"KDC" (space) message & send to 7575

تحریک انصاف کے لیے لمحہ فکریہ

ملک کے بڑے صوبوں پنجاب اور سندھ میں تقریباً سات سال کی بظاہر بلاجواز تاخیر اور غیر آئینی اقدام کے بعد بالآخر سپریم کورٹ کی سرزنش کے بعد مقامی حکومتوں کے انتخابات کا پہلا مرحلہ پایہ تکمیل کو پہنچ چکا ہے۔ بلوچستان میں دو سال پہلے اور خیبر پختونخوا میں اس سال مئی میں بلدیاتی انتخابات ہوئے۔ خیبر پختونخوا کے انتخابات بدنظمی کے شکار ہوئے جہاں تحریک انصاف انتخابی اصولوں سے انحراف کرتے نظر آئی۔ 
الیکشن کمیشن نے حسب روایت نظم و ضبط بر قرار رکھنے، 
بے قاعدگیوں اور قانون کی خلاف ورزی روکنے کے لیے پریذائڈنگ افسروں کو تین دن کے لیے مجسٹریٹ کے اختیارات دے دیے تھے، جن کے تحت وہ خلاف قانون کارروائیوں میں ملوث افراد کو موقع پرگرفتار کر کے چھ ماہ کے لئے جیل بھیج سکتے تھے۔ یہ اختیارات 1988ء سے پریذائڈنگ افسروں کو تفویض کیے جاتے رہے ہیں، لیکن ان پر عملدرآمد کسی بھی انتخابی عمل میں ہوتا نظر نہیں آیا۔ پریذائڈنگ افسر قومی و صوبائی اسمبلی کے ارکان اور حلقے کے امیدواروں کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہوتے اور تشدد کا نشانہ بنتے رہے۔ صرف حیدر آباد کی خاتون امیدوار حمیدہ شاہ کو الیکشن کمیشن نے نااہل قرار دے دیا تھا، پریذائڈنگ افسر نے کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔ پولنگ کا عملہ صوبائی حکومتوں کے ہاتھوں اس لیے یرغمال بنا نظر آتا ہے کہ وہ اپنے مستقبل کے تحفظ کے لیے بااثر امیدواروں کے رحم وکرم پر ہوتا ہے۔ 
حالیہ انتخابات کے موقع پر فیصل آباد میں عابد شیر علی گروپ اور رانا ثناء اللہ گروپ ضابطہ اخلاق کی کھلی خلاف ورزی کرتے رہے، لیکن تمامتر آئینی و قانونی اور عدالتی اختیارات سے لیس ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر اپنی کم مائیگی اوراحساس کمتری کے بوجھ تلے دبے رہے۔ چنانچہ الیکشن کمیشن کے سیکرٹری کے حکم پر کارروائی کرنا پڑی۔ سندھ کے عمر رسیدہ وزیر اعلیٰ اپنا ووٹ کا سٹ کرنے کے لیے پولنگ چھ گھنٹے کے لیے بند کرا دیتے ہیں اور لاہور میں وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے پولنگ سٹیشن آنے کے لیے گھنٹوں پولنگ معطل کرنا پڑی؛ حالانکہ انتخابی قوانین کی رو سے وہ عام ووٹر ہیں اور ان کے لئے پولنگ کا عمل رکوانا عوامی نمائندگی کے ایکٹ 76 کی دفعہ 79 کی خلاف ورزی ہے۔ انتخابی قوانین میں وارننگ کے ساتھ موجود ہے کہ پولنگ عمل سوائے تشدد یا تصادم کے روکا نہیں جا سکتا۔ راقم الحروف نے تھائی لینڈ، انڈونیشیا، سری لنکا اور بنگلا دیش کے انتخابات کا مشاہدہ کیا۔ ان ممالک کے صدور وزرائے اعظم نے عام ووٹر کی حیثیت میں اپنے ووٹ پول کیے، کسی جگہ پولنگ کا عمل نہیں روکا گیا۔ 
الیکشن کمیشن کی اپنی تیاری کے باوجود صوبائی حکومتوں کی سیاست زدہ انتظامیہ نے لوکل گورنمنٹ الیکشن میں اہم کردار ادا کیا۔ وہاڑی کے اشفاق دولتانہ کے گھرانے کے افراد کی طرف سے پولنگ سٹیشن کے اندر پولیس گردی کا شرمناک مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔ پنجاب کے دیہی پولنگ سٹیشنوں پر پولیس نے انتخابی عمل میں بلا جواز مداخلت کی اور حکمران جماعت کے پینل کو کامیاب کرانے کے لیے 1951ء کے انتخابات کی طرز پر ''جھرلو‘‘ کی اصطلاح کا عملی اعادہ کیا۔ امیدواروں، سیاسی رہنمائوں، بااثر شخصیات اور پولیس اہلکاروں کی طرف سے ووٹروں کو کسی خاص امیدوار یا حکمران جماعت کے حق میں ووٹ دینے پر قائل کرنے کے متعدد واقعات سامنے آئے۔ دیہی علاقوں میں پولنگ میں رخنہ اندازی کا عمل ماضی کی طرح برقرار رہا اور سیاسی جماعتوں کے کمزور ڈھانچے کے سبب ریاستی مشینری استعمال ہوئی۔
حالیہ بلدیاتی الیکشن میں تحریک انصاف کی تنزلی سامنے آئی۔ پاکستان کے وہ عوام جو تحریک انصاف کو ملک کی دوسری بڑی سیاسی پارٹی کے طور پر دیکھنے کے خواہش مند تھے انہیں صدمہ پہنچا۔ تحریک انصاف نے عوام کے سامنے جاگیر داروں اور صنعت کاروں کے غلبے سے نجات دلانے کا بہت ہی پُرکشش منشور پیش کیا تھا جس کی وجہ سے ان کی بڑی امیدیں اس سے وابستہ ہو گئی تھیں۔ تحریک انصاف نے صاف شفاف انتظامیہ دینے اور ملک کو خود کفیل بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ اب عمران خان اپنی پارٹی کے ساتھیوں کا احتساب کر سکتے ہیں، انہیں اپنے بیانات اور میڈیا انٹرویوز کی روشنی میں اپنی غلط حکمت عملی کا جائزہ لیتے ہوئے احتساب کرنا چاہیے۔12 اگست 2014ء سے 15ستمبر 2014ء تک تحریک انصاف کی مقبولیت کا گراف بہت بلند ہو چکا تھا، جس کے باعث حکومت پر بھی لرزہ طاری تھا۔ لیکن لوکل گورنمنٹ الیکشن کے پہلے مرحلے میں اسے جس گراوٹ کا سامنا کرنا پڑا اسے سنبھالنا بہت مشکل ہوگا۔ عمران خان اندر اور باہر سے پریشانی کا شکار ہیں۔ 10نومبرکو پارٹی کے سابق بانی رہنما اکبر ایس بابرکی پارٹی فنڈزکے بارے میں اہم سماعت الیکشن کمیشن میں ہو رہی ہے، تحریک انصاف کے لیے اس گرداب سے نکلنا ایک مشکل مرحلہ ہوگا۔
عمران خان کو چاہیے کہ بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے سے پہلے اپنی پارٹی کے ان رہنماؤں کو نکال باہر کریں جنہوں نے عوام کودھوکہ دیا ہے۔ وہ پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ میں بیٹھ کر ذوالفقار علی بھٹوکی طرز پر اسے عوامی پارٹی بنائیں اور ان مفاد پرست رہنمائوں سے چھٹکارا حاصل کریں جن کا جھکاؤ حکمرانوں کی طرف ہے۔ شنید ہے کہ صوبائی اسمبلی کے ایک رکن نے حلقہ 122 کے انتخاب کی رات حکمران جماعت کے سینئر رہنمائوں سے خفیہ ملاقات کی تھی۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ پنجاب کے ذمہ دار رہنما پارٹی سے علیحدہ ہونے کی سوچ رکھتے ہیں اور اس کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ جس طرح پارٹی کے معاملات چلائے جا رہے ہیں اس سے وہ ناخوش ہیں۔ یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ تحریک انصاف میں فعال فارورڈ بلاک بنانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ عمران خان کو چاہیے کہ وہ پارلیمنٹ میں اپنی سیاسی قوت کا بھر پور مظاہرہ کرتے ہوئے جاندار اپوزیشن کا کردار ادا کریں اور سینیٹ میں بھی اپنے وجود کا احساس دلائیں۔ عمران خان متحدہ اپوزیشن بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کیونکہ تمام سیاسی جماعتوں نے ان سے لا تعلقی اختیارکر رکھی ہے۔ عمران خان میڈیا سے بھی کم سے کم رابطے رکھیں بالخصوص ان اینکر پرسنزکو انٹرویو دینے سے گریزکریں جو مشکوک لائن پر کام کر رہے ہیں۔
عمران خان نے میاں نواز شریف کو 2013ء کے قومی انتخابات کے بعد خواب غفلت سے جگا دیا تھا۔ وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں دوسری سیاسی جماعتوں کو اپنے ساتھ ملا کر عمران خان کو پارلیمانی شکست سے دوچارکیا اور ان کا احتجاجی معرکہ ناکام بنا دیا تھا۔ میاں نواز شریف کی کامیابی متوسط طبقے کی مرہون منت ہے۔ انہوں نے موٹر وے، میٹرو بس، ییلوکیب سکیم، بے روزگار نوجوانوں کے لیے قرضوں کے منصوبے اور بے نظیر انکم سپورٹ سکیم کے ذریعے غریب 
اور متوسط طبقوںکو اپنے ساتھ ملانے کی کامیاب کوشش کی۔ علاوہ ازیں پاک چائنا راہداری منصوبے کی چمک سے پاکستانی عوام کو روشنی کی نئی کرن نظر آئی ہے۔ جنرل راحیل شریف کے تعاون سے وزیر اعظم اس میگا پراجیکٹ کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ ادھر عوام نے بھی احتجاجی تحاریک سے بیزاری اظہارکرنا شروع کر دیا ہے۔ عمران خان کے بار بار موقف بدلنے سے بھی ان کی ساکھ مجروح ہوئی ہے۔ اب عمران خان کو اپنی پارٹی کی تنظیم نو اور 2018ء کے عام انتخابات کی تیاری جنگی بنیادوں پر کرنی چاہیے۔ 
مقامی حکومتوں کے موجودہ نظام میں صوبائی بیوروکریٹس بہت مضبوط اور فعال ہیں، تمام فنڈز وہی کنٹرول کر رہے ہیں۔ لیکن آزاد امیدواروں کی بہت بڑی تعداد میں کامیابی ظاہر کرتی ہے کہ حکمران جماعت اب ان کے رحم و کرم پر ہے۔ ویسے یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ آزاد امیدوار اپنی علیحدہ شناخت برقرار رکھتے ہوئے متحدہ مسلم لیگ کے قیام کی جانب پیشرفت کرنے کے خواہاں ہیں۔ ان کی پشت پر ذوالفقار کھوسہ اور غوث علی شاہ جیسی جہاندیدہ شخصیات کام کر رہی ہیں۔ بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی اپنا وجود کو برقرار رکھنے میں ناکام ہو گئی ہے، دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی ادراک ہونا چاہیے کہ مسلم لیگ (ن) کی پنجاب میں جڑیں بہت گہری ہیں۔ میاں برادران کی ترقی کا ایجنڈا متوسط طبقے، تاجر برادری، جاگیر دار اور سرمایہ دار طبقے کو بہت پسند ہے۔ میاں برادران نے سول بیوروکریسی کو اپنے ساتھ شامل کرنے کا جو منصوبہ 1985ء میں گورنر جیلانی کی مشاورت سے بنایا تھا اب وہ تن آور درخت بن چکا ہے۔ عسکری قیادت کی نگاہیں پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت اور اندرونی اور بیرونی سازشوں سے نبرد آزما ہونے پر مرکوز ہیں۔ پاک چائنا راہداری منصوبے کو کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچانے کا عزم جنرل راحیل شریف 6 ستمبرکی تقریر میں کر چکے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں