"KDC" (space) message & send to 7575

سروے کی ٹائمنگ؟

ایک غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے ملک گیر سروے میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کی مقبولیت کا گراف وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی مقبولیت سے بھی کم ظاہر کر نا ایک سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ جنرل راحیل شریف کی مقبولیت کے حوالے سے سروے کو حقائق کے بر عکس ہی قرار دیا جا رہا ہے۔ سروے کے اجراء، مقاصد اور وقت کے انتخاب کے حوالے سے ملک کے حساس اداروں کو تحقیق کرنی چاہئے اور یہ حقائق جاننا ملکی مفاد میں ہے کہ اس سروے کے پیچھے کون ہے۔ جو سروے رپورٹ میڈیا کو جاری کی گئی تھی، اس میں سب سے زیادہ مقبولیت کا اعزاز وزیر اعظم نواز شریف کو دیا گیا ہے۔ ملکی سیاسی قیادت میں وزیر اعظم نواز شریف ملک کے مقبول ترین ریٹنگ قائد کے طور پر ابھرتے نظر آرہے ہیں۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف بھی 72 فیصد ریٹنگ میں زیادہ پیچھے نہیں ہیں، جبکہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف 69 اور جنرل پرویز مشرف 51 فیصد ریٹنگ کے ساتھ نمایاں ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کی امریکہ روانگی کے وقت اس غیر سرکاری تنظیم کا سروے بہت معنی خیز ہے۔ ایسے سروے ہمیشہ ڈرائنگ روم میں یا یونیورسٹی کے طلبا و طالبات کے ذریعے کروائے جاتے ہیں جو عموماً عوامی امنگوں اور خواہشات کی ترجمانی نہیں کرتے کیونکہ چند سو افراد کی رائے کو ساڑھے آٹھ کروڑ ووٹروں کی رائے پر حاوی نہیں کیا جا سکتا۔ مئی 2013 ء کے انتخابات کے موقع پر بھی ایسے ہی جعلی سروے سامنے آئے تھے۔ 
حیران کن اور مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ سوشل سیکٹر میں کام کرنے والی ایک این جی او نے عین اس وقت ایک سروے کے نتائج جاری کئے جب میاں نواز شریف کو اس بات کی اشد ضرورت تھی۔ نفسیاتی جنگ کی زبان میں خواہ کچھ بھی کیوں نہ کہا جائے، یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ''اکتوبر 2015 ء کے ضمنی انتخابات کے نتائج نے وزیر اعظم نواز شریف کو ہلا کر رکھ دیا ہے‘‘۔ اگر چہ حکمران جماعت کے ترجمان تحریک انصاف کے امیدوار علیم خان کی عبرت ناک شکست کے دعوے کر رہے تھے، حقیقت یہ ہے کہ سردار ایاز صادق کی محض 2400 ووٹوں سے کامیابی نے وزیراعظم نواز شریف کو نوشتۂ دیوار پڑھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ حکمران جماعت نے حکومتی وسائل سردار ایاز صادق کی شاندار کامیابی اور علیم خان کی عبرت ناک شکست کا ہدف حاصل کرنے کے لئے جھونک دیئے تھے۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ علیم خان کا مقابلہ سردار ایاز صادق سے نہیں، پنجاب حکومت کی پوری انتظامی مشینری اور وفاقی حکومت کے کئی وزراء کے ساتھ ساتھ اربوں روپے اپنی صوابدید پر تقسیم کرنے کا اختیار رکھنے والی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی سربراہ ماروی میمن سے بھی تھا۔ اس کے علاوہ حکمران جماعت کے حامی میڈیا ہاؤسز نے عمران خان اور علیم خان کی کردار کشی پر جتنا زور لگایا، اس سے وزیر اعظم نواز شریف کو یہ بھی امید تھی کہ شاید علیم خان اپنی ضمانت ضبط کروا بیٹھیں، مگر جو نتائج سامنے آئے وہ حیرت انگیز اور دل دہلا دینے والے تھے۔ وزیر اعظم نواز شریف کے قریبی عزیز محسن لطیف حلقہ پی پی 147 میں تحریک انصاف کے شعیب صدیقی کے ہاتھوں شکست کھا گئے۔ 
ان حالات میں سروے نے وزیر اعظم نواز شریف کے لئے جو خدمت انجام دی ہے وہ اس لحاظ سے بیش بہا ہے کہ چند روز تک میڈیا میں نواز شریف صاحب کی مقبولیت کے بلندی کی طرف جاتے گراف کا ذکر کثرت سے ہوتا رہے گا۔ سروے کے نتائج سامنے لانے کے لئے انتخاب بھی نہایت موزوں وقت کا کیاگیا۔ نواز شریف صاحب امریکہ کے دورے پر نکل چکے تھے اور انہیں ایسے نتائج کی اشد ضرورت تھی، تا ہم، ان نتائج سے چند سوالات ناگزیر ہو گئے ہیں:غیر سرکاری تنظیم کی فنڈنگ کاماخذ کیا ہے؟ کیا یہ فنڈایک سکینڈے نیوین ملک کی طرف سے آرہے ہیں ؟ یا حکومتی ذرائع سے موصول ہو رہے ہیں؟۔ عسکری انٹیلی جنس اداروں کو ان کے ماخذ کا سراغ لگانا چاہئے! علاوہ ازیں نندی پور جیسے میگا سکینڈلز کی موجودگی میں مقبولیت حاصل کرنے کا پیمانہ کیا ہے؟ 
سروے کرنے والی تنظیم کو احساس ہونا چاہئے کہ لاہور ہائی کورٹ نے 64 سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے بیرون ملک چار سو ارب ڈالر کے اثاثے واپس لانے کی درخواست پر وفاقی حکومت کے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔ کوئی بھی ملک شفافیت اور قواعد و ضوابط کی پاسداری کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا۔ میرٹ اور قانون پر عمل داری حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے، لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں سیاست اور کرپشن کے گھناؤنے تال میل نے ملکی جڑوں کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے۔ ماضی میں جو بھی حکومتیں آئیں، ان پر کرپشن اور اقرباء پروری کے سنگین الزامات لگتے رہے ، یہاں تک کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت میں آصف علی زرداری پر کرپشن کے الزام اور دوسرے دور حکومت میں سرے محل کا معاملہ بین الاقوامی شہرت حاصل کر گیا تھا۔ مالی بے ضابطگیوں کے الزامات صرف پیپلز پارٹی پر ہی نہیں لگے ، موجودہ حکومت کے وزیر خزانہ کی جانب سے منی لانڈرنگ کا اعترافی بیان بھی عدالتی کارروائی کا حصہ ہے۔ بیرون ممالک اثاثے بنانے کے الزامات صرف حکمران خاندانوں پر ہی نہیں لگتے رہے بلکہ سول بیورو کریسی کا دامن بھی اس ضمن میں سوالیہ نشان بنا رہا۔
ہر حکومت نے مخالفین پر کرپشن کے مقدمات بھی بنائے اور کرپشن کی دولت واپس لانے کے لئے انتخابی نعرے بھی لگائے ۔ آصف علی زرداری کی دولت واپس لانے کے لئے تو میاں نواز شریف اور شہباز شریف نے حبیب جالب کے انقلابی شعروں کا بھی سہارا لیا۔مگر یہاں جن پر اربوں روپوں کی کرپشن کے الزامات لگتے ،وہی سیاسی انتقام کا نعرہ لگا کر دوبارہ حکومت میں آجاتے اور اپنے خلاف مقدمات کو سرکاری طور پر ختم کرنے میں کامیاب ہو جاتے، جس کی مثال آصف علی زرداری کے دورِ حکومت میں برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر واجد شمس الحسن کی طرف سے کرپشن کیسز کے صندوق غائب کرنا ہے۔ اسی طرح موجودہ حکومت پر بھی مخالفین یہ الزام لگاتے ہیں کہ وزیر اعظم کے خاندان کے بیرون ملک اربوں ڈالر کے کاروبار ہیں اور اپوزیشن یہ دلیل بھی دیتی ہے کہ اگر ملک کا وزیر اعظم ہی اپنی دولت پاکستان نہیں لائے گا تو حکومت بیرونی سرمایہ کاروں کو کیونکر پاکستان میں سرمایہ کاری پر آمادہ کر سکتی ہے۔ 
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جو سیاسی رہنما سابق صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم نواز شریف کے بیرون ملک اثاثوں کے سخت ترین ناقد تھے ،اب یہ انکشاف ہوا ہے کہ خود ان کے بھی غیر ممالک میں اثاثے ہیں۔ ان میں چوہدری پرویز الٰہی اور عمران خان خاص طور پر اہم ہیں۔ اب چونکہ یہ معاملہ لاہور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اس لئے توقع کی جاسکتی ہے کہ معلوم ہو جائے گا کہ کس کس سیاستدان کی دولت بیرونی ممالک میں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں