"KDC" (space) message & send to 7575

نظریہ پاکستان اور ایک نیا تصور

قیام پاکستان کی بنیاد دین اسلام ہے۔ جدید لبرل ازم کا تصور مذہب اور عقائد سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ اس کے علمبرداروں کے نزدیک اسلام ایک مذہب سے زیادہ کچھ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام ایک دین ہے جو مکمل ضابطہ حیات اورجامع سیاسی تصور رکھتا ہے۔ شاید وزیر اعظم نوازشریف کوئی نیا سیاسی تصور دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے دو سال پیشتر انڈین لابسٹ فورم میں میں فرمایا تھا کہ انڈیا کے لوگ آلو پالک کھاتے ہیں اور یہاں کے پنجابی بھی آلو پالک شوق سے کھاتے ہیں، انڈیا کے عوام کلچہ کھاتے ہیں اور ہمارے لاہوری بھی کلچہ کھاتے ہیں ؛ چنانچہ تقسیم کی لکیر ہمیں علیحدہ کیسے رکھ سکتی ہے۔ بادی النظر میں وزیر اعظم نے یہ ریمارکس دے کر اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل65 سے انحراف کیاتھا۔ اگر عمران خان کو آئیڈیالوجی آف پاکستان کا مکمل ادراک ہوتا تو انہیں 126دنوں کے دھرنے کی ضرورت نہیں تھی، وہ وزیراعظم کے انہی ریمارکس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیتے تو وہ (وزیر اعظم) آئین کے آرٹیکل 65 کی زد میں آ جاتے۔ جس طرح بھارتی آئین سیکولر ہونے کی ضمانت دیتا ہے، اسی طرح پاکستان کا آئین آئیڈیالوجی کی حفاظت پر مامور ہے۔ اسی آئیڈیالوجی کی حفاظت کے لیے صدر مملکت، وزیر اعظم، چیف جسٹس آف پاکستان، ارکان پارلیمنٹ اور عسکری قیادت حلف اٹھاتے ہیں۔ ضروری ہے کہ تقسیم کی لکیرکو حقارت کی نگاہ سے دیکھنے کی سوچ ترک کر دی جائے۔ اس لکیر کی بنیاد میں 50 لاکھ سے زائد مسلمانوں کا خون شامل ہے، کئی لاکھ مسلمان خواتین کی عصمت اس لکیر میں پوشیدہ ہے، یہ لکیر آگ اور خون کی علامت ہے۔ عسکری قیادت نے انہی جغرافیائی حدود کی حفاظت کا حلف اٹھایا ہوا ہے۔ پاکستان کا مستقبل دین اسلام ہے، آئین پاکستان اس کی ضمانت دیتا ہے۔ بد قسمتی سے آج اقتدار ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو ملک کی نظریاتی بنیادوں کے عشر عشیر سے بھی واقف نہیں ہیں۔ اب نظریاتی سرحدوں کی راہ میں خلیج پیدا کرنے کے لیے امریکہ سے ایک نیا نعرہ درآمد ہو رہا ہے۔۔۔۔یعنی پاکستان کا مستقبل جمہوریت اور لبرل ازم سے وابستہ ہے۔۔۔۔انا للہ و انا الیہ راجِعون!
ہمارے ہاں جاگیر دار، سرمایہ دار اور برادریاں حکمرانوں کے ساتھ مل کر نظام چلا رہی ہیں۔ یہ لوگ اپنے مخصوص مشترک مفادات کی بنیاد پر 68 سال سے ملک پر مسلط ہیں۔ اگر عوام اپنے آپ میں سے نمائندے منتخب نہیں کریں گے تو یہ آئندہ سو سال بھی اسی طرح مسلط رہ کر قوم کے جذبات سے کھیلتے رہیں گے۔ بعض دانشور عوام کو انقلاب سے روکنے کے لیے ہر رات ایک نئے ڈرامے کے سکرپٹ سے قوم کو ایک نئی آس دلاتے رہتے ہیں۔ 
ملک کے سیاسی نظام میں تبدیلی کی خواہش رکھنے والی خاموش اکثریت کو ایک مرتبہ پھر ان کی خاموشی لے ڈوبی۔ پنجاب میں مسلم لیگ نون اور سندھ میں آصف زرداری کی پیپلز پارٹی نے پہلے مرحلے میں اپنی کامیابی منوا لی۔ عوام نے جس کو منتخب کیا وہی لیڈر ہے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے ناظرین اور قارئین کو حکومت کے ایما پر سہانے مستقبل کی نوید سنائی جاتی ہے۔ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں مسلم لیگ نون نے تقریباً 45 فیصد نشستیں حاصل کی ہیں۔ تحریک انصاف کے حصے میں گیارہ فیصد اور پیپلز پارٹی کے حصے میں دو فیصد سے بھی کم نشستیں آئیں جبکہ آزاد امیدوار چالیس فیصد نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ یہ نتائج تمام سیاسی جماعتوں کے لیے اہم اشارے لیے ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف کی تنقید اور اس کی طرف سے حکومت کو عدم استحکام سے دو چار کرنے کی کوشش کے باوجود نواز لیگ نے اپنا ووٹ بینک قائم رکھا۔ بلدیاتی انتخابات کے دوسرے اور تیسرے مرحلوں کے انتخابات کے نتائج بھی اسی طرح سامنے آئیں گے بلکہ تحریک انصاف کا گراف مزید کم ہونے کا امکان ہے۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیںکہ 2018ء میں کس کی حکمرانی ہوگی۔
وزیر اعظم کی طرف سے پاکستان کو لبرل ملک بنانے کی بات پر دائیں بازو کے حلقے حیرت زدہ ہیں کیونکہ ان کے خیال میں پاکستان مسلم لیگ (ن) دائیں بازو کے نظریات رکھنے والی سیاسی
جماعت ہے۔ ان حلقوں کے خیال میں پاکستان کو لبرل بنانے کی بات قائد اعظم محمد علی جناح کے نظریات اور نظریہ پاکستان کے منافی ہے۔ یہ حلقے بجا طور پر لبرل ازم کو نظریہ پاکستان سے متصادم قرار دے رہے ہیں۔ جمہوریت اپنی روح اور اپنے جوہر میں آئیڈیالوجی ہی ہوتی ہے! وزیر اعظم نواز شریف نے حالیہ امریکی دورے میں سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور پینٹاگون کی قیادت سے مذاکرات کے بعد، معید یوسف کے امریکی تھنک ٹینک کے شرکاء سے خطاب کے بعد نیو ورلڈ آرڈرکی پالیسی کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان کے لبرل ہونے کی بات کی۔ امریکی تھنک ٹینک کی یہ تھیوری کہ دنیا میں انتہا پسندی کی لہر اٹھ رہی ہے، حقیقت نہیں۔ انتہا پسندی کی لہر عوام کی طرف سے نہیں اٹھی بلکہ امریکی اور مغربی طاقتوں کی شعوری منصوبہ بندی کے تحت مصنوعی طور پر انتہا پسندی کے ذریعے نیا عالمی ضابطہ اور امریکی ایجنڈا نافذ کرنے کی کوشش کی گئی۔ پوری دنیا کو عموماً اور اسلامی دنیا کو خصوصاً دہشت گردی اور انتہا پسندی کا نشانہ بنایا گیا۔ امریکی منصوبہ بندی کے تحت جب صدر صدام حسین کی حکومت ختم کی گئی تو اس وقت اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے صدام حسین کی 28 سالہ صدارتی حکمت عملی اور عراق میں ان کی مقبولیت کے بارے میں رپورٹ منگوائی جو بغداد میں اقوام متحدہ کے برازیل سے تعلق رکھنے والے خصوصی نمائندے نے مرتب کی۔ برازیل کے اس دانشور نمائندے نے اپنی رپورٹ میں خطرے کی نشاندہی کرتے
ہوئے کہا تھا کہ عراق کی سات نسلیں بھی صدام حسین کے فلاحی منصوبے کی وجہ سے ان کا احسان نہیں اتار سکتیں، اب عراق میں ہر پیدا ہونے والا بچہ صدام حسین کا ہی کردار منفی طور پر ادا کرے گا اور جن عرب ممالک نے صدام حسین کے خلاف جنگ لڑی ہے، ان کو برباد کرنے کی منصوبہ بندی ان میں شامل ہوگی۔ اس نمائندے نے یہ بھی کہا تھا کہ صدام حسین کی دس لاکھ فوج جو ایک عظیم تر حکمت عملی کے تحت نظروں سے آناً فاناً غائب ہوگئی ہے، آگے چل کر ایک ایسی گوریلا جنگ لڑے گی کہ امریکی ریاست کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا۔ اتفاق سے2007ء میں اقوام متحدہ کا یہی نمائندہ یو این ڈی پی کے ایک پراجیکٹ کے دعوت پر پاکستان آیا تھا اور میں اسی پراجیکٹ کا الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے چیئر مین تھا۔ اس نمائندے نے اقوام متحدہ کے مشن کے تحت پاکستان میں 2007-2008 ء کے انتخابات کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان کی سیاسی جماعتوں سے ملاقاتیں کرنا تھیں۔ اس نمائندے نے راقم الحروف کے ساتھ یہ رپورٹ شیئرکی تھی۔ اس نے جماعت اسلامی کے مرحوم قاضی حسین احمد، پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت اور دیگر سیاسی جماعتوں کے سربراہوں سے ملاقات کر کے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے اندرونی ڈھانچے کی رپورٹ کوفی عنان کو بھجوائی تھی۔ عراق میں جس کوکھ سے داعش نے جنم لیا ہے اس میں سابق صدر صدام حسین کی دس لاکھ تربیت یافتہ فوج کی اکثریت شامل ہے۔ عراق کے آس پاس کے ممالک جنہوں نے امریکی مفادات کو فروغ دیا تھا، اب ان کی حکومتوں اور مملکتوں کا زوال شروع ہو چکا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں