"KDC" (space) message & send to 7575

پاکستان کی تاریخ میں مہنگا ترین ضمنی انتخاب

دنیا ٹی وی چینل کے ممتاز تجزیہ کار اور اینکر پرسن ڈاکٹر معید پیرزادہ نے اپنے پروگرام میں حکومتی اور اپوزیشن امیدواروں کے الیکشن اخراجات کے بارے میں انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ این اے122 کا ضمنی انتخاب پاکستان کی تاریخ کا مہنگا ترین الیکشن تھا، جس پر ایک ارب روپے سے زائد خرچ کیے گئے جبکہ الیکشن قوانین کے مطابق انتخابی مہم پر اخراجات کی حد پندرہ لاکھ روپے مقرر ہے۔ دنیا نیوز لاہورکے بیورو چیف ارسلان رفیق بھٹی نے بھی اپنی رپورٹ میں بتایا کہ اس انتخاب میں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف نے ایک ارب سے زیادہ رقم خرچ کی۔ ان دونوں رپورٹوں پر الیکشن کمیشن آف پاکستان، قومی احتساب بیورو اور ایف بی آر ازخود نوٹس لینے کے مجاز ہیں۔ اس پروگرام میں راقم الحروف نے بتایا کہ عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی شق 48 اور 49 کے تحت الیکشن کمیشن کے پاس وسیع تر اختیارات ہیں کہ وہ الیکشن میں ہونے والے اخراجات کو روک سکے۔ امیدوار قانون اور عوام کو دھوکہ دینے کے لیے یہ تاویل پیش کرتے ہیں کہ ان کے حامیوں نے انتخابی اخراجات کا بوجھ اٹھایا حالانکہ اس کے ازالے کے لیے سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے31 جولائی2002 ء کو آرڈیننس کے ذریعے پابندی لگائی تھی کہ امیدوارکے حامیوں کی جانب سے اخراجات کو بھی امیدوارکے ہی انتخابی اخراجات کا حصہ تصور کیا جائے گا۔ بعد ازاں اس آرڈیننس کو پارلیمنٹ ایکٹ کے ذریعے انتخابی قانون کی حیثیت حاصل ہوگئی اور عوامی نمائندگی ایکٹ 49-48 میں تشریح کر دی گئی کہ امیدواروںکے حامیوں کے اخراجات امیدوار کے ہی اخراجات تصور ہوں گے۔
پاکستان میں انتخابی اخراجات میں بے دریغ سرمائے کے استعمال کا آغاز 3 فروری 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات سے شروع ہوا، جب آزاد امیدواروں نے لاکھوں روپے انتخابی مہم پر خرچ کیے۔ اس الیکشن میں میاں نواز شریف انتخابی مہم پر مقررہ حد سے کئی سو گنا تجاوزکر گئے تھے اور ان کے چند ساتھیوں نے ڈھائی کروڑ روپے سے زائد انتخابی مہم میں جھونک دیے۔ الیکشن کے بعد دس دن کے اندر جیتنے والے امیدوارکو حلف نامہ داخل کرنا ہوتا ہے کہ اس نے مقررہ حد کے اندر ہی اخراجات کیے ہیں۔ اس وقت الیکشن اخراجات کی حد قومی اسمبلی کی نشست کے لیے غالباً 15ہزار اور صوبائی اسمبلی کے لیے 10ہزار روپے مقررتھی جبکہ ہر امیدوار نے لاکھوں روپے خرچ کیے تھے لہٰذا سابق جنرل ضیاء الحق نے5 فروری1985ء کو ایک آرڈیننس کے ذریعے انتخابی اخراجات کے گوشوارے جمع کرانے کے قوانین معطل کر دیے تھے۔
حکمران اور اپوزیشن جماعت نے انتخابی اخراجات میں بے دریغ سرمایہ خرچ کرکے بدترین مثال قائم کی۔ الیکشن سے پہلے دھاندلی، بے قاعدگیاں اور بے ضابطگیاں کھلے عام کی گئیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کی سرکاری مشینری، وسائل، عملہ اور ذرائع استعمال ہوئے، سرکاری خزانے کے درکھول دیے گئے، وفاقی اور صوبائی وزرا کی فوج انتخابی مہم میں موجود رہی جو الیکشن کمیشن کے ساتھ مفاہمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کا 10 اکتوبرکی سہ پہرگورنر ہاؤس لاہور میں پریس بریفنگ بھی الیکشن قوانین کی شق 84 کی کھلم کھلا خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کا حلقہ 122کا دورہ بھی انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی تصور کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح اورنج ٹرین کا اعلان، خواجہ سعد رفیق کی طرف سے ریلوے کالونی بنانے اور ماروی میمن کے اعلانات سب الیکشن قوانین کی رو سے دھاندلی کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس معاملے پر سول سوسائٹی کی پر اسرار خاموشی قابل توجہ ہے۔ یہ غیر سرکاری تنظیمیں نام نہاد سروے کے ذریعے عوام کو گمراہ کرنے کے مشن پر گامزن ہیں جس کی ایک مثال حال ہی میں ایک غیر سرکاری تنظیم کی ایک نام نہاد سروے رپورٹ ہے۔میں سول سوسائٹی اور آئینی و قانونی ماہرین کی رہنمائی کے لیے ان کی توجہ انتخابی قوانین 82,80,79,78,50,49,48 اور 83 کی طرف مبذول کراتا ہوں۔ پاکستان ٹیلی وژن کے ذریعے الیکشن مہم بھی میڈیا سے متعلق ضابطہ اخلاق کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ الیکشن کمیشن کو پیمرا کے ذریعے تمام ٹیلی وژن چینلزکو مدعو کرکے میڈیا کے متعلق ضابطہ اخلاق پر بریفنگ دینی چاہیے۔ سردار ایاز صادق کی نشست دوبارہ جیتنے کے لیے حکومت آخری حد تک چلی گئی، حکومت نے ڈنکے کی چوٹ پر قوانین کی خلاف ورزی کی۔
تحریک انصاف کے لیے حلقہ 122 کے انتخاب کا نتیجہ کہیں زیادہ لمحہ فکریہ ہے۔ جس منظم دھاندلی کے خلاف عمران خان نے 22 جون 2013ء سے 18 دسمبر 2014ء تک احتجاجی تحریک چلائی تھی وہ حلقہ 122 کے ضمنی انتخاب میں تحلیل ہوکر رہ گئی۔ عوام اور بالخصوص ووٹروں نے محسوس کیا کہ تحریک انصاف الیکشن 2013ء کے متعلق حقائق اوراپنا موقف موثر انداز میں پیش کرنے میں ناکام رہی۔ عبدالعلیم خان نے مبینہ طور پر کروڑوں روپے سے زیادہ اخراجات کرکے تحریک انصاف کے اصولوں، دیانتداری اور عمران خان کے نظریے کی نفی کر دی۔ حکومتی وزراء کے ساتھ ساتھ خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ اور صوبائی وزراء کی موجودگی سے حکمران جماعت اور تحریک انصاف ایک ہی صف میں کھڑی نظر آئی۔ غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو دونوں جماعتیں عوام کے دلوں سے اترگئیں اور اصل فتح اس اعتبار سے عوام کی ہوئی کہ انہوں نے تین نشستوں کے انتخاب میں یہ ثابت کر دیا کہ وہ کسی ایک پارٹی کے تابع نہیں ہیں، ان کے منقسم ووٹ نے سیاسی جماعتوں کے دعووں کی قلعی کھول دی۔ 
جون 1972ء میں میری ملاقات محترم ولی خان مرحوم سے ہوئی تو انہوں نے کہا:'' صوبہ سرحد کے عوام باشعور ہیں، وہ کسی بھی جماعت کی بالادستی قبول نہیں کرتے۔ 1970ء کے الیکشن میں صوبہ سرحد کے عوام نے منقسم مینڈیٹ دیا جبکہ پنجاب کی عوام نے مسٹر بھٹو کے انتخابی پلڑے میں وزن ڈال کر ملک تقسیم کرا دیا‘‘۔ آج اسی اصول کے تحت لاہورکی باشعور ووٹروں نے دونوں جماعتوں کو آئینہ دکھا دیا۔ اگر آئندہ عام انتخابات میں دہلی کی عام آدمی پارٹی کی طرز پر کوئی جماعت سامنے آئی تو عوام اسے بھر پور ووٹ دیں گے۔ عوام نے عمران خان اور شریف برادران کو 2018 ء کے انتخابات کی جھلک دکھا دی ہے۔
الیکشن کمیشن کے ساتھ آنکھ مچولی صرف ہمارے ہاں کھیلی جاتی ہے، دنیا بھر میں الیکشن کمیشن کو نہایت اہم ادارے کا درجہ حاصل ہوتا ہے، اس کی قدر و منزلت اور وقار کا یہ عالم ہے کہ دوسرے ریاستی ادارے اس کے سامنے چھوٹے دکھائی دیتے ہیں۔ افغانستان کے چیف الیکشن کمشنر نے صدرکرزئی کے خلاف وارنٹ گرفتاری کے لیے نوٹس تیار کر لیا تھا،کرزئی فوراً معذرت کر لی اوربچ گئے۔ بھارت میں انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی حکمرانی عملاً الیکشن کمیشن کو منتقل ہو جاتی ہے، اس کی رٹ حکومت سے بھی بڑھ کر ہو جاتی ہے۔ 2014ء کے انتخابات کا اعلان ہوا توجنرل بکرم سنگھ کو بھارتی افواج کا چیف آف آرمی سٹاف مقررکیا جانا تھا، الیکشن کمیشن کی اجازت سے وزارت دفاع نے سمری وزیر اعظم کو بھجوا رکھی تھی، اس کے باوجود وزیر اعظم کو اس پر دستخط کرنے کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی۔ چنانچہ الیکشن کمیشن سے دوبارہ رجوع کیا گیا اور اس کا اجازت نامہ آنے کے بعد وزیر اعظم نے تقرر نامہ پر دستخط کیے۔ بھارت کے الیکشن کمیشن کی مستعدی کا یہ عالم ہے کہ 80 کروڑ سے زائد ووٹروںکو مرحلہ وار اس حکمت سے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کا موقع دیا جاتا ہے کہ کوئی دھاندلی کی شکایت نہیں کرتا۔ انڈین الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس عدالتی کٹہرے میں کھڑی نہیں کرتیں اور نہ ہی اسے شیڈول جاری کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ 2007-2006ء میں بنگلہ دیش کی نگران حکومت کی درخواست پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابی قوانین بنگلہ دیش کے الیکشن کمیشن کو بھجوائے تھے۔ راقم الحروف نے قوانین کا مکمل سیٹ بنگلہ دیش کی ہائی کمشنر کو دیے تھے۔ انہوں نے انہی قوانین پر عمل درآمد کر کے بنگلہ دیش کو جمہوری ممالک کی صف میں کھڑا کر دیا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں