"KDC" (space) message & send to 7575

سیاسی جانشین

وزیر اعظم نواز شریف کے دورہ امریکہ کے دوران واشنگٹن کی جانب سے اسلام آباد پر دباؤ ڈالے جانے کے خد شات ظاہر کیے جا رہے تھے۔ دونوں حکومتوں کے سربراہوں کی ملاقات کے حوالے سے جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میں ان اندیشوں کاکوئی عکس نظر نہیں آیا۔ اس دورے میں دختر پاکستان کا امیج ابھرکر سامنے آیا ہے۔ محترمہ مریم نواز نے تعلیم کے حوالے سے اور پاکستان میں نوجوانوں کے فعال کردارکو مد نظر رکھتے ہوئے امریکی خاتون اول کے سامنے جس طرح موقف پیش کیا اس سے یوں نظر آ رہا ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں ان کا پاکستان کی سیاست میں اہم کردار ہوگا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جون 1972ء میں شملہ مذاکرات کے دوران بے نظیر بھٹو کو متعارف کرانے کے لیے ان کا فوٹو سیشن اندراگاندھی سے کروایا تھا جبکہ محترمہ نصرت بھٹو پس پردہ رہیں۔ اس وقت کے دائیں اور بائیں بازو کے پرنٹ میڈیا نے بے نظیر بھٹو کے مغربی لباس پر نکتہ چینی کی تھی اور بھارتی مسلمانوں نے بھی مایوسی کا اظہار کیا تھا، لیکن محترمہ مریم نواز نے اپنے لباس اور رکھ رکھائو سے پاکستانی ثقافت کو اہمیت دی ہے۔
دورہ امریکہ کے اختتام پر وزیر اعظم کی طرف سے امریکہ کو پاکستان کا دوست کہنا قبل از وقت ہے۔ امریکہ پاکستان کی درخواست کے باوجود بھارتی مداخلت کے بارے میں خاموشی اختیار کرے گا۔ امریکہ صرف اپنے مفاد کی بات کرتا ہے، اس نے ماضی میں پاکستان کو ناقابل تلافی نقصانات پہنچائے۔1971ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران صدر نکسن کی خواہش کے برعکس پینٹا گان نے پاکستان کو دولخت کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ امریکہ کی خاموش ڈپلومیسی کے تحت وزیر اعظم بھٹوکو راستے سے ہٹانے کے لئے جنرل ضیاء الحق سے ساز باز کی گئی اور پھر 1980ء کی دہائی میں پاکستان کو استعمال کرتے ہوئے سوویت یونین کی افغانستان میں مداخلت پر جنگ لڑی اور بعد میں پاکستان کو اندھے کنویں میں دھکیل کر اپنی راہ لی۔ امریکہ کی درندگی کے باعث عراق کے لاکھوں افراد جاں بحق ہوگئے، عراق اپنی سالمیت سے محروم ہوکر داعش کے ہاتھوں یرغمال بن گیا۔ برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر نے اب معافی مانگ کر امریکہ کا تاریک چہرہ دکھا دیا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کو امریکی صدر اوباما سے ملاقات سے پیشتر الطاف گوہرکی کتاب فیلڈ مارشل ایوب خان کا مطالعہ کرنا چاہیے تھا جس میں انہوں نے ایوب خان کے کلاسیفائیڈ خطوط کا حوالہ دیا جو انہوں نے صدرکینیڈی اور وزیر اعظم چو این لائی کو لکھے تھے۔ پاکستانی میڈیا کی توجہ واشنگٹن میں وزیر اعظم نواز شریف کی وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر بارک اوباما سے ملاقات پر مرکوز تھی، تاہم وائٹ ہاؤس کے دوسرے حصے میں دختر اول مریم نواز اپنا عالمی سیاسی کیریئر شروع کر رہی تھیں۔ محترمہ مریم نواز نے خاتون اول مشیل اوباما کے ساتھ کھڑے ہوکر بچیوں کی تعلیم پر پہلی بار تقریرکی۔ مبصرین کا خیال ہے کہ مریم مشیل ملاقات کا محور تعلیم تھا، لیکن اہم خبر یہ ہے کہ امریکی اس دورے اور تعلیمی پروگرام کو محترمہ کے سیاسی تعارف کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ سفارتی حلقوں کا خیال ہے کہ مریم نواز کو میاں نواز شریف کی سیاسی جانشین کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، ورنہ کیا وجہ ہے کہ مشیل اوباما نے لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے حیران کن طور پر مریم نوازکے ساتھ کام کرنا مناسب سمجھا۔ مریم نوازکو امریکی خاتون اول کی طرف سے خصوصی دعوت نامہ پہنچانے کی ذمہ داری جنوبی ایشیاکے معاملات پر صدر اوباما کے اہم مشیر ڈاکٹر پیٹر لیوکو سونپی گئی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکی مستقبل کے لیے کیا منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ جوہری معاملات پر امریکہ کے پرنسپل مذاکرات کار ڈاکٹر لیو ہی ہیں۔ ان کے ذریعے مریم نوازسے رابطے کو پاکستان میں کئی حلقے دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں۔ باخبر حلقوں کا خیال ہے کہ پاکستان کے موجودہ سیاسی ماحول کے پس منظر میں امریکی حکومت کو محسوس ہوا کہ محترمہ مریم نواز سے رابطے بڑھانے چاہئیں،یہی وجہ ہے کہ مریم نوازکے ٹویٹر پیغامات کو حکومتی معاملات کے بارے میں معلومات کا ایک اچھا ذریعہ تصورکیا جا رہا ہے۔ وہ پس پردہ رہ کر حکومتی میڈیا کے معاملات کو بھی مستعدی اور ذہانت سے دیکھ رہی ہیں۔ میاں نواز شریف بھی مریم نواز کی سیاسی اور سفارتی تربیت اسی طرح کر رہے ہیں جیسے بے نظیر بھٹو کی وزیراعظم بھٹو نے کی تھی، شملہ مذاکرات میں اپنے ہمراہ رکھا تھا اور ان کی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے غیر رسمی ملاقات کروائی تھی۔ امریکیوں کی طرف سے مریم نوازکو سفارتی سطح پر اہمیت دینے سے ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ شریف برادران کی سربراہی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کو مستقبل کی بڑی سیاسی قوت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ادھر خطے میں اہم واقعات تیزی سے رونما ہو رہے ہیں جبکہ عمران خان کی تحریک انصاف انتخابی دھاندلیوں کی دلدل سے باہر نہیں نکل رہی اور وہ حلقہ 122 کے گرداب میں پھنسی ہوئی ہے۔
پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ شروع ہو چکا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کو اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ مستحکم جمہوریت کے لیے ان دونوں جماعتوں کا میدان میں ہونا ضروری ہے۔ تحریک انصاف کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے درمیان اپنا راستہ بنائے، پنجاب میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے کے لیے اس طرح میدان میں اترے جس طرح این اے 122میں اپنا سیاسی سرمایہ جھونکا تھا۔ اگر تحریک انصاف بلدیاتی انتخابات میں برتری حاصل نہ کر سکی تو مستقبل کی حکومت کی باگ ڈور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ہاتھوں میں ہی رہے گی اور محترمہ مریم نواز پاکستان کی وزیر اعظم بن کر محترمہ بے نظیر بھٹو کے بعد اسلامی ممالک کی دوسری خاتون وزیر اعظم کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیںگی۔
پاکستان کے صف اول کے سیاسی رہنمائوں کو مشرق وسطیٰ کی بھڑکتی ہوئی آگ کی طرف توجہ دینی چاہیے کیونکہ اس نے کئی ملکوںکو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ شام میں روس کی فوجی مداخلت نے عالمی منظر تبدیل کر دیا ہے، سرد جنگ کے خاتمے کے بعد روس نے پہلی بار عالمی سیاست کی بساط پر ایک بڑی چال چلی ہے۔ داعش کے خطرے نے نئے معاہدوں اور مفاہمتوں کو جنم دیا ہے۔ یورپ پناہ گزینوںاور تارکین وطن کی یلغار سے پریشان ہے۔ یمن کی خانہ جنگی پرکسی کی نظر نہیں۔ غرض وقت کروٹ لیتا دکھائی دے رہا ہے اور یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ ان حالات کیسا توازن جنم لے گا؟ 
پاکستان میں حالات جنرل راحیل شریف کی حکمت عملی کی وجہ سے بہتر ہو رہے ہیں۔ وفاقی حکومت نے لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر جنجوعہ کو وزیر اعظم کا مشیر برائے قومی سلامتی بنا دیا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال کے دوران نیشنل سکیورٹی ڈویژن کا کوئی اجلاس منعقد نہیں ہوا۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ سرتاج عزیز سے ذمہ داریاں واپس لینے اور چند ہفتے قبل ریٹائر ہونے والے فوجی جرنیل کو تقویض کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سرتاج عزیز جو بظاہر مستعددکھائی دیتے ہیں لیکن پیرانہ سالی میں دو اہم مناصب کا بوجھ اٹھانا ان کے لیے مشکل ہو رہا تھا۔ ایک ایسے وقت میں جب بھارت کی جانب سے جارحانہ اقدامات کے باعث لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر کشیدگی کے علاوہ بھارت کے اندر بھی ہندو انتہا پسندوں خاص طور پر شیو سینا نے نفرتوںکا الاؤ بھڑکا دیا ہے۔ انہوں نے مسلمانوں پر زمین تنگ کرنے کی مہم شروع کرکے آگ و خون کی ہولی کھیلنا شروع کر دی ہے۔ اس بھیانک صورت حال کے پیش نظر بھارت کے کئی مایہ نازادیبوں اور دانشوروں نے احتجاجاً سرکاری اعزازات واپس کر دیے ہیں جن میں پنڈت جواہر لال نہرو کی بہن وجے لکشمی پنڈت کی بیٹی نین تارا سہگل بھی شامل ہیں۔ پاکستان کو شیوسینا کی دہشت گردی پر نظر رکھنا ہوگی۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ اپنی سرحدوں کو پر امن بنائیں اور اپنی معاشی ترقی کو اپنا پہلا ہدف قرار دیں۔ اس مقصد کے لیے ہمیں اپنی صفوں کو درست کرنا ہوگا۔ جنرل جنجوعہ کو نیشنل سکیورٹی ڈویژن کو فعال کرکے بلوچستان کے حالات پر بھی کڑی نگاہ رکھنی ہوگی۔ بلوچستان کے عوام انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ وہ اپنی اعلیٰ مہارت کو بروئے کار لا کر نواب اکبر بگٹی کے جانشیں براہمداخ کی ناراضگی کا ازالہ کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ نواب زادہ براہمداخ اپنے سوتیلے کزنوں کو نزدیک نہیں آنے دیں گے اور ان کا شاہ زین بگٹی سے بھی کوئی سروکار نہیں ہے جن سے مرحوم نواب اکبر بگٹی اپنی زندگی میں ہی لا تعلقی کا اظہار کر چکے تھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں