سے استعفے پیش کرتے ہیں اور پارٹی کے سربراہ کی ہدایت پر ہی استعفے پیش کئے جاتے ہیں۔ اس طرح چند مہینے پیشتر صوبائی اسمبلی سندھ کی خاتون رکن سے زبردستی گن پوائنٹ پر استعفیٰ حاصل کیا گیا اور موصوفہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے احتجاج بھی کرتی رہی لیکن پارٹی قیادت کے اشارے پر سپیکر صوبائی اسمبلی آغا سراج درانی نے محترم میاں رضا ربانی کی روایت کو برقرار نہیں رکھا اور انہوں نے فوری طور پر استعفیٰ منظور کر کے نشست خالی ہونے کا نوٹیفکشن جاری کر دیا۔اگر الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کی جائے تو درجنوں مثالیں منظر عام پر آجائیں گی جب الیکشن کمیشن کو قومی اسمبلی کے سیکرٹریٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے سیکرٹریٹ سے ایسے ریفرنس بھجوائے گئے تھے۔ اسی طرح حال ہی میں مرحوم سینیٹر سید اقبال حیدر کی صاحبزادی علیزہ اقبال حیدر نے قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دیا تھا۔ میری دانست میں سپیکر قومی اسمبلی نے علیزہ اقبال حیدر سے استعفیٰ پیش کرنے کا جواز نہیں پوچھا تھا۔ اسی طرح نبیل گبول نے ایم،کیو،ایم کی جارحانہ پالیسی پر بطور احتجاج قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دیا تو بقول نبیل گبول سپیکر قومی اسمبلی نے استعفیٰ پیش کرنے کے پس منظر کو جانچنے کو کوشش نہیں کی تھی ۔
تاریخی طور پر 1942 ء میں قائد اعظم محمد علی جناح نے وائسرائے ہند اور مجلس قانون ساز سے آل انڈیا مسلم لیگ کے 
ارکان کے اجتماعی استعفے پیش کر دیے تھے جو وائسرائے ہند نے فوری طور پر منظور کر لئے تھے۔ محترم رضا ربانی کو بطور تحقیق قائد اعظم کے اجتماعی استعفوں کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے تھا اور اپنے والد محترم عطا ربانی مرحوم کی یاد داشتوں کا سہارا لینا چاہیے تھا۔ بد قسمتی سے یہاں بھی آل انڈیا مسلم لیگ کے دومعزز ارکان نے قائداعظم کی حکم عدولی کی تھی اور قائد اعظم محمد علی جناح نے ان کو آل انڈیا مسلم لیگ سے خارج کر دیا تھا، ان روائتی سیاستدانوں نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ وہ تو بڑی تگ و دو سے مجلس قانون ساز کے ارکان بنے تھے اور بلا وجہ استعفیٰ دینے کا جواز نہیں ہے۔ 
عوام جن لوگوں کو اپنے نمائندوں کی حیثیت سے منتخب کرکے پارلیمنٹ میں بھیجتے ہیں،ان کا بنیادی فرض یہ ہے کہ ایوان میں عوامی مفاد کو ملحوظِ خاطر رکھیں، انہیں ایوان میں جرأت مندانہ موقف اختیار کرنا چاہئے ، لہٰذا چیئر مین سینیٹ کا موقف آئین کے آرٹیکل 64 سے مطابقت نہیں رکھتا۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے آئین کے بارے میں تاریخی ریمارکس دیتے ہوئے رولنگ دی تھی کہ آئین کے وہ آرٹیکلز جو 1973ء کے آئین کے عین مطابق رہے اور ایسے آرٹیکلز جو 8 ویں ترمیم یا دیگر ترامیم کی زد میں نہیں آئے، آئین کی بالا دستی کے زمرے میں نہیںآتے اور ان کے بارے میں ایکٹ، رولنگ اور رولز کی کوئی آئینی حیثیت نہیں، لہٰذا اجتماعی یا انفرادی استعفوں کے حوالے سے قومی اسمبلی کے سپیکر اور چیئر مین سینیٹ کی رولنگ میری دانست میں آئین کے آرٹیکل 64 کی روح کے خلاف ہے۔
کراچی اور بلوچستان میں جاری آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانا وقت کا اہم اور نا گزیر تقاضا ہے ۔ اس وقت کراچی سے گرفتار شدہ افراد کا تعلق بھارتی خفیہ تنظیم ''را‘‘ سے ثابت ہو چکا ہے اور برطانیہ الطاف حسین کے ٹرائل کی روشنی میں آنکھ مچولی کھیل رہا ہے۔ اس کا عدالتی نظام تو اسی دن اپنی غیر جانبدارانہ حیثیت کھو بیٹھا تھا جب ریڈ کلف ایوارڈ کے ذریعے پاکستان کے حصے میں آنے والے تین اضلاع نہرو کے دباؤ کے تحت بھارتی تحویل میں دے دئیے گئے تھے۔ آج وہی برطانیہ الطاف حسین کے معاملہ کو طول دے کر یہاں سیاسی اور جغرافیائی انتشار کی پشت پناہی کر رہا ہے ۔ بھارت، برطانیہ اور بعض عرب حکمرانوں کے ساتھ مل کر خطے میں امن و سکون کی فضاء قائم نہیں ہونے دے رہا ، جبکہ امریکہ افغانستان میں بھارتی اثرورسوخ کے پیچھے کھڑا ہے، کیونکہ اسے علم ہے کہ پاکستان چین مشترکہ اقتصادی راہداری منصوبوں کی کامیابی سے جنوبی ایشیا کا منظر نامہ یکسر تبدیل ہو جائے گا۔ چین اقتصادی سپر پاور بن چکا ہے۔ اقتصادی راہداری کی تکمیل اور گوادر پورٹ کے فعال ہونے سے چین ایک بڑی عالمی طاقت بن جائے گا اور پاکستان بھی خطے میں مرکزی حیثیت اختیار کر جائے گا۔ یہی اصل حقیقت ہے جو بعض عرب ممالک، ایران، برطانیہ، امریکہ اور بھارت کوقابل قبول نہیں اور ان کی عالمی سازش کو ناکام بنانے کے لئے وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی کابینہ کے ارکان میں صلاحیت کا فقدان ہے، جبکہ پاکستان کے دیگر سیاست دانوں میں ریاست کی فلاح و بہبود کے بارے میں ادراک ہی نہیں ہے اور وہ چائنہ کٹنگ پلاٹ سے آگے سوچتے ہی نہیں۔
چیئر مین سینیٹ میاں رضا ربانی نے ایم،کیو،ایم کو آئین کے آرٹیکل 64 کے برعکس پارلیمان میں داخلے کے لئے محفوظ راستہ دے دیا ہے، لہٰذا اب متحدہ قومی موومنٹ کو قومی سیاست کرنے کے لئے اپنی پارٹی میں کلین آپریشن از خود کرنا ہوگا۔ بد قسمتی سے متحدہ قومی موومنٹ کے ڈاکٹر فاروق ستار نے عجیب تا ویل دی ہے کہ جون 1992ء میں کراچی آپریشن کے بعد ان کے ہزاروں کارکن پاکستان سے باہر کئی ملکوں میں پناہ لینے کے لئے چلے گئے تھے جن میں سے بعض ہندوستان بھی گئے ہوں گے، وہاں ان کے رشتہ دار تھے لیکن جب ان کا ویزا ختم ہو گیا اور وہ وہیں رہ گئے تو ایم،کیو،ایم نے ان سے اظہارِ لا تعلقی کر دیا۔ ڈاکٹر فاروق ستار کی اس بیان پر غور کیا جائے کہ بھارت نے کس طرح ہزاروں کارکنوں کو ویزے جاری کر دیئے اور بھارت میں ان کے رشتے دار تو غربت کی آخری لکیر میں رہ رہے ہیں، ان میں ان کو اپنے ہاں پناہ دینے کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں