"KDC" (space) message & send to 7575

جمہوری، لبرل پاکستان کی طرف قدم

وزیر اعظم نواز شریف سرمایہ کاری کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں جب یہ کہہ رہے تھے کہ ''عوام کا مستقبل جمہوری اور لبرل پاکستان میں ہے ‘‘ تو ان کے سامنے فلسفیانہ مباحث کے ساتھ ساتھ یقینی طور پر وہ حالات بھی ہوں گے جن کا سامنا بیرونی سازش کے تحت اسلامی ملکوں میـں انتہا پسندی کے فروغ کے باعث پوری اسلامی دنیا بالخصوص مشرق وسطیٰ کو ہے۔ عالم اسلام کے اہم ملک پاکستان میں انتہا پسندانہ نعروں کے ساتھ غیر ملکی سرمایہ ، ہتھیار اور ٹیکنالوجی لے کر داخل ہونے اور وزیرستان کے لوگوں کو یرغمال بنانے والوں کا یہ بے رحمانہ روپ بھی سب کے سامنے ہے کہ انہیں شکایات تو مڈل ایسٹ کے بعض ممالک اور امریکہ سے ہیں، مگر نشانہ پاکستان کے عوام، فوج، تنصیبات ،اثاثوں اور معیشت کوبنایا گیا اور پاکستان کے وجود کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کی گئیں جو افغان مہاجرین کے حق میں آواز اٹھاتا رہا ، جو روس کی افواج کے جلد انخلاء کی پُرزوروکالت کرتا رہا اور افغانستان کے 30 سے 40 لاکھ پناہ گزینوں کی عشروں تک میزبانی اور ان کو ہر طرح کی معاشی سہولتیں فراہم کر تا رہا۔ ان حالات میں وزیر اعظم نواز شریف سمیت تمام پاکستانی رہنماؤں کا جمہوریت اور لبرل ازم کی بات کرنا اور اسے بار بار دہرا کر پوری قوم کی توجہ درست سمت کی طرف موڑنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ بھارت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے برسر اقتدار آنے کے بعد حکومتی سطح پر انتہا پسندانہ نعروں ، مذہبی تعصبات اور پاکستان مخالف جذبات کو ابھار کر جس آگ کو ہوادی جا رہی ہے اس میں آگے چل کر بھارت کے لئے جو سنگین خطرات ہیں وہ اپنی جگہ، مگر اس کا ہمسایہ ملک ہونے کے باعث پاکستان کے لئے بھی کئی خطرات پوشیدہ ہیں۔ سابق صدر پرویز مشرف نے انہی حالات میں ''سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا سلوگن دیا تھا اور اسی ڈگر پر چل کر وزیر اعظم نواز شریف جمہوری اور لبرل پاکستان کی بات کر رہے ہیں۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے 11 اگست 1947ء کو آئین ساز اسمبلی میں جو دانشورانہ وژن قوم کو دیا تھا، اسے ہماری ان جماعتوں نے سبوتاژ کرا دیا جنہوں نے پاکستان کے قیام کی شدید مخالفت کی تھی اور ملک کوایسے گرداب میں الجھا دیا کہ اب پاکستان کے قیام کی تھیوری کو ہی متنازعہ بنانے کی کوششیں جاری ہو چکی ہیں اور نظریۂ پاکستان کی غلط تشریح کی جا رہی ہے۔ قرار داد مقاصد جو مارچ 1949 ء میں متفقہ طور پر آئین ساز اسمبلی نے منظور کی تھی، اسے 3مارچ 1997 ء کو جنرل ضیاء الحق نے لیگل فریم آرڈر کے تحت تبدیل کرا دیا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین محترم جج ثاقب نثار نے اپنے فیصلے میں انکشاف کیا ہے کہ قرار داد پاکستان کا اصل متن بھارت کے آئین سے اخذ کیا گیا ہے ۔ان حالات میں ہمارا نوجوان جب رہنمائی کے لئے اپنے رہنمائوں کی طرف دیکھتا ہے تو وہاں ان کو سوائے میگا کرپشن کے کچھ نظر نہیں آتا، یا پھر ہمارے رہنما اشاروں کنایوں میںافواج پاکستان کی تضحیک کرکے قوم میں بے چینی اور اضطراب پھیلاتے نظر آ رہے ہیں اور سابق صدر زرداری افواج پاکستان کے خلاف جو کچھ اپنے مخصوص پارلیمنٹرینز سے کروا رہے ہیں وہ سب کے سامنے ہے۔
بلدیاتی انتخابات پہلے مرحلے میں مذہبی جماعتوں کے لئے چشم 
کشا ہیں، جہاں پارٹی کے مرکزی رہنماؤں کے بیٹوں نے دیگر سیاسی جماعتوں کے نشانات پر انتخاب لڑا۔ نتائج ان جماعتوں کے لئے زیادہ مایوس کن ہیں۔ جماعت اسلامی نے تحریک انصاف کے اتحادی کی حیثیت سے انتخاب لڑا، اس کے باوجود دونوں ہی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکیں اور ووٹروں نے دونوں جماعتوں کے فیصلے کو مسترد کر دیا۔ پاکستان کے عوام زیادہ تر لبرل سیاست کے حق میں ووٹ دیتے ہیں۔ مذہبی جماعتیں اپنی قدامت پرستی کے باعث خلاء پر کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ 1964-1965ء میں محترمہ فاطمہ جناح اور صدر ایوب خان کے درمیان صدارتی انتخاب کے بعد مذہبی جماعتوں نے مواقع گنوا دئیے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ان انتخابات میں ایوب خان کے چیف پولنگ ایجنٹ کے طور پر قوم کی نبض پہچان لی تھی۔ مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کا موقف رہا کہ صدارتی انتخابات میں دھاندلی یا جھرلو کا استعمال نہیں ہوا۔ دراصل مغربی پاکستان کے عوام نے جگتو 
فرنٹ ثانی کو مسترد کر دیا تھا اور اسی بنیاد پر انہوں نے نومبر 1967ء میں پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی اور تین سال کے اندر انہوں نے لبرل جماعت کی حیثیت سے مغربی پاکستان میں انتخابات جیت لئے ،جبکہ جماعت اسلامی کو صرف تین نشستیں مل سکیں۔ اس کی پیروی میں 43 برس بعد تحریک انصاف ایک بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی اور مذہبی جماعتوں کو انتخابی جنگ میں پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ جماعت اسلامی کے مقابلے میں مفتی محمود (مرحوم) کی جمعیت علماء اسلام زیادہ حقیقت پسند ثابت ہوئی۔ اس نے ولی خان مرحوم کی نیشنل عوامی پارٹی کے ساتھ مل کر صوبہ سرحد اور بلوچستا ن میں حکومتیں قائم کیں، جبکہ جمعیت علماء پاکستان مولانا شاہ احمد نورانی کی رحلت کے بعد اپنی پارٹی کی مرکزیت کو برقرار رکھنے میں ناکام رہی۔ 2002ء سے 2013 ء تک تین انتخابات میں انتہا پسند مذہبی جماعتوں نے انتخابات میں شرکت سے انکار کیا بلکہ اپنے پیروکاروں کو ووٹ ڈالنے سے بھی روکا۔ دوسرے جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام کے قدامت پسند رویے بھی ووٹرز کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں ناکام رہے۔ اس کے نتیجہ میں ان جماعتوں کو لبرل اور ترقی پسند جماعتوں سے اتحاد پر مجبور ہونا پڑا۔ جماعت اسلامی جس کے پنجاب کے بڑے شہروں میں مضبوط مراکز تھے، اب وہ سٹریٹ پاور اور ووٹ بینک سے محروم ہوتی جا رہی ہے اور اس کے ووٹرز چار گروپس میں تقسیم ہو گئے ہیں۔ پہلے گروپ کا نواز لیگ کی جانب جھکاؤ، دوسرا تحریک انصاف کے حق میں، تیسرا انتخابی سیاست سے بے زار اور چوتھا انقلاب نواز یا انتہا پسندی کی جانب راغب ۔ 31اکتوبر کو پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں جماعت اسلامی، تحریک انصاف سے اتحاد کے باوجود صرف دو نشستیں حاصل کر سکی۔ نمایاں رہنماؤں لیاقت بلوچ اور فرید پراچہ کے بیٹوں نے دوسرے پلیٹ فارموں سے انتخاب لڑا اور ہار گئے۔ اب دوسرے اور تیسرے مرحلے کے انتخابات میں جماعتوں کی حیثیت مزید واضح ہو جائے گی، جماعت اسلامی کو کراچی اور حیدر آباد پر توجہ دینی ہو گی لیکن یہاں پر متحدہ قومی موومنٹ کا مکمل کنٹرول ہے۔ حیدر آباد اور کراچی میں اگر شکست ہوتی ہے تو جماعت اسلامی کے لئے یہ ایک نیک شگون نہیں ہوگا۔ تحریک انصاف سے اتحاد کے بعد جماعت اسلامی کا نظریاتی ووٹر تذبذب کا شکار ہے ۔ 19دسمبر 1984ء میں جنرل ضیاء الحق کے ریفرنڈم کی حمایت کے فیصلے پر ان کا شدید رد عمل سامنے آیا تھا اور انہوں نے گھروں میں بیٹھنے کو ترجیح دی تھی۔ تحریک انصاف سے اتحاد کے بعد بھی اسے ایسی ہی کشمکش کا سامنا ہے کہ ایسی جماعت سے کیوں اتحاد کیا گیا جو لبرل اور مغربی کلچر کی علمبردار ہے۔ جماعت اسلامی کے مقابلے میں جمعیت علماء اسلام زیادہ حقیقت پسند رہی ۔مولانا فضل الرحمن کی جماعت جنرل ضیاء الحق مخالف تحریک میں پیش پیش رہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ جنرل ضیاء الحق سے فائدے بھی اٹھائے، جب جنرل ضیاء الحق نے انہیں ہزاروں مدارس قائم کرنے کی اجازت دی، تا ہم بلدیاتی انتخابات میں جمعیت علماء اسلام کی کارکردگی بھی بہتر نظر نہیں آئی حتیٰ کہ اسے خواتین کی مخصوص نشستوں پر امیدوار ملنا بھی دشوار ہو گیا۔ 2002ء میں اسے اپنا حصہ جماعت اسلامی کو دینا پڑا۔ آئندہ انتخابات میں دو سال رہ گئے ہیں لہٰذا لبرل جماعتوں سے اتحاد کر کے ہی 2018ء کے انتخابات میں حصہ لینا ہوگا اور ترکی کے ماڈل کو مد نظر رکھ کر ہی سیاسی جماعتوں کو آگے بڑھنا ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں