"KDC" (space) message & send to 7575

الیکشن: دھاندلی کے سا ئنٹیفک طریقے

الیکشن کمیشن نے پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے نتائج کا اعلان کر دیا ہے۔ ان انتخابات میں11مئی2013 ء کے عام انتخابات کی بے ضابطگیاں بھی سامنے آگئی ہیں۔ طریقہ کار کے نقائص اور غیر قانونی حرکات کی موجودگی سے انتخابی عمل کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی کمزوریاں بھی عیاں ہوئیں جن پر چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار محمد رضا نے ناراضگی کا اظہارکیا۔ اب تک جو صورت حال سامنے آئی ہے اس سے بلدیاتی انتخابات میں کوئی جماعت چاروں صوبوں میں یکساں مقبولیت حاصل نہیں کر پائی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی نے انہی صوبوں میں اکثریت حاصل کی جہاں ان کی حکومتیں قائم تھیں۔ یہ اس عوامی خواہش کا اظہار ہے کہ ووٹر انہی حکومتوں سے بہترکارکردگی کی توقع رکھتے ہیں جنہیں پہلے ہی صوبوں میں حکمرانی کا موقع مل چکا ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد بھی کامیاب ہوئی۔ ان کی اکثریت مختلف سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھتی ہے مگر انہیں پارٹی ٹکٹ نہ ملا اس لیے وہ آزاد حیثیت میں کھڑے ہوگئے۔کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں ووٹرزکے مزاج کا علم تھا اور وہ جانتے تھے کہ وہ اپنی پارٹی کے ٹکٹ پرکامیاب نہیں ہو سکیں گے۔کامیابی کے بعد یہ ارکان پھر اپنی پارٹیوں میں چلے جائیں گے جو عوام کی توہین و تضحیک کے مترادف ہے، اس لیے کہ ووٹروں نے انہیں پارٹی سیاست سے بالا تر ہوکر ووٹ دیے تھے۔ 
قومی اور بلدیاتی انتخابات میں بااثر امیدوارکامیابی کے لیے دھاندلی کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ دھاندلی کے کچھ طریقے پولنگ کے دن اورکچھ اس سے پہلے استعمال کیے جاتے ہیں۔ انتخابی عملے کی تعیناتی، ترقیاتی فنڈزکا استعمال، پولنگ ایجنٹوں اور ووٹوں کی خریداری کو انتخاب سے پہلے دھاندلی کا نام دیا جاتا ہے۔ جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات میں حکمران جماعتیں ہی پری پول دھاندلی کے طریقے استعمال کرتی ہیں۔ ماضی میں بلدیاتی انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوتے رہے، جن میں کئی پرانے سیاسی خاندانوں کے افراد اور با اثر شخصیات اپنے اثر و رسوخ اور دولت کے 
بل بوتے پر پری پول دھاندلی کر کے اپنے امیدواروں کی کامیابی کی راہ ہموارکرتی رہیں۔ اب جبکہ میڈیا کا دور ہے اور عوام کاشعور بیدار ہو چکا ہے، نئی الیکشن ٹیکنالوجی اور دھاندلی کے نئے طریقے ایجاد ہونے لگے ہیں۔ انتخابی سیاست کے ماہرین، انتخابات سے پہلے اپنے امیدواروں کی کامیابی کے لیے ان کے انتخابی حلقوںکی حلقہ بندیاں اپنی مرضی سے کر واتے ہیں۔ مخالف امیدوار کا ووٹ بینک توڑنے کے لیے ان کی برادری کے گاؤں اور محلوںکو اپنے امیدوارکے حلقے سے نکال کر مختلف حلقوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ یہ سارا کھیل اختیارات، دولت اور وسائل کے بل بوتے پرکھیلا جاتا ہے جس میں ضلعی انتظامیہ اور نچلی سطح کے الیکشن اہلکار شامل ہوتے ہیں۔ حلقہ بندیوں کی تشکیل کے مطابق ہی انتخابی فہرستوں میں ووٹرزکے نام درج اور خارج ہوتے ہیں۔ حکومتی اور بااثر امیدوار حلقہ بندیوںکو جواز بنا کر اپنے حامی ووٹرزکا انتخابی فہرستوں میں اندراج اور مخالف امیدواروں کے حامی ووٹرز کے نام خارج کروا کے ان کی سیاسی طاقت کمزور کرنے کے حربے استعمال کرتے ہیں۔ 1974ء اور 1988ء میں جعل سازی کے یہی طریقے استعمال کیے گئے تھے۔ سابق وزیر اعظم بھٹو نے 1975-1976ء میں پنجاب میں پری پول دھاندلی کے ایک ماہر کو وزیر اعظم ہائوس میں بٹھا کر حلقہ بندیاں کرائیں، بعد ازاں جن کی الیکشن کمیشن نے توثیق کر دی۔ اسی طرح 1988ء میں ازسرنو حلقہ بندیاں 1982ء کی مردم شماری کے مطابق کی گئیں۔ جنرل ضیاء الحق کے اشارے پرحلقہ بندیوں کا جو جال بچھایا گیا اس میں انتظامیہ نے کردار ادا کیا جس پر محترمہ بینظیر بھٹو، ولی خان، آفتاب شیر پاؤ اور دوسرے سیاستدانوں نے تحفظات کا اظہار بھی کیا تھا۔پھر1998ء کی مردم شماری کی بنیاد پر2002ء میں حلقہ بندیوں کی تشکیل نو ہوئی۔ خوش قسمتی سے ان حلقہ بندیوں پر بہت کم اعتراض داخل کرائے گئے، چند اعتراضات کراچی کی حلقہ بندیوںکے بارے میں ضرور داخل کرائے گئے تھے۔
1988ء، 1990ء اور1997ء میں گھوسٹ پولنگ سٹیشن دھاندلی کا موثر طریقہ تھے۔ الیکشن کمیشن نے اس کے ازالے کے لیے 2008ء کے انتخابات میں پولنگ سٹیشن اور پولنگ سکیم ویب سائٹ پر دکھا دی تھی۔ اس پر تمام سیاسی جماعتوں نے اطمینان کا اظہارکیا تھا۔ موجودہ بلدیاتی انتخابات پر اپوزیشن جماعتیں پری پول دھاندلی کے جو الزامات لگا رہی ہیں، ان میں اسی طرح کے حربے استعمال ہونے کے شواہد سامنے آئے ہیں۔ مبینہ طور پر وزراء اور ارکان اسمبلی نے اپنے انتخابی حلقوں میں اپنے امیدواروںکی یونین کونسلوں کی حلقہ بندیاں اپنی مرضی سے کروائیں۔ اس میں ضلعی افسروں کا بڑا عمل دخل رہا؛ حالانکہ حلقہ بندیوں کی تشکیل الیکشن کمیشن کا اختیار ہے لیکن اس کے حلقہ بندی افسروں نے ضلعی انتظامیہ کے افسروں پر انحصار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ حلقہ بندیوں کے خلاف 5000 اعتراضات داخل ہوئے جو ایک ریکارڈ ہے۔ 
اپوزیشن جماعتوں۔۔۔۔ تحریک انصاف، پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی، مسلم لیگ (ق) اور دیگرکی طرف سے بلدیاتی انتخابات کے لیے ہوم ورک نہ کرنے کے باعث ان کے امیدواروں نے حلقہ بندیوں پر زیادہ اعتراضات داخل نہ کروائے جس سے پری پول دھاندلی روکنے کا پہلا موقع ضائع ہو گیا۔ پنجاب کے 36 اضلاع میں حلقہ بندیوںکے خلاف زیادہ اعتراضات دائر ہوئے اور سب سے زیادہ415 اعتراضات ضلع فیصل آباد کے بلدیاتی امیدواروں نے داخل کرائے۔
لگتا ہے کہ حکومتی اور بااثر امیدواروں نے الیکشن کمیشن اور نادرا کے درمیانی درجے کے اہلکاروں کے ساتھ مل کر اپنے حلقوں میں ووٹروں کے ناموں کا اندراج اور اخراج کرا کے اپنی کامیابی کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی۔ یہ پری پول دھاندلی کا سائنٹیفک طریقہ ہے۔ حلقہ 122کے ضمنی انتخاب میں حکمران جماعت نے مبینہ طور پر یہ عمل نادرا کے ذریعے کروایا۔ چونکہ تحریک انصاف کے ہاں ان تکنیکی باریکیوںکا ادراک نہیں تھا اور نہ ہی انہوں نے الیکشن ٹیکنالوجی کے ماہرین کی خدمات حاصل کیں، لہٰذا ان کی خاموشی کا فائدہ مسلم لیگ (ن) کے سردار ایاز صادق نے اٹھایا۔ شنید ہے کہ اس حلقے میں ووٹروںکا اضافہ نادراکے ذریعے کرایا گیا جس کی الیکشن کمیشن سے باضابطہ منظوری حاصل نہیںکی گئی تھی۔
پری پول دھاندلی کا تیسرا طریقہ یہ ہے کہ حکومتی اور بااثر امیدوار الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ افسروں کے ساتھ مل کر اپنی مرضی کے پولنگ سٹیشن قائم کرواتے ہیں۔ اپنے حامی ووٹرز کے ووٹ ڈلوانے کے لیے قریب ترین پولنگ سٹیشن بنوائے جاتے ہیں اور مخالف امیدوار کے حامیوں کے لیے بہت دور تاکہ انہیں ووٹ کاسٹ کرنے میں مشکلات پیش آئیں۔ یہی طریقہ مبینہ طور پر بعض ریٹرننگ افسروں نے مئی 2013ء کے انتخابات میں اختیارکیا تھا، تقریباً 93 ریٹرننگ افسروں نے الیکشن کی رات کو ہی پولنگ سٹیشن تبدیل کر دیے، جو انتخابی قوانین کی خلاف ورزی تھی۔ اس طرح الیکشن کمیشن کی انفارمیشن ٹیکنالوجی، جس کے ذریعے موبائل فون پر پولنگ سٹیشنوں کی نشاندہی کی سہولت دی گئی تھی،کو بھی ناکارہ بنا دیا گیا۔
انتخابی دھاندلی کا اگلا مرحلہ یہ ہے کہ حکومتی اور با اثر امیدوار ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسروں اور ریٹرننگ افسروں کے ساتھ مل کر اپنے دوستوں، رشتے داروں اور ہم خیال سرکاری ملازمین کو پریذائڈنگ افسر،اسسٹنٹ پریذائڈنگ اور پولنگ افسرتعینات کرواتے ہیں تاکہ حامی ووٹروں سے جعلی ووٹ ڈلوانے میں آسانی ہو۔کہا جاتا ہے کہ 2013 ء کے انتخابات میں لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل نے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر لاہور کے تعاون سے اپنے محکمے کے تقریباًچالیس ہزار اہلکاروں کو لاہورکے چارحلقوں میں تعینات کروا دیا جن میں حلقہ 122,119,118 اور125 شامل تھے۔
انتخابی دھاندلی کروانے کے لیے بااثر امیدوار اپنے مخالف امیدوارکے پولنگ ایجنٹوں سے ساز بازکر کے انہیں اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ کئی بااثر امیدوار دولت کے بل بوتے پر اقلیتی اور پسماندہ علاقوں میں مقیم چھوٹی برادریوںکے سر کردہ افرادکو نذرانہ دے کر ان کے شناختی کارڈ اپنے پاس رکھ لیتے ہیں اور پولنگ کے روز اپنے پولنگ ایجنٹوں کی نگرانی میں ان کے ووٹ ڈلوائے جاتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو 1990ء ،1993ء اور 1997ء کے الیکشن میںشکایات ملی تھیں کہ لاہور کے بعض حلقوںکے بااثر امیدواروں نے اپنے حلقے کے غریب ووٹرز سے شناختی کارڈ حاصل کرکے انہیں مخصوص کارڈ دیے جن کے ذریعے وہ 50 دنوں کا راشن مفت حاصل کر سکتے تھے۔ 1990ئکے انتخابات میں سندھ کے وزیر اعلیٰ جام صادق علی مرحوم نے دیہی علاقوں کے ووٹروں سے شناختی کارڈ حاصل کر لیے تھے۔
بعض بااثر امیدوار پولنگ سٹیشنوں سے ریٹرننگ افسروںکے دفاتر جاتے ہوئے راستے میں پولنگ بیگ کھلوا کر ان میں رد و بدل کرانے کی کوشش کرتے ہیں، یہ کام پولنگ عملے کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بااثر امیدوار اپنے حلقوں میں ترقیاتی فنڈز اور ملازمین کی بھرتی کروا کر بھی ووٹروں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ 
الیکشن کمیشن کو شفاف انتخابات یقینی بنانے کے لیے اپنے قواعد و ضوابط پر سختی سے عمل کرنا اور کرانا چاہیے تاکہ انتخابی نتائج شکایات سے پاک ہوں اور ان پر عوام کا اعتماد بحال ہو۔ حکومت پر بھی لازم ہے کہ مقامی حکومتوںکے اختیارات میں اضافہ کرے تاکہ یہ عوام کی حقیقی معنوں میں خدمت کر سکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں